آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے 4 روزہ اٹھارہویں عالمی اردو کانفرنس 2025ء جشنِ پاکستان کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس کا انعقاد آڈیٹوریم II میں کیا گیا، جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، معروف شاعرہ زہرا نگاہ، ماہرِ تعلیم و دانشور پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، نائب صدر منور سعید، جوائنٹ سیکریٹری نور الہدیٰ شاہ اور سیکریٹری آرٹس کونسل اعجاز فاروقی نے بریفنگ دی جس میں صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ 4 روزہ ’عالمی اردو کانفرنس 2025ء جشنِ پاکستان‘ کا آغاز جمعرات 25 دسمبر کو کیا جائے گا جو 28 دسمبر تک آرٹس کونسل میں جاری رہے گی، فاطمہ ثریا بجیا، مشتاق احمد یوسفی سے لے کر انتظار حسین سمیت تمام بڑے ادیبوں نے اپنا دستِ شفقت میرے سر پر رکھا، عالمی اردو کانفرنس کی بنیاد ہم سب نے مل کر رکھی۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں میڈیا کا شکر گزار ہوں جنہوں نے 40 دن تک مسلسل کوریج کے ذریعے ورلڈ کلچر فیسٹیول کو پوری دنیا تک پہنچایا، میڈیا پورا سال ثقافتی سرگرمیوں کی کوریج کرتا ہے، چاہے وہ سکھر، حیدر آباد میں کوئی فیسٹیول ہو، کوئٹہ میں ہو، لاہور یا کشمیر میں، ہم 10 ہزار فیسٹیول بھی کر لیں وہ کم ہیں، پاکستان لٹریچر فیسٹیول کو پورے ملک میں لے کر جا رہے ہیں، ورلڈ کلچر فیسٹیول نے پوری دنیا کا ثقافتی مرکز کراچی منتقل کیا۔
محمد احمد شاہ کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ پاکستان کا دارالحکومت پہلے کراچی تھا اب ثقافت کا دارالحکومت کراچی ہے، ہماری ثقافت ادبی مورچہ ہے، جس قوم کی ادبی اور ثقافتی شناخت ختم ہو جائے وہ قوم برباد ہو جاتی ہے، جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے وہ سب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی بھی قوم کی شناخت اس کی ثقافت ہوتی ہے۔
صدر آرٹس کونسل نے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس ہم نے 18 سال پہلے شروع کی، یہ دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس ہے، جب ہم نے اردو کانفرنس شروع کی اس وقت نسلی بنیاد پر یہاں لوگوں کا قتلِ عام جاری تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈائیلاگ کے ذریعے اپنی بات آگے پہنچائی، ہم نے اردو کانفرنس میں ملک کی مقامی زبانوں کو بھی شامل کیا، پاکستان سمیت دنیا بھر سے تمام ادیب اور شعراء اردو کانفرنس میں آ رہے ہیں۔
محمد احمد شاہ کے مطابق اس مرتبہ ہم 1947ء سے اب تک پاکستانی ادب کا جشن منا رہے ہیں، جتنے بڑے شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار ہیں اور جو لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ان سب پر اس کانفرنس میں بات ہو گی، نمایاں ادیبوں کے ساتھ نشست رکھی گئی ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، ’اے آئی کے ادب پر اثرات‘ موسمیاتی تبدیلی، یادِ رفتگاں سمیت کئی اہم موضوعات پر بات چیت ہو گی، دو عالمی مشاعرے ہوں گے جبکہ کانفرنس میں ایاز فرید اور ابو محمد قوال بھی پرفارم کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت سے تقریباً 100 سے زائد ادیب و شعراء پاکستان آنا چاہتے تھے مگر سفارتی تعلقات معطل ہونے کے باعث ہم نے کسی کو دعوت نامہ نہیں بھیجا، یہ صورتِ حال ہم پر مسلط کی گئی ہے، دونوں ممالک کے ادیب جنگ کے خلاف ہیں، جنگیں ہتھیار سے نہیں لڑی جاتیں، ہم نے جنگ کے خلاف پاکستان اور ہندوستان کے ادیبوں نے قراردادیں منظور کی تھیں، دہلی آرٹس کونسل سے اس کا جواب بھی آیا، ہمیں پہلے اپنی قوم کو مضبوط کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ فلم پروپیگنڈے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، ہندوستان نے جتنی بھی فلمیں بنائیں ہم نے 4 گھنٹے میں انہیں منہ توڑ جواب دیا۔
محمد احمد شاہ نے پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل کہا کہ آج 16 دسمبر ہے جو کہ پاکستان کے لحاظ سے ایک بہت ہی تاریک دن ہے، آج کے دن پاکستان کے امن اور روشنیوں کے دشمنوں نے ہمارے معصوم بچوں کو شہید کیا، آرمی پبلک اسکول پشاور میں یہ سانحہ رونما ہوا جیسا کہ غزہ میں نسل کشی جاری ہے، 8 سال سے 16سال تک کی عمر کے 130 معصوم بچے اور 19 اساتذہ کو شہید کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں ان دشمنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج تم جہاں بھی چھپے ہو پاکستان کے مضبوط ارادوں کو کمزور نہیں کر سکتے، یہ دھماکے ہمارے جوانوں کے حوصلے پست نہیں کر سکتے، یہ قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک ہے، ہم اپنے شہیدوں کے لیے اظہارِ عقیدت کرتے ہیں، ہم مٹی کی محبت اور شہادت نہیں بھولے، ہم اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
معروف شاعرہ زہرا نگاہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اخلاقیات کو بلند کرنے کا سب سے بڑا ستون ہمارا ادب اور زبان ہے، ایک جلسے میں معاشیات پر کچھ بولنا تھا تو میں نے کہا کہ اخلاقیات درست ہو جائیں تو معاشیات درست ہو جاتی ہیں، پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان ہماری زبان ہے، اردو رابطے کی زبان ہے، مجھے بہت سے ایوارڈز ملے لیکن سندھ کے مشہور شاعر شیخ ایاز کے نام کی ٹرافی میری سب سے پسندیدہ ہے، ہمارے ہر پاکستانی کے لیے ہر ادب قابلِ عزت ہے، چاہے وہ سندھی ہو، پنجابی ہو، سرائیکی ہو، بلوچی یا پختون ادب کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اردو کانفرنس سب زبانوں کے لیے ایک رابطے کا ذریعہ ہے، ہر ملک کی ایک پہچان ہے، جیسے قومی ترانے، اردو کانفرنس میں جب شرکت کریں سوچیں کہ آپ اخلاقیات کی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں، شعر و ادب ایسا سلسلہ ہے جو زندگی کو سنوارنے میں مدد کرتا ہے، کراچی کا نام اردو کانفرنس اور علم و ادب کے سلسلے میں زبانوں کی ترقی کے لیے روشن اور تابناک رہے گا۔
زہرا نگاہ نے کہا کہ کوئی مانے یا نہ مانے احمد شاہ کے پاس جو جن ہیں وہ حکومت کے نمائندوں کو بھی دے دیں تاکہ وہ بھی اسی طرح کام کریں، احمد شاہ چراغ گھستے ہیں اور جن سارا کام کر جاتے ہیں۔
نائب صدر آرٹس کونسل منور سعید نے کہا کہ محمد احمد شاہ اچھا بولتے ہیں، اللّٰہ ان کو نظرِ بد سے بچائے، یہ کانفرنس بھی کامیاب ہو گی۔
ماہرِ تعلیم و دانشور پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ مجھے یہ ایک بہت یادگار لمحہ محسوس ہوتا ہے، میں پہلی اردو کانفرنس کا حصہ ہوں، ایک زندگی اور نئے راستوں کی طرف آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے احمد شاہ کی سر براہی میں اس کا آغاز کیا، ادب کے یہ سارے سلسلے زندگی سے ملے ہوئے ہیں، یہ عالمگیر کانفرنس ہے، جو جاری و ساری ہے اور رہے گی، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت پوری دنیا میں اس کانفرنس کے چرچے ہیں، یہ ایک بہت اچھا کام ہے، احمد شاہ نے بزرگوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے بھی کام کرنا شروع کیا، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کی شرکت ہوتی ہے، ایسے پروگرامز سے نوجوانوں کی تربیت ہوتی ہے۔
جوائنٹ سیکریٹری آرٹس کونسل نور الہدیٰ شاہ نے کہا کہ آرٹس کونسل نے یہ ثابت کیا ہے کہ کراچی ثقافت اور ادب کا مرکز ہے، یہ عالمی اردو کانفرنس اس دور میں شروع ہوئی جب یہ شہر بوریوں میں بند اور مر رہا تھا، اس طرح کی کانفرنس کو زندہ رکھنا بہت بڑی بات ہے، اس پر ہندوستان سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، آرٹس کونسل امن، ثقافت اور تسلسل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کبھی چپ نہیں ہوئی، جب باہر گولیاں چل رہی تھیں آرٹس کونسل کے اندر ادیب مشاعرہ پڑھ رہے تھے، کسی بھی ملک کو زندہ رکھنے کے لیے آپ سب اس پر فخر کریں، پاکستان میں تمام ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں جو آپ دیکھ رہے ہیں اس کی روایت آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے قائم کی۔
سیکریٹری اعجاز فاروقی نے کہا کہ 18 سال تک تسلسل کے ساتھ عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہونا معمولی بات نہیں، احمد شاہ کی کاوشوں کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے، جتنے بھی لوگ یہاں آتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اس کانفرنس سے بڑی کوئی کانفرنس نہیں۔