پاکستان کے سخت سیاسی، معاشی و انتظامی اضطراب کی چند بڑی وجوہات مکمل بے نقاب ہیں۔ ایک یہ کہ روایتی بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاست عوامی بالکل نہیں رہی۔ ان پر چند گھرانوں کی مسلسل بڑھتی گرپ نے ملکی گورننس (بشمول بیوروکریسی) کو کرپٹ کھلنڈرا اور عوام سے مکمل لاپروا بنادیا۔ کیا سینکڑوں نہیں، ہزارہا قومی سیاسی تجزیوں کا حاصل یہ نہیں کہ اسی انداز سیاست و حکومت سے قومی سیاست مخصوص سیاسی شخصیات، گھرانوں، گروہوں اور انٹرسٹ گروپس کے ہتھے چڑھ گئی۔عوامی منتخب نمائندے دو ڈھائی ماہ کی بریانی برینڈ انتخابی مہم میں ووٹ کو عزت دینے کے بعد عشروں سے عوام (ووٹرز) کو مکمل لاپروائی سے کوسوں دور کرتے اپنی چالاک سیاست اور ناقابل فہم و جواز بھاری بھرکم ’’نیک کمائی‘‘ کو لندن اور دبئی لے گئے۔ نتیجتاً یہ سیاسی پارٹیاں خود چلنے اور ان قابض گھرانوں کے تئیں ملک چلانے کے لئے ان ہی شخصیات اور گھرانوں کی محتاج ہوکر رہ گئیں۔ اطلاق آئین سے تادم منتخب خاندانی سیاسی ادوار میں عوام کی روزمرہ کی سہولتوں اور بنیادی ضروریات کے ضامن آئین کے لازمی بلدیاتی نظام کو قائم ہی نہ ہونے دینے کی ذہنیت بدنیتی اور عمل کے بڑے و مسلسل ہوتے قومی جرم کے ارتکاب کا سکہ بند ثبوت ہے۔ اس کے آئینی پابند ریاستی ادارے الیکشن کمیشن نے بھی زحمت نہ کی کہ وہ برسراقتدار حکومتوں کو تحریراً یاد دلاکر دستوری ذمے داری پوری کرتا کہ بمطابق آئین دوسرے ملک کے جمہوری ہونے کا لازمی تقاضہ ہے کہ ’’مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے بلدیاتی الیکشن کرائیں جائیں‘‘ یہ کیوں نہ ہوا؟اس لئے کہ الیکشن کمشنر دستوری تقاضوں کے میرٹ کی بجائے، سیاسی بنیاد پر مقرر ہوتے رہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستانی سیاست کے آغاز اور اٹھان میں ہی ایک عشرے کے سیاسی عدم استحکام اور انتشار کے بعد 1956ء کے بمشکل بن گئے متفقہ آئین کے تحت، اعلامیہ الیکشن شیڈول کو سبوتاژ کرکے پہلے مارشل لا (اکتوبر 1957) کے نفاذ سے حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور اس سے نکلے سیاسی معاشی ڈیزاسٹرز کی بنیاد رکھی گئی۔ اس (مارشل لا) کے خلاف جمہوری قوتوں کی مزاحمتوں کی تاریخ بھی پاکستان کے بطور قوم جمہوری ہونے کی واضح عکاس تھی، لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ملک کا پہلا مارشل لا عوام کی جانب سے بخوشی اور باآسانی ہضم ہوا، وجہ پس منظر میں مسلسل سیاسی انتظار اور سیاسی حکومتوں کی عوامی ضروریات اور جذبات و احساسات سے متصادم سازشی ماحول کا انداز حکمرانی رہا۔ بلاشبہ 1956ء کے علانیہ انتخابات کے انعقاد سے ہی ایک پائیدار سیاسی عمل اور اس کے نتیجے میں بھارتی طرز کے انتخابی عمل کا تسلسل شروع ہونا تھا، لیکن جب متفقہ آئین اور انتخابی شیڈول کو ہی سبوتاژ کردیا گیا تو وہ مطلوب سیاسی عمل تو رک گیا جس میں سیاسی جماعتوں کی آبیاری ہونی تھی، لیکن بہت غور طلب نکتہ یہ بھی ہے کہ ایوبی دور میں پہلے عشرے کی نسبت عوام کی قدرے آسودگی کے پہلے چھ سات سال نے بھی ایک عبوری نوعیت کا سیاسی استحکام تو پیدا کردیا تھا۔ جس میں بی ڈی نظام کا بڑا دخل تھا۔ لیکن ملکی اقتدار اور حکومت سے عوام کو تشکیل حکومت کے لئے براہ راست ووٹ کے حق (بالغ رائے دہی) سے محروم رکھنے کا نتیجہ یہ ہی نکلا کہ آخری سالوں میں ایوبی عہد سیاسی عدم استحکام میں مبتلا ہوکر ترقیاتی عمل کے بھی رک جانے کا باعث ۔ بڑی وجہ مرضی کا صدارتی الیکشن ایوب خان بمقابلہ فاطمہ جناح میں ہوئی دھاندلیاں، 65ء کی جنگ اور پھر اسٹوڈنٹس کی ایک چھوٹی سی احتجاجی مہم کا ایوب مخالف ملک گیر احتجاجی تحریک میں تبدیل ہونا بنا۔ لیکن اصل میں تو ایوبی دور کی طوالت سے عوام کا ’’نظام انہضام‘‘ بگڑ گیا تھا۔ یحییٰ مارشل لااس لئے تین سال کے لئے یوں ہضم کرلیا گیا ایک تو اس میں تحریک کے تمام مطالبات (ماسوائے ون یونٹ توڑنے کے) تسلیم کرلئے گئے پھر مطالبات کے مطابق الیکشن کرانے اور اس کے انعقادکی فضا بنانے میں یحییٰ حکومت اتنی کامیاب ہوئی کہ اس کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے متحدہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام نے تین سال کا مارشل لا برداشت کئے رکھا۔ عام انتخابات کے نتائج آنے پر یحییٰ حکومت نے مغربی پاکستان کی پارلیمانی قوت کے پریشر یا گٹھ جوڑ سے پُرخطر مداخلت کرکے جس طرح اکثر پارلیمانی قوت کا راستہ روکنے کی مہم جوئی کی اس کے نتیجے میں ملٹری آپریشن کے باوجود ملک دولخت ہوا۔
باقیماندہ پاکستان میں بھی آئین سازی اور اطلاق کے ساتھ ہی خود پہلی سیاسی حکومت نے ہی آئینی عمل کو روک کر ڈیفنس آف پاکستان رولز-16، ایف ایس ایف پیپلز گارڈ پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈی ننس اور نیشنل پریس ٹرسٹ کو خلاف انتخابی وعدہ جاری رکھنے، پھر پہلے ہی انتخاب کو ملک گیر سطح پر دھاندلی سے مکمل آلودہ کرنے پر جو احتجاجی عوامی تحریک چلی اس نے پاکستانی عوام کے اٹل جمہوری جذبے کو پھر ثابت کیا۔ الگ ہے کہ ضیائی مارشل لا 1977ء تنہا چیف نے نہیں بلکہ اس میں بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کی اشیرباد اور واضح امکانی عوامی قبولیت کا دخل بھی تھا۔ آج کے حکمراں بھی غور کریں کہ مشرف کا مارشل لا کیوں ہضم ہوا اور کیسے اس دورکا ڈیزاسٹر ہوا تھا اور پھر وہی عطار کے……
اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس صورت مارشل لاکے بغیر مارشل لائی ماحول سے اور ایسے ہی انداز حکمرانی سے آئین کو نظرانداز کرکے ٹیلر میڈ الیکشن کا مطلب سیاسی و معاشی استحکام کے واحد راستے الیکشن بمطابق آئین کو مکمل بند کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس نوشتہ دیوار کے باوجود 6؍نومبر کے بعد بلا الیکشن غیرآئینی ہوجانے والے نگراں وزیراعظم کا یہ بیان حد درجہ غیر ذمے دارانہ ہے کہ ’’انتخابات عمران کے بغیر بھی ممکن‘‘۔ ایک تو یہ بیان انہوں نے تنقید کے تیروں کی بارش کی زد میں آئے دورہ نیویارک میں دیا، جو غصے سے بھرے پاکستانی ڈائسپورا کو مشتعل کرنے کے بھی مترادف ہے۔ دوسرے نگراں وزیراعظم کیسے بھول گئے کہ وہ ’’نگران‘‘ ہیں اور ان کے حکومت میں آنے کا مقصد صرف انتخاب کے انعقاد تک محدود انتظامی امور کی نگرانی ہے۔ وہ یہ بیان بازی کرتے بہت ہی سیاسی ہوگئے۔ وہ ’’مائنس ون‘‘ جیسی سخت متنازعہ سوچ کے ترجمان بن کر غیرجانبدار انتخابات کے انعقاد کی خاک نگرانی کریں گے۔ انہیں معلوم نہیں کہ عمران خان خود یہ اعتراف کرکے کہ انہوں نے جنرل باجوہ کے زور دینے پر موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو تعینات کیا تھا، ان کی حیثیت کو سیاسی اور متنازعہ کردیا ہے۔ کاکڑ صاحب پلیز ذمہ داری لیں۔