سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کے لیے ’صاحب‘ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کی جانب سے زمین کے معاوضے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور سرکاری ملازمین پر برہم ہو گئے۔
سرکاری ملازمین کے اپنے افسر کے لیے ’صاحب‘ کا لفظ استعمال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں سخت سرزنش بھی کی۔
ڈائریکٹر لینڈ ریوینیو بورڈ نے عدالت میں کہا کہ ممبر صاحب نے معاوضے کی ادائیگی کا عمل شروع کیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ صاحب کیا ہوتا ہے؟ ہم 1947ء میں آزاد ہو گئے تھے، یہ غلامی والا تاثر ذہنوں سے نکال دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں اور آپ کو عوام کی جیبوں سے تنخواہیں ملتی ہیں، عوامی پیسے سے تنخواہیں لے کر ہماری کارکردگی صفر ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ڈاکوؤں اور ریاست میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے، عدالتوں کے ساتھ شفاف رویہ ہونا چاہیے، نظامِ انصاف سے مذاق کا سلسلہ بند کر دیں۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک سال بعد بتایا جارہا ہے کہ معاوضے کی ادائیگی کا عمل جاری ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ نومبر 2022ء میں عدالت نے حکم جاری کیا، پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایک متفرق درخواست دائر کر دی ہے، ممبر بورڈ آف ریوینیو پنجاب کی طرف سے جواب جمع کرا دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت پنجاب نے بشیراں بی بی کی زمین کی ملکیت کو تسلیم کیا، 26 مارچ 1990ء سے معاوضے کی ادائیگی کا کہا گیا، بشیراں بی بی کی زمین پر ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر سے متعلق ملکیت تسلیم کی گئی، سوال یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر پر بشیراں بی بی کو کتنا معاوضہ دیا جائے گا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت کسی فرد کی ملکیت تسلیم کرے تو سمجھ سے بالا تر ہے کہ معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا، لاہور سے کچھ افسران کو سپریم کورٹ بھیجا گیا کہ ہمیں ممبر صاحب نے بھیجا ہے، ہم نے سوال کیا کیوں آئے ہیں؟ جواب نہیں دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری ملازمین کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے، ممبر کے نام کے ساتھ ’صاحب‘ کا لفظ استعمال کرنا مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے، دفاتر میں سرکاری ملازمین کے لیے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے، صاحب کا لفظ استعمال کرنے کی آئین میں کوئی شق موجود نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے 2 ماہ میں بشیراں بی بی کو معاوضہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ معاوضہ نہ دیا گیا تو محکمۂ پنجاب کے ممبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے۔
عدالت میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وکلاء کو ان کے طریقہ کار کے مطابق سنا جائے، اگر آپ کہتے ہیں تو میں استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہوں، آپ بولنے نہیں دیں گے تو عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ استعفیٰ دینا آپ کی اپنی مرضی ہے۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کھلی عدالت میں سماعت ہو رہی ہے، ایک سال بعد آ کر بتایا کہ ابھی تک معاوضے کی ادائیگی سے متعلق کچھ نہیں کیا گیا، آپ نے عدالت کو شرمندہ کر دیا۔