’’ ذہنی صحت‘‘ سے مُراد کسی بھی شخص کی مجموعی سماجی، نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی تن درستی ہے اور یہ اِس امر سے عبارت ہے کہ کوئی بھی فرد پیش آمدہ صُورتِ حال کو کس زاویۂ نگاہ سے دیکھتا، سوچتا، محسوس کرتا اور برتتا ہے۔ اچھی ذہنی صحت کا مطلب روزمرّہ کے ذہنی دباؤ اور تناؤ سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت بھی ہے۔
کسی ناچاقی اور ناخوش گواری کے باوجود دوسروں سے مثبت انداز میں تعلق قائم رکھنا اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا، جو کسی کے لیے آزار کا باعث نہ ہو، درحقیقت ایک ذہنی و جسمانی صحت مند فرد کی پہچان ہے کہ اچھی ذہنی صحت کا حامل فرد عام طور پر اچھی طرح سے کام کرنے، صحت مندانہ تعلقات استوار کرنے اور زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہوتا ہے۔
یا درہے، ذہنی صحت صرف ذہنی عوارض کی عدم موجودگی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مثبت طرزِ فکر اختیار کرنے کا نام ہے۔ البتہ ذہنی امراض کسی بھی فرد اور اس سے وابستہ افراد پر منفی اثرات مرتّب کرتے ہیں اور ہر عُمر، پس منظر اور سماجی و اقتصادی حیثیت کا فرد ذہنی صحت سے متعلقہ مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔یہ ذہنی عوارض کسی شخص کی سوچنے، فیصلہ کرنے، جذبات قابو میں رکھنے اور تناؤ سے نمٹنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ بدترین حالات میں کوئی ذہنی بیماری، خودکُشی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
10اکتوبر کو دنیا بَھر میں’’ ذہنی صحت کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اِس مرض سے متعلق آگاہی کے ساتھ، مثبت طرزِ فکر کا فروغ بھی ہے۔اِس سال ورلڈ فاؤنڈیشن آف مینٹل ہیلتھ کی جانب سے’’Mental Health is a Universal Human Right ‘‘ کا تھیم منتخب کیا گیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، دنیا بَھر میں تقریباً ایک بلین افراد، جب کہ پاکستان میں دس فی صد افراد مختلف اقسام کے ذہنی عوارض کا شکار ہیں اور ان میں 70فی صد افراد کو وہ سہولتیں میسّر نہیں، جن کی اُنہیں ضرورت ہے۔ اینگزائٹی اور ڈیپریشن، دو ایسے ذہنی عوارض ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ عام ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بَھر میں280ملین افراد ڈیپریشن اور264ملین افراد اینگزائٹی میں مبتلا ہیں۔ ذہنی تناؤ، نفسیاتی دباؤ اور دیگر ذہنی امراض بنیادی طور پر کسی ردّ ِعمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان کی وجوہ میں خاندانی پس منظر، ناگفتہ بہ حالات، معاشی ناہم واری اور عدم تحفّظ کا احساس شامل ہیں۔
اگر ان وجوہ پر توجّہ دی جائے اور برقت کسی معالج سے رابطہ کر لیا جائے، تو ذہنی امراض کے جڑ پکڑنے سے قبل ہی اُن سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔یہ جسمانی امراض ہی کی طرح ہوتے ہیں کہ جس طرح جسم پر کوئی زخم لگ جائے، تو اُس کا علاج کیا جاتا ہے، اِسی طرح اگر ذہنی اُلجھنیں پیدا ہوں، تو اُن کا بھی علاج ممکن ہے اور اِس علاج سے ہچکچانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے ذہنی امراض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی سوچ مثبت رکھے اور کسی بھی فرد سے غیر ضروری توقّعات وابستہ نہ کرے۔
اگر ہم صرف درگزر ہی کی صفت اختیار کر لیں، تو کئی اقسام کے ذہنی امراض سے بچ سکتے ہیں۔درحقیقت، ذہنی صحت کا انحصار عمل اور ردّ ِعمل کے درمیان توازن قائم رکھنے پر ہے کہ ایک متوازن زندگی ہی خوش گوار زندگی ہوتی ہے اور جب زندگی میں توازن بگڑنے لگتا ہے، تو ذہنی و نفسیاتی مسائل اور اُلجھنیں سَر اُٹھانے لگتی ہیں۔ ذہنی صحت کے لیے ناگزیر ہے کہ ہمیشہ منطقی طرزِ عمل اختیار کیا جائے،کیوں کہ غیر منطقی طرزِ عمل سے ہم صرف برف کے مجسّمے تراشتے ہیں اور پھر انھیں پگھلتا دیکھ کر واویلا کرنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں بڑھتے ذہنی امراض کے پیشِ نظر اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت نے2022ء میں’’ نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘‘ کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد دماغی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانا اور ذہنی امراض سے وابستہ غلط فہمیوں میں کمی لانا ہے۔ یاد رہے کہ جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی امراض بھی قابلِ علاج ہیں اور مرض کی درست تشخیص اور علاج کے ذریعے ایک مطمئن، خوش گوار، بھرپور اور نتیجہ خیز زندگی گزار ی جا سکتی ہے۔
ذہنی صحت کیوں اہم ہے؟: ایک خوش گوار زندگی کے لیے لازم ہے کہ جسمانی صحت کے ساتھ، ذہنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے اور یہ خیال رکھنا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ ذہنی صحت ہماری زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔پھر جسمانی صحت کا بھی براہِ راست تعلق ہماری ذہنی صحت ہی سے ہے۔ اگر کوئی شخص کسی جسمانی مرض کا شکار ہے، مثلاً بلڈ پریشر، ذیابطیس، امراضِ قلب یا سرطان، تو وہ ضروری سمجھتا ہے کہ اُن امراض کی درست تشخیص کے ساتھ اُن کے علاج پر بھی پوری توجّہ دے۔
اسی طرح کوئی ذہنی بیماری بھی ہمارے فکر و عمل اور روزمرّہ زندگی کے معاملات و معمولات کو متاثر کرتی ہے، لہٰذا اس کی درست تشخیص و علاج بھی لازم ہے۔ مان لیجیے کہ اچھی ذہنی صحت ہی اچھی جسمانی صحت کی ضامن ہے۔یہ ہمارے مدافعتی نظام، قلبی صحت یہاں تک کہ ہماری عُمر کو بھی متاثر کرتی ہے، جب کہ پیشہ ورانہ زندگی میں مؤثر طریقے سے امور کی انجام دہی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ذہنی امراض کی وجوہ:۔ ہماری روز مرّہ زندگی کا انحصار دماغ سے خارج ہونے والے اُن کیمیائی مادّوں پر ہے، جو جسم کے مختلف نظام کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ان کیمیائی مادّوں کے اخراج میں کمی، زیادتی یا عدم توازن ہو جائے، تو نہ صرف ہمارا جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے بلکہ ردّ ِ عمل کے طور پر ذہنی و نفسیاتی صحت پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں، جس سے پورا جسمانی، ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی نظام متاثر ہوسکتا ہے اور یہی آگے چل کر Mental Disorder کا باعث بنتا ہے۔
ذہنی بیماریوں کی متعدّد وجوہ ہیں، جن میں موروثیت، دماغی نشوونما میں کمی، خاندانی پس منظر، سماجی و معاشی عدم استحکام، تعلیم کی کمی، عدم تحفّظ کا احساس، منشیات، گہرا ذہنی صدمہ، بچپن کے منفی اور تلخ تجربات، منفی سوچ، حد سے بڑھی افسردگی، محرومی و اضطراب، کسی عزیز کی جُدائی، بے روزگاری، مالی و معاشی مشکلات، تنہائی پسندی، حساسیت اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ اہم عوامل ہیں، جو مل کر کسی بھی فرد کو کسی ذہنی عارضے میں مبتلا کرسکتے ہیں، جن میں سرِ فہرست ڈیپریشن، اینگزائٹی، فوبیا، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، مینیا، آبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈز اور پیرونایا وغیرہ ہیں۔
ذہنی امراض کی اقسام:۔ ذہنی امراض کی بہت سی اقسام ہیں، جن میں نمایاں ڈیپریشن، اینگزائٹی، شیزو فرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، آبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈر اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بَھر میں 970ملین افراد ذہنی عوارض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
ان میں اینگزائٹی اور ڈیپریشن کی شرح بقیہ تمام امراض کے مقابلے میں زیادہ ہے۔2020 ء میں کورونا وبا کے دوران اینگزائٹی اور ڈیپریشن کی شرح میں بالترتیب26 اور28 فی صد اضافہ ہوا۔واضح رہے،2019ء میں301 ملین افراد اینگزائٹی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے، جن میں58 ملین بچّے اور نوعُمر شامل تھے، جب کہ280 ملین افراد ڈیپریشن کا شکار تھے، جن میں 23 ملین بچّے اور نوجوان شامل تھے۔
ذہنی بیماری کی علامات:۔ مختلف ذہنی امراض کی علامات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ تاہم، کچھ عام اور نمایاں علامات ہیں، جن میں مستقل اداسی، افسردگی، نااُمیدی، چڑچڑاپن، نیند کی کمی یا زیادتی، توجّہ مرکوز کرنے، فیصلے کرنے یا چیزوں کو یاد رکھنے میں دشواری، خوراک کا زیادہ یا کم ہوجانا، خودکُشی کی خواہش اور سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی وغیرہ شامل ہیں۔
اگر کسی فرد کے اندر مذکورہ علامات یا کیفیات نمایاں ہوں، تو اُسے فوری طور پر بلاجھجک معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں نفسیاتی و ذہنی عوارض کے علاج معالجے کے لیے کسی مستند طبیب سے رجوع کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ فرد علاج پر آمادہ نہیں ہوتا کہ کہیں لوگ اُسے پاگل یا نفسیاتی مریض نہ سمجھنے لگیں، نتیجتاً معمولی سی اُلجھن آہستہ آہستہ جڑ پکڑ لیتی ہے، جس سے آگے چل کر علاج میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذہنی صحت کیسے بہتر بنائی جا سکتی ہے؟:۔ بلاشبہ نت نئی ایجادات نے زندگی کو سہولتوں، آسائشوں سے آراستہ کردیا ہے،مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تمدّنی ترقّی کے ساتھ فکری، تہذیبی اور ماحولیاتی آلودگیوں نے جسمانی اور ذہنی صحت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ روزمرّہ زندگی کی ہما ہمی اور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے معاشی بھاگ دوڑ نے ایک صحت مندانہ ماحول اور سرگرمیوں کے لیے راہیں مسدود کردی ہیں۔ رہی سہی کسر غربت، منہگائی، بے روزگاری، امن و امان کی ابتر صُورتِ حال اور عدم تحفّظ کے احساس نے پوری کردی۔ ایسی صُورتِ حال میں ڈیپریشن، اینگزائٹی، ذہنی اور نفیساتی مسائل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ مندرجہ ذیل امور پر توجّہ دے کر ذہنی و نفسیاتی صحت برقرار رکھی جا سکتی ہے:
٭ ایک خوش گوار، مطمئن اور ذہنی طور پر آسودہ زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرے، فکروعمل میں توازن لائے، اپنے لیے کچھ اخلاقی اصول اور ضابطے بنائے اور اُن پر عمل پیرا ہونے کا پختہ عزم کیا جائے۔کہا جاتا ہے کہ انسان، معاشرتی حیوان ہے اور مِل جُل کر رہنا اس کی فطرت ہے، تو اِس فطرت سے انحراف کے نتیجے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں، اِس لیے ضروری ہے کہ معاشرے اور خاندان کے افراد کے ساتھ جُڑ کر رہیں۔
اُن لوگوں کے لیے وقت نکالیں، جو آپ کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، نئے افراد سے تعلقات استوار کریں، دوستیاں رکھیں اور تعلقات نبھائیں۔ اپنے پیاروں، دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزاریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ مِل جُل کر رہنے کے نتیجے میں آپس میں ناچاقی اور نااتفاقی ایک ناگزیر امر ہے، جس سے فرار ممکن نہیں۔ کوئی شخص خطا سے مبرّا نہیں، دوسروں کی غلطیاں نظر انداز کرنے اور معاف کرنے کا حوصلہ ہی زندگی میں معنویّت پیدا کرتا ہے،معاف کرنے سے خوشی ملتی ہے اور ذرا ذرا سی بات پر روٹھنے اور لیے دیئے رہنے کی روش سے ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔٭اچھی ذہنی صحت کے لیے اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ صحت بخش غذائیں، باقاعدگی سے ورزش، سات، آٹھ گھنٹے کی مناسب نیند، یہ سب اچھی ذہنی صحت کے لیے اہم ہیں۔
جب آپ اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہیں، تو اس سے آپ کی ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔٭متوازن غذا، پھلوں، سبزیوں اور پروٹین سے بھرپور غذا بھی مجموعی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے، اس سے نہ صرف جسم تن درست و توانا رہتا ہے، بلکہ ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی تن درستی بھی برقرار رہتی ہے۔٭ دوسروں سے اُمیدوں، توقّعات کی وابستگی ایک فطری امر ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنا دل شکستگی کا باعث بنتا ہے۔
انسانی تعلقات میں بگاڑ اور رشتوں میں دراڑ آنے کا ایک اہم سبب دوسروں سے بے جا اور غیر ضروری توقّعات وابستہ کرنا بھی ہے، اِس لیے ضروری ہے کہ تعلقات میں اعتدال رہے اور حتی الامکان توقّعات وابستہ کرنے سے گریز کیا جائے۔٭ ذہنی الجھنوں، اینگزائٹی اور ڈیپریشن کی بہت سے وجوہ میں سے ایک زندگی میں کسی مقصد کا نہ ہونا بھی ہے۔ بلند مقاصد انسان کو متحرّک، مستعد اور چاق چوبند رکھتے ہیں۔
لہٰذا، اپنی زندگی کا کوئی مقصد متعیّن کریں، کوئی ایسا مقصد تلاش کریں، جو آپ کو پُرجوش رکھے اور جس سے آپ کو ذہنی، نفسیاتی اور روحانی آسودگی ملے۔٭ سہارا انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ انسان جن سہاروں پر انحصار کرتا ہے، وہ عارضی اور ناپائے دار ہیں، اِس لیے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے اور اللہ تعالیٰ کے سہارے پر اعتماد کیا جائے، کارل سی ژنگ نے، جسے بیسویں صدی کا بڑا نفسیات دان مانا جاتا ہے، اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی زندگی بَھر کا تجربہ یوں بیان کیا ہے کہ’’پچھلے تیس برسوں میں روئے زمین کے تمام متمدّن ممالک کے لوگوں نے مجھ سے(اپنے نفسیاتی امراض کے سلسلے میں) مشورے کے لیے رجوع کیا۔
میرے مریضوں میں زندگی کے نصف آخر میں پہنچنے والے تمام لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا، جس کا مسئلہ اپنے آخری تجزیے میں زندگی کا مذہبی نقطۂ نظر پانے کے سوا کچھ اور ہو۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان میں سے ہر شخص کی بیماری یہ تھی کہ اس نے وہ چیز کھو دی تھی، جو کہ موجودہ مذاہب ہر دَور میں اپنے پیروکاروں کو دیتے رہے ہیں اور ان مریضوں میں سے کوئی بھی حقیقتاً اُس وقت تک شفایاب نہ ہو سکا، جب تک اُس نے اپنا مذہبی تصوّر دوبارہ نہیں پالیا۔‘‘٭ ذہنی صحت کے لیے منفی طرزِ فکر تَرک کر کے مثبت طرزِ فکر اختیار کرنا ناگزیر ہے۔
مثبت سوچ، ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد میں ذہنی امراض کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان ڈیپریشن اور تناؤ کی کیفیت سے محفوظ رہتا ہے۔ جب کہ مثبت سوچ اور مدافعتی نظام کے درمیان بھی گہرا تعلق پایا جاتا ہے، اس سے قوّتِ مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ صرف فرد کی ذہنی صحت برقرار رہتی ہے، بلکہ اس سے صحت مند انہ سماجی روابط بھی فروغ پاتے ہیں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ خون ہیں اور چلڈرن اسپتال، کراچی کے چیف ایگزیکٹیو کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ بیس سال سے تھیلیسیمیا کے شکار بچّوں کا علاج کر رہے ہیں، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر رُکن ہیں اور’’ عمیر ثناء ویلفئیر فاؤنڈیشن‘‘ نامی این جی او سے بھی منسلک ہیں)