ہمارے معاشرے میں ہر طبقہ کےلوگ کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہیں ، لیکن ’’ایک مزدور‘‘ کے مسائل دیگر طبقوں کے مقابلے میں سب سےزیادہ تلخ اور تکلیف دہ ہیں۔ ہمارے درمیان رہنے والا یہ طبقہ ہر وقت کسی کسی نہ مسئلہ کا شکار رہتا ہے جبکہ اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی مزدور ہے جس کی مرہونِ منت یہ دنیا خوبصورت ہے۔ شہر ہوں یا گائوں ان کی خوبصورتی اسی مزدور کی وجہ سے ہے، شہروں کی بلند وبالا عمارتیں، خوبصورت لمبی چوڑی سڑکیں ، دیہات کے لہلاتے کھیت ،باغات اور نجانے دنیا کی کتنی ہی پررونق دلکش چیزیں ہیں جو ان مزدوروں کاخون پسینہ بہانے کی بدولت ہیں۔ افسوس کہ اس دنیا کو خوبصورت بنانے والا معاشی بدحالی اور بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اسلام میں مزدورکوافضل مقام حاصل ہےخود انبیاہ کرامؑ مزدوری کرتے تھے۔
اسلام میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح حلال رزق کے حصول بذریعہ مزدوری کی واضح ہدایات موجود ہیں جس میں آجر اور اجیر دونوں کے حقوق کی پاسداری کی گئی ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھائو بلکہ آپس کی رضامندی سے تجارت میں نفع حاصل کرو۔(سورۃ النساء : 29) ایک اور مقام پر قرآن کریم کا ارشادہے کہ:پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جاؤ اور اللّٰہ کا فضل (رزق) تلاش کرو (سورۃ الجمعہ )
اللّٰہ کے حبیب ﷺ سے حلال رزق کی تلاش میں محنت وکاش کرنے کے بارے میںکئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ آپ ﷺ نےفرمایا: سب سے پاکیزہ عمل آدمی کی اپنے ہاتھ سے کمائی ہوئی روزی ہے۔
مندرجہ بالا احادیثِ رسول ﷺ سے معلوم ہوا کہ اسلام میںمزدور کو اونچا مقام حاصل ہے جس کی حیثیت معاشرے میں کسی سے بھی کم نہیں ہے۔ مزدوروں کے حقوق میں سب سے بنیادی اورپہلا مسئلہ مزدور کی اجرت کا تعین ہے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ اور انکا ایک غلام ایک جیسی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ کسی نے آپ سے کہا کہ دونوں چادریں اوڑھ لیتے تاکہ اسکا جوڑا ہوجائے اور غلام کو کوئی اور چادر دیدیں جس پر ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللّٰہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ جو خود کھائو وہ ہی اپنے غلام کو کھلائو اور جو خود پہنو اپنے غلام کو بھی وہ پہنائو۔(بخاری)
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مزدوروں اور ملازمین کی اجرت اس قدر ہونی چاہئے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں انکا معیارِ زندگی مالکوں اور آقائوں جیسا ہو ۔ دوسرے یہ کہ اجرت کی مقدار اتنی ہونی چاہئے ایک مزدور اپنے اہل وعیال کی پرورش اچھی طرح کرسکے اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرسکے۔
پاکستان کی آبادی تقریباً 24کروڑ ہے اور اس میں مزدوروں کی تعداد 7کروڑ 69لاکھ ہےجس میں 25فیصد خواتین ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کا دنیا میں 144واں نمبر ہے۔ جبکہ اس میں بچوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں مزدور مختلف فیکٹریوں اور آرگنائزیشنز میں کام کرتے ہیں جن کو زندگی گزارنے کیلئے مناسب تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل ہیں۔ دوسری طرح کے مزدور وہ ہیں جو روزانہ اجرت کے تحت کام کرتے ہیں یعنی جس دن بیمار اس دن کوئی اجرت نہیں۔ اس طبقہ کی اجرت اتنی قلیل ہوتی ہے کہ اپنی زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس قسم کے مزدوروں میں زیادہ تر خواتین اور کم عمر بچے جو بھٹہ پر کام کرتے ہیں یا پھر کھیتی باڑی اور گھروں میں کام وغیرہ کرتے ہیں، مزدوروں کے طبقے سے کام تو اس کی طاقت اور حیثیت سے زیادہ لیا جاتا لیکن اس کو اجرت بہت معمولی سی دی جاتی جس سے یہ طبقہ اپنی دو وقت روٹی بھی پوری نہیں کرپاتا۔
حکومتِ پاکستان نے حالیہ بجٹ میں ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزارروپے مقرر کی ہے ۔موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ہر انسان کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے۔ اگر ہم ایک ایسی فیملی جس میں میاں بیوی اور دو بچوں کاماہانہ بجٹ بنائیں ، جس میں مکان کا ماہانہ کرایہ کم ازکم 15000روپے بجلی اور گیس کا بل تقریباً10000 سے 12000روپے اور گھر کا راشن 10000سے 12000روپے ہو تو اس کے لئے 32000روپے بہت کم ہیں جبکہ 39000روپے ایک چھوٹی فیملی کا خرچ ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے مزدور کی اجرت کا فارمولا بتلادیا ہے کہ مالک اپنے اپنے ماتحت ملازم یا مزدور کو وہی کھلائے جو خود کھائے اور وہ پہنائے جو خود پہنے اور اسکے نان نفقہ کا ہر لحاظ سے خیال رکھے۔میری رائے میں اور اسلام میں بتائے گئے طریقہ کی روشنی میں ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ 60000روپے ہونی چاہئےتاکہ وہ اپنی زندگی کو آسودگی سے گزار سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)