نوازشریف ایک بار پھر پاکستان لوٹ رہے ہیں۔چار دہائیوں پر محیط سیاسی سفر کے دوران کئی بار یوں لگا جیسے نوازشریف کی سیاست ختم ہوگئی مگروہ موت کو چکمہ دے کر واپس آجاتے ہیں۔چرچل نے کہا تھا ،سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ خیز اور خطرناک ہوتا ہے۔جنگ میں تو آپ ایک بار رزقِ خاک ہوتے ہیں مگر میدان سیاست میں بار بار مرنا پڑتا ہے۔چرچل کی بات آگے بڑھائی جائے تو سیاستدان کبھی خزاں رسیدہ موسم کی تاب نہ لاتے ہوئے مُرجھا تو جاتے ہیں مگر مرتے نہیں۔ویسے ہمارے ہاں کامیاب سیاستدان وہی ہے جو ایک اچھا مداری اور کرتب باز بھی ہو۔امریکی مصنف اور شاعر ،کارل سینڈ برگ کے بقول ایک سیاستدان کے پاس تین ہیٹ ہونے چاہئیں ،ایک اچھالنے کیلئے ،ایک وقت گزاری کیلئے اور ایک منتخب ہوجانے کی صورت میں خرگوش نکالنےکیلئے۔ہمارے ہاں سیاست تنی ہوئی رسی پر چلنے کانام ہے یا یوں سمجھیں کہ بیک وقت کئی گیندیں اچھالنے اور انہیں گرنے نہ دینے کا دوسرا نام ہے۔آپ اسے سانپ اور سیڑھی کا وہ کھیل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں آپ کتنے ہی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیوں نہ کر رہے ہوں مگر سانپ سے ڈسے جانے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے۔سویلین حکومت کی مثال اس بہو کی سی ہے جسے بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے ،اسے اپنے شوہر یعنی عوام کا رانجھا بھی راضی رکھنا ہے ،اسٹیبلشمنٹ نامی نخریلی ساس سے بچناہے ،عدلیہ نامی سسر کے ہتھوڑے سے بھی خود کو محفوظ رکھنا ہے ،اپنے بچوں یعنی پارٹی ورکرز کی فلاح و بہبود کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے ،اپوزیشن کی صورت میں لاتعداجیٹھ اور دیور جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی سازشوں سے بھی بچنا ہے ،شریکوں کے حسد اور ہمسایوں کی کڑوی کسیلی باتوں کا توڑ بھی کرنا ہے اور میڈیا نامی پھپھے کٹنی عورت کے زہریلے پروپیگنڈے کو مات بھی دینی ہے ۔ان تمام جھمیلوں میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر گھر گر ہستی یعنی ملکی ترقی کے بارے میں بھی سوچنا ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں ووٹ مانگنےکیلئے پھر سے جھولی پھیلانے کا وقت آئے تو کارکردگی دکھانے کیلئے کچھ تو ہو۔
بلاشبہ نواز شریف قسمت کے دھنی اور مقدر کے سکندر ہیں۔ بھٹو جیسے زیرک سیاستدان کے ستارے گردش میں آئے تو وہ موت کے منہ سے نہ بچ پائے مگر نوازشریف بار بار موت کو جُل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر1993ء میں صدر غلام اسحاق خان سے اَن بن کے بعد سب کا خیال تھا کہ ’’ڈکٹیشن نہیں لونگا‘‘ والی تقریر کرکے نوازشریف نے سیاسی خودکشی کرلی ہے مگر سپریم کورٹ نے انکی حکومت بحال کر دی۔ کاکڑ فارمولے کے تحت صدر اور وزیراعظم دونوں کو گھر جانا پڑا۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم بننے میں کامیاب رہیں مگر پھر چند سال بعد ہی نواز شریف ہیوی مینڈیٹ لے کردوسری بار وزیراعظم بن گئے۔ نوازشریف نے ایک بار پھر خود کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا۔پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل منصور الحق کو کرپشن کے الزامات پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ہیوی مینڈیٹ کو عدالت کے ہتھوڑے سے کچلنے کی کوشش کی مگرنہ صرف انہیں گھر جانا پڑا بلکہ ان کی سرپرستی فرمانے والے صدر فاروق لغاری بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی تو وزیراعظم نوازشریف نے نتائج کی پروا کئے بغیر انہیں گھر بھیج دیا۔ نوازشریف کے دماغ سے سویلین بالادستی کا خناس نکالنے کیلئے پرویز مشرف جیسے معالج کی خدمات حاصل کی گئیں۔نواز شریف کو وزیراعظم ہائوس سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا۔طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ ہوا، عمر قید کی سزا ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کروایا جائے ۔لیکن ایک دن اچانک سعودی عرب سے شاہی جہاز آیا اور شریف خاندان کو موت کے منہ سے بچا کرجدہ کے سرور پیلس لے گیا۔ جلاوطن تو اس نیت سے کیا گیا کہ اب یہ کہانی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیگی لیکن کہانی نے ایک نیا موڑ لے لیا اور نواز شریف نے پاکستان واپس آنے کا ارادہ کرلیا۔ 10ستمبر 2007ء کو جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ اترا تو نواز شریف کو زبردستی جدہ واپس بھیج دیا گیا کہ ان کی واپسی سے نظام تلپٹ ہونے کا اندیشہ تھا۔ پرویز مشرف نہایت متکبرانہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ نوازشریف کی سیاست ختم ہوگئی۔لیکن18 اکتوبر کو بینظیر بھٹو پاکستان واپس آگئیں تو نواز شریف کو بھی وطن واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہونگے لیکن یہ انہونی ہوکر رہی۔ توقع تو یہ تھی کہ اب ان کادماغ درست ہو چکا ہوگا مگر’ڈھاک کے وہی تین پات۔‘ جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کیا پھرراحیل شریف کو انکار کرکے گستاخی کے مرتکب ہوئے۔ لہٰذا پانامہ کے ہنگام انہیں ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ احتساب عدالت سے سزا ہوگئی۔لندن گئے توبیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ اب لوٹ کر نہیں آئیں گے،اسٹیبلشمنٹ خلاف تھی،عدالتیں مکمل کنٹرول میں تھیں،بدترین سنسرشپ لاگو تھی لیکن نوازشریف دیکھتے ہی دیکھتے اڑن چھو ہوگئے۔لندن جانے کے بعد باجوہ ڈاکٹرائن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔بتایا جارہا تھا کہ اب نقش کہن مٹ چکا۔ تحریک انصاف اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت لے کر حکومت میں آئیگی اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا کردار ختم ہوجائے گا۔مگر پھر کیا ہوا؟سب بندوبست دھرے کا دھرا رہ گیا۔نوازشریف ایک بار پھر واپس آرہے ہیں ،دیکھنا یہ ہے کہ لندن میں ان کے دیگر امراض کا علاج تو ہوگیا مگر کیا سویلین بالادستی کاوائرس ختم کیا جاسکا؟ شہبازشریف، اسحاق ڈار اور میاں جاوید لطیف نے نوازشریف کے اچھے چال چلن کی ضمانت تو دیدی مگر کیاوہ برسراقتدار آنے کے بعد اس کی پاسداری کریں گے؟