سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ارکان نے شرحِ سود میں کمی کی سفارش کر دی۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ بینکوں کے خلاف شکایات موصول ہو رہی ہیں، شکایات سیاسی بااثر افراد کے اکاؤنٹس کھولنے میں مشکلات پر موصول ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کاروباری اور سیاسی لوگوں کو کہا جاتا ہے وہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، بینک سیاست دانوں اور کاروباری افراد کو کریڈٹ کارڈ جاری نہیں کرتے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سعدیہ عباسی نے بتایا کہ میرا بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا جا رہا تھا، مجھے کہا گیا کہ آپ سیاست داں ہیں، میں ٹیکس فائلر ہوں۔
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے حکام نے کہا کہ بینکوں میں سیاسی افراد کی 3 شکایات موصول ہوئی ہیں، اگر کسی کو شکایات ہیں تو وہ بینکوں کے فوکل پرسنز سے رابطہ کریں، سیاسی افراد کی زیادہ چھان بین کی جاتی ہے، ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ بینک سیاسی افراد کی زیادہ چھان بین کرتے ہیں، بینکوں کو عالمی قوانین کے تحت عمل درآمد کرنا ہوتا ہے تاکہ ان پر کوئی پابندی نہ لگے۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ جو شخص بینک اکاؤنٹ کھلوا رہا ہے وہ تو رقم کو دستاویزی بنا رہا ہے، اب بینک اتنے منافع بخش ہو گئے ہیں کہ ان کو کسی کی پرواہ نہیں ہے، پہلے تو بینک کیش لینے کے لیے بندہ گھر بھی بھیج دیا کرتے تھے، چند برسوں سے بینکوں نے بے تحاشہ منافع کمایا ہے، ان بینکوں کو کسی اور صارف کی پرواہ ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی شخصیات کے لیے بینک اکاؤنٹس کھولنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، یہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 10 پڑھ لیں، ایسے افسران اور افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی جو اکاؤنٹ کھولنے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بینکوں کو اب حکومت کی شکل میں بہترین صارف مل گیا ہے، بینک سیاسی افراد کے اکاؤنٹ کھولنا ہی نہیں چاہتے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ سیاسی طور ایکسپوزڈ پرسنز کے لیے ہر بینک میں فوکل پرسن تعینات ہے، اسٹیٹ بینک میں بھی اس بارے میں فوکل پرسن تعینات کیا گیا ہے۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ اب ٹیکس دہندہ کو کیا اسٹیٹ بینک افسر سے پوچھ کر اکاؤنٹ کھولنا ہو گا، اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
وزارتِ خزانہ کے حکام نے کہا کہ ایک فیصد شرح سود بڑھنے سے ملک پر 600 ارب روپے قرض بڑھتا ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ تاریخی شرح سود کی وجہ سے کاروباری برادری پریشان ہے، اسٹیٹ بینک کا شرح سود 22 فیصد اور مارکیٹ میں شرح سود 25 فیصد ہے، 25 فیصد پر کون سا کاروبار چل سکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے حکام نے اجلاس میں بتایا کہ ملک میں مہنگائی میں کمی کے بعد شرحِ سود کم ہو گی، توقع ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہو گی، مانیٹری پالیسی فیصلہ کرے گی شرح سود کو کب کم کرنا ہے، گزشتہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود بڑھانے یاکم کرنے کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس صارفین کے تحفظ کے لیے ونگ ہے، صارفین کی بینکوں کے خلاف شکایات میں خاصی کمی ہوئی ہے، ملک میں مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے شرحِ سود بڑھانا پڑی۔
کامل علی آغا نے کہا کہ شرحِ سود میں اضافے سے گندم، دالیں، سبزیاں اور گھی کم از کم 30 فیصد مہنگے ہوئے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے، کاروبار تو اتنے زیادہ شرحِ سود پر چل ہی نہیں سکتے۔
ذیشان خانزادہ نے کہا کہ بینکوں کے ڈیپازٹ میں بہت اضافہ ہوا مگر صارف کو کوئی فائدہ نہیں، کاروباری لوگوں کے لیے پرانے قرض پر سود ادا کرنا مشکل ہو گیا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مرکزی بینک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے پالیسی ریٹ کے علاوہ کوئی اور ٹول نہیں، مہنگائی میں کمی آئی تو پالیسی ریٹ میں کمی ہو گی، پالیسی ریٹ بڑھنے سے کاروباری اداروں کے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، ابھی تک ایسی صورتِ حال نہیں ہے، اُمید ہے معیشت کی بحالی تیز تر ہو گی۔
کامل علی آغا نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بات کی جائے کہ ملک میں بے روزگاری اور بے چینی بڑھ رہی ہے، پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو آئی ایم ایف کو قرض واپسی مشکل ہو جائے گی، واپڈا اور شرحِ سود کی وجہ سے صنعت بیٹھ گئی ہے۔
سینیٹر دلاور خان کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر تباہی کے دہانے پر ہے، کمرشل بینک قرضے نہیں دیتے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ معاشی صورتِ حال میں بہتری سے دباؤ سے نکل آئیں گے۔
سلیم مانڈوی والا نے 26 ٹریلین کے ڈیپازٹس بڑھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیسہ اسٹاک مارکیٹ یا کاروبار میں جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
’’بینک ناکام ہو جائے تو جمع کرائی رقم کو تحفظ حاصل نہیں‘‘
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کوئی بینک دیوالیہ ہو جائے، ڈوب جائے یا ناکام ہو جائے تو جمع کرائی رقم کو تحفظ حاصل نہیں، بینکوں میں صرف 5 لاکھ روپے تک کی رقوم کو قانونی تحفظ حاصل ہے، لاکھ روپے تک کے ڈیپازٹس رکھنے والے کھاتہ داروں کی شرح 94 فیصد ہے۔
قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ صرف 6 فیصد اکاؤنٹ ہولڈرز کا بینک بیلنس 5 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، 5 لاکھ روپے تک کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو ڈیپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن کے ذریعے ادائیگی کی جا سکتی ہے، ڈیپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے، یہ ادارہ بینکوں سے ہر سال سبسکرپشن فیس لیتا ہے، 5 لاکھ روپے تک کے ڈیپازٹس رکھنے والے کھاتہ داروں کی شرح 94 فیصد ہے۔