پاکستانی سماج جوپہلے ہی معاشی تنزلی کا شکار تھا، اب دہشت گردی کی نئی لہر کا بھی شکار ہوتا جا رہا ہے ۔تحریک طالبان کی دہشت گرد کارروائیاں جو پہلے سرحدی علاقوں تک محدود تھیں ، بڑھتے بڑھتے میانوالی تک پہنچ گئی ہیں ۔ یوں ایپکس کمیٹی نے دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ایک طرف غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کو روکتے ہوئے بعض اشیاء افغانستان کو برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور کچھ درآمدات پر دس فیصد ڈیوٹی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے مساوی بینک گارنٹی کی شرائط بھی عائد کردی ہیں۔یقیناً اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ افغان مہاجرین کے آنے سے جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض افغان پناہ گزین چالیس سال سے زائد عرصے سے یہاں آبادہیں ، انہیں یوں ملک بدر کر دینا اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی ۔پاکستان کو علاقائی تعاون کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان حکومت سے سنجیدہ مذاکرات کرنے چاہئیںجس سے نہ صرف دہشت گردی ہمیشہ کیلئے ختم ہو بلکہ پناہ گزینوں کی واپسی بھی احسن طریقے سے سر انجام پائے۔دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں ان اقدامات پر تنقید کر رہی ہیں کیونکہ اس انخلاء سے زیادہ تر غریب افغان متاثر ہونگے جو انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
آج پاکستانی سماج کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے ، یاد رہے کہ 80ء کی دہائی سے پہلے اسکا ذکر ہمیں خال خال ہی ملتا تھا ،تاہم ضیاالحق کے مارشل لا ء کے دور میں افغانستان میں بے جا مداخلت کے نتیجے میں آج ہمیں یہ دن دیکھناپڑ رہے ہیں۔خود ریاستی اداروں نے سی آئی اے کی ایماء پر دنیا بھر سے مذہبی جنونیوں کو بغیر کسی دستاویزات کے سوڈان، مصر،فلپائین ،عرب اور مختلف اسلامی ممالک سے اکٹھا کر کے افغانستان میں دھکیل دیا ۔ سی آئی اے اور ہمارے حکمرانوں نے اس جنگ سے اپنے اپنے مفادات توحاصل کر لیے لیکن امریکہ نے ان فاتح مجاہدین کو یہیں چھوڑ دیا جس کا خمیازہ افغانستان اور پاکستان کا سماج آج بھی نفرت،فرقہ واریت اور دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہا ہے ۔اس لیے ایپکس کمیٹی کے اس فیصلے کو پوری شد و مد سے اس طرح نافذ کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی جڑیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکیں۔دوسری طرف پاکستان میں معاشی ارتقاکا دیر پا عمل مستقل امن کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس سے پہلے بھی 2016ء میں فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستانی علاقوں سے دہشت گردی کا صفایا کیا گیا تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی ایک عسکری عہدہ دار کے ذریعے نہ صرف طالبان سے مذاکرات کیے بلکہ سانحہ اے پی ایس میں ملوث دہشت گردوں کیلئے عام معافی کا اعلا ن بھی کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دو ہزار کے لگ بھگ مجاہدین جو جدید اسلحے اور امریکی افواج کے چھوڑے ہوئے سازو سامان سے لیس تھے ، انہیں سابقہ فاٹا کے علاقوں میں کھلے عام واپس جانے کی اجازت دے دی۔یہ دہشت گردخود تو افغانستان سے واپس آ گئے لیکن انکے لیڈر اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
ایپکس کمیٹی کے حالیہ ا علامیہ سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنی ان تاریخی غلطیوں، جو ضیاالحق کے دور سے شروع ہوئی تھیں، پر نظر ثانی کر رہا ہے ۔یاد رہے کہ اس خارجہ پالیسی کی بنیاد’’انڈین سینٹرک‘‘تھی اور ان دفاعی پالیسیوں کے تحت ہم نے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ تصور کر لیا تھا۔ اس پالیسی کو ریاستی دانشوروں نے بھرپور دلائل کے ساتھ ریاستی بیانیے کا حصہ بنادیا جس میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ پاکستان کی ’’کمر‘‘جغرافیائی طور پر بہت کمزور ہے ، جس کو دشمن بڑی آسانی سے دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ یوں ریاستی دانشوروں نے’’ڈیپ اسٹیٹ ‘‘کی اصطلاح کو پاکستانی خارجہ پالیسی کا مضبوط بیانیہ بنا دیا جس کی ترویج ہر ذریعہ ابلاغ سے کی گئی اور دیکھتے دیکھتے ہماری سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن گئی جس نے پاکستانی قوم کو فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور جنونیت کا شکار بنا دیا ، یوں ہمارا معاشرہ آج بھی مسلسل ایک بنجر معاشرے کی طرف جا رہا ہے جہاں قرون وسطیٰ کی یادوں کے علاوہ کچھ نہیں ۔آج پاکستان کی معاشی ،سیاسی اور اداروں کی تنزلی رکنے کا نام نہیں لے رہی جس کا اظہار آرمی چیف نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اقبال کا یہ شعر پڑھتے ہوئے کیا ہے، کہ
نہ سمجھو گے تو مٹ جائوگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانو ں میں
آج پاکستان کے بیشتر ماہر اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ایسی ریاست جسے ہر سال چالیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا ہو، وہ ریاست علاقائی تعاون کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی جس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رکھا جائے لیکن اگر افغان حکومت دہشت گردی کے معاملات میں تعاون کرنے پر تیار نہیں تو پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کو کسی نے فتح نہیں کیا کہ اسے مال غنیمت سمجھ کر مسلسل لوٹا جائے بلکہ یہ ایک جمہوری کوشش سے بنا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم جمہوریت ، آئین کی پاسداری اور پڑوسی ممالک سے برادرانہ تعلقات کی روایات پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالیں۔