• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاکھوں چالان، اسٹریٹ کرمنلز، ٹارگٹ کلرز اور گٹر کے ڈھکن چور کیمروں کی گرفت سے آزاد

کراچی (ثاقب صغیر) شہر میں ای چالان سسٹم کے نفاذ کے بعد سے شہریوں کے لاکھوں کی تعداد میں چالان جاری کیے جا چکے ہیں تاہم اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان ،ٹارگٹ کلرز اور گٹر کے ڈھکن چوری کرنے والے ملزمان ان کیمروں کی گرفت سے آزاد ہیں۔پولیس کے مطابق کراچی میں سیف سٹی منصوبہ ایک مربوط نگرانی اور کمانڈ و کنٹرول سسٹم ہے جس کے تحت شہر کے مختلف علاقوں میں نمبر پلیٹ ریڈنگ کیمروں اور چہرہ شناخت (facial recognition) کیمروں کو نصب کیا گیا ہے۔ٹریفک چالان ( ای چالان )کیلئے جن کیمروں کا استعمال ہوتا ہے وہ بنیادی طور پر Automatic Number Plate Recognition (ANPR) اور سی سی ٹی وی کیمرے ہوتے ہیں۔ جب کوئی گاڑی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے تو کیمرے اس کی ویڈیو یا تصویر لیتے ہیں۔ نمبر پلیٹ یا گاڑی کی شناخت کی بنیاد پر یہ نظام گاڑی کے مالک کا ڈیٹا (رجسٹریشن، نام، پتہ) ڈیٹا بیس کی بنیاد پر ای چالان خود بخود جاری کرتا ہے۔ چالان کے ساتھ ویڈیو یا تصویری ثبوت بھی منسلک ہوتا ہے تاکہ ثابت ہو سکے کہ خلاف ورزی واقعی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ سیف سٹی نظام اور نگرانی کا دائرہ وسیع ہے۔ چہرہ شناخت کیمروں (facial recognition) کے ذریعے پولیس فرار ، مطلوب اور اشتہاری ملزمان اور مشتبہ افراد کو بھی تلاش کر سکتی ہے ۔جب کسی مشتبہ شخص کا ریکارڈ موجود ہو (مثلاً عدالت یا پولیس ریکارڈ میں) اور اس کا چہرہ یا گاڑی نمبر سیف سٹی کیمروں کے ڈیٹا بیس میں ہے تو facial recognition یا ANPR کیمرے اسے/live feed پر detect کرتے ہیں اور الرٹ جاری ہوتا ہے۔ پولیس یا ایمرجنسی رسپانس ٹیم فوری کارروائی کر سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں سائوتھ پولیس نے ایک مطلوب ملزم کو صرف چہرہ شناخت ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔ اسی طرح ٹریفک کے علاوہ دیگر جرائم جیسے غیر قانونی گاڑیوں کی موجودگی ، جعلی نمبر پلیٹ، چھینی اور چوری کی گئی گاڑیوں کی شناخت بھی ممکن ہے ۔اس نظام کے تحت طویل عرصے سے فرار ہونے والے ملزمان بھی پکڑے جا سکتے ہیں۔ ٹریفک ای چالان سسٹم کے تحت پہلے مرحلے میں کراچی میں ایک ہزار 76کیمروں کی تنصیب ہوئی ہے۔ شہر میں رواں برس 59 ہزار کے قریب اسٹریٹ کرائم کے واقعات ہو چکے ہیں ۔شہریوں سے 15 ہزار سے زائد موبائل فون جبکہ 6ہزار سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھینی جبکہ 37 ہزار کے قریب گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چوری کی جا چکی ہیں۔یومیہ بنیادوں پر 46سے زائد موبائل فون ، 5سے زائد فور ویلر گاڑیاں جبکہ یومیہ 123سے زائد موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی جا رہی ہیں تاہم اس نظام کے تحت ان جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔شہر میں قتل کی وارداتوں میں ملوث ٹارگٹ کلرز بھی تاحال اس نظام کی گرفت سے باہر ہیں جبکہ شہر میں گٹر کے ڈھکن چوری کرنے والے بھی ان کیمروں کی مدد سے پکڑے نہیں جا سکے ہیں جس کے باعث معصوم بچوں سمیت کئی قیمتی جانیں جا چکی ہیں۔اس حوالے سے کراچی ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی کاشف ندیم سے اب تک نئے نظام کے تحت جاری کیے گئے چالان کے اعدادو شمار جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم ان کی جانب سے ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا جبکہ سیف سٹی کیمروں کی مدد سے شہر میں اسٹریٹ کرمنلز سمیت مختلف جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے ڈی جی سیف سٹی اتھارٹی آصف اعجاز شیخ سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا اور انھیں ایک سوالنامہ بھی بھیجا گیا تاہم ان کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اہم خبریں سے مزید