افغانستان کی پاکستان کے ساتھ ہونے والی دوطرفہ تجارت میں رسمی کے ساتھ غیردستاویزی تجارت سے انکار ممکن نہیں ۔ اس کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان چلے آنے والے صدیوں پرانی رشتہ داریوں، برادریوں اور مذہب و ثقافت کی سطح کے تعلقات اور با لخصوص غذائی ضروریات کا آپس میں آسان لین دین ہے۔اسمگلنگ کا یہ رجحان ختم کرنے کی کوششیں ابھی تک بار آور تو ثابت نہ ہوسکیں البتہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر بڑی حد تک دارومدار ضرور ہے۔چین میں تعینات پاکستانی سفیر کا میڈیا میں آنے والا یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں دونوں ملکوں نے دوطرفہ سی پیک منصوبے میں افغانستان کو تیسرے فریق کے طور پر شامل کرنے پر اصولی اتفاق کیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ آئندہ ہفتے بی آر آئی کانفرنس میں شرکت کیلئے چین جارہے ہیں ۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ اس موقع پر سی پیک منصوبے پر چینی حکام کے ساتھ بات چیت آگے ضرور بڑھ سکتی ہے جس کی روشنی میں آنے والی منتخب حکومت کو ممکنہ معاہدے کیلئے راہ ہموار ملے گی۔بدقسمتی سے ملک میں یہ ایک منفی رجحان چلا آرہا ہے کہ ایک حکومت کے شروع کئے گئے منصوبے اگلے حکمران ختم یا تبدیل کرتے آئے ہیں ، اس سے بہت سے میگا پروگراموں کو شدید دھچکا لگا ہے۔اس وقت ملک کو توانائی سمیت مختلف شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے پاس سرمایہ کی کمی ضرور ہے لیکن دیگر وسائل اور روزگار کے لاکھوں مواقع موجود ہیں۔ جغرافیائی طور پر یہ ملک جس خطے میں واقع ہے ، پڑوسی ممالک کی دلچسپی اس پروگرام میں دور رس نتائج پیدا کرسکتی اور اسے ٹھوس بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے جس کیلئے اس کا کثیر الجہتی ہونے کے ساتھ ساتھ کثیرالفریقین ہونا نیک فال ہےجس سے آپس کے سیاسی اور دیگر اختلافات نمٹانے میں بھی مدد ملے گی۔