• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحمل مزاج ،اصول پسند ،دوراند یش،وقت کا پابند ،نیک سیرت ، محبت کرنے والا مسلمان ، ان سب خویبوں کو جمع کیا جائے تو میاں محمد شریف کی شخصیت سامنے آتی ہے۔ کون جانتا تھا کہ مشرقی پنجاب کے ایک گائو ں جاتی امرا کے محمد رمضان کے گھرپیدا ہونے والا سب سے چھوٹا بچہ اور بی بی مہراں کی گود میں پلنے والا محمد شریف اپنے وقت کا ’’مسٹر اسٹیل‘‘بنے گا ۔محمد شریف اپنے باقی بھائیوں کی طرح قیام پاکستان سے قبل ہی لاہور میںقسمت آزمائی کیلئے آگئے ۔سب چاہتے تھے کہ ان کا یہ بھائی تعلیم حاصل کرے ، ہماری طرح روزانہ کی مزدوری نہ کرے ۔ یہ سب بھائی ایک ہندو کے ہاں بھٹی پر ملازم تھے اورمٹی اور توڑی سے بھرے ٹوکرے اٹھاتے تھے۔پھر ایک دن ان کے بھائیوں کا’’باؤ‘‘سے ٹوکر ا اٹھوانے پر ہندو سے جھگڑا ہو گیا ۔ باؤ جی نے پانچ سو روپے کسی سے ادھار لے کر ایک بھٹی خریدی اور سات بھائیوں کے چودہ ہاتھوں نے مل کر کام شروع کر دیا یہ لوگ دن رات بھول گئے۔

اتفاق اور اتحاد کے باعث اللہ تعالیٰ نے انکے کاروبار کو جمع کی بجائے ضرب کی شکل میں ترقی دی اور یہ ساٹھ کے عشرے میں اتفاق فاؤنڈری کی شکل میں پاکستان کے بہت بڑے فولادی کارخانے کے مالک بن گئے ۔ 1972ء میں اس فاؤنڈری کو اُس وقت کی حکومت نے قومی تحویل میں لے لیا ۔ خاندان کے سب لوگ پریشان تھے کہ اب کیا کیا جائے ، سب کاروبار ختم ہوگیا۔ لیکن اس باہمت شخص نے اگلے روز صبح ہی معمول کے مطابق شہبازشریف سے کہا کہ شہباز تیار ہوجاؤکام پر جانا ہے ۔ شہباز نے پوچھا کونسا کام ؟ہمارے پاس تو کچھ کام نہیں رہا ۔ جواب دیا ، دفتر موجودہے آؤ چلتے ہیں نئے کام کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس فولادی شخص نے جاوید پرویز کارپوریشن اور پھر بعد میں نواز شہبازلمیٹڈ کے نا م سے کاروبا ر شروع کر دیا ۔اور دوتین سال کے اندر ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ۔کچھ ہی عرصے میں اتفاق برادراور اتفاق ٹیکسٹائل ،اتفاق شوگر مل لگا ڈالی۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں اتفاق فاونڈری اُن کو واپس مل گئی اسطرح میاں صاحبان کی یہ محنت ایک بڑے صنعتی گروپ میں تبدیل ہوگئی اس دور میں میاں شریف صاحب نے اپنے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارااُن ہی کی رہنمائی میں میاں نوازشریف ترقی کرتے چلے گئے پہلے وزیر پھر وزیر اعلیٰ اورپھر تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے میا ں شہباز شریف بھی چار بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور ایک دفعہ وزیراعظم بنے۔ میں ان چند لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے میا ں شریف کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میاں صاحب سے میری پہلی ملاقات میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف کی شادی میں ہوئی ۔ جب میں بمشکل دس سال کا تھا۔

جب1986ءمیںمیںنے Economics میں ماسٹر کیا تو میاں صاحب کو پتہ چلا تو میاں صاحب نے میرے والد (حشمت اللہ خاں)کو کہا کہ اس کو میں اپنے ساتھ رکھوں گا ۔ اس وقت اتفاق ہسپتال تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ اُس وقت مجھے میاں صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔میاں شریف صاحب نہ صرف خودد پابند صوم صلوۃتھے بلکہ تمام خاندان بھی ایسا ہی تھا ۔ اپنے سات(7 )گھروں کیساتھ ایک مسجد اور ایک مدرسہ بھی بنوایا ، میاں شریف غریبوں ، بیواؤں اور یتیموں کی امداد اسطرح کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی علم نہ ہوتا،باقاعدگی سے اتفاق ہسپتال آتے،ہر مریض کے پاس جاکر اُس کی عیادت اور مالی مدد فرماتے، رمضان کے دنوں میں انکی خیرات بڑھ جایا کرتی ۔

فروری 1997ء شریف میڈیکل سٹی اور انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی گئی تو میا ں صاحب کی زیادہ توجہ اس طرف ہو گئی ۔اس ہسپتال کے سامان کی خریداری کیلئے انہوں نے اپنے پوتے حسین نواز کو دنیا کے کئی ملکوں میں بھیجا تاکہ جدید ترین سامان خریدا جائے ۔ جب ہسپتال نے کام شروع کیا تو میاں صاحب روزانہ مریضوں کی تعداد پوچھا کرتے کہ آج کتنے مریضوں کا علاج کیا گیا۔ شروع شروع میں میاں صاحب کی زیر نگرانی اتفاق ہسپتال کے ساتھ ساتھ شریف سٹی کو میں نے ہی دیکھا ۔

12اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب کے وقت میاں شریف صاحب کے بیٹوں اور پوتوں کو قیدو بندکی صعوبتوں سے گزارا گیا میاں شریف کو انکے گھر پر ہی قید کر دیا گیا۔ میں وہ واحد شخص ہوں جو اس واقعے کے بعد 19اکتوبر 1999ء کو ان سے ملا ان کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ تھی ۔ میں نے خیریت دریافت کی تو جواب میں مسکراہٹ تھی ۔ یہ وہ وقت تھا جب میا ں نواز شریف ، میاں شہباز شریف اور حسین نواز سے ان کے خاندان کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔

20اکتوبر 1999ء کو آرمی نے انکی رہائش گاہ پر ہی مجھے Detainکیا اور ایک بڑے قافلے کی شکل میں مجھے میاں صاحب کے گھر سے محفوظ پورہ لاہور کینٹ میں ایک ریسٹ ہاؤس میں لے جایاگیا جہاں تقریباً ڈیڑھ ماہ جنرل مشرف کی حکومت اور ان کی ایجنسیاں کارروائیاں کرتی رہیں ،رہائی کے بعد میاں صاحب نے مجھے حوصلہ دیا وہ کبھی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے ملنے جیل نہ گئے وہ حکومت کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ جذباتی ہیں نہ کمزور مضبوط قوت ارادی اُن کی شخصیت کا جوہر تھا۔ پھر 10دسمبر 2000ء کو وہ دن آیا جب سارے خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا ۔ غر یب الوطنی کے اس دور میں بھی اس مرد آہن نے ہارنہ مانی اور سعودی عرب میں بھی ایک اسٹیل مل لگائی ۔ وطن سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی اولاد کومرنے کے بعد جاتی امرا میں تدفین کی وصیت کی تھی ۔ 29اکتوبر 2004ء کو جمعہ کے روز شام کے وقت اُنکی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی انکی نمازجنارہ حرم پاک میں ادا کی گئی۔ وہ ایک انتہائی پر عزم ،بامعنی ،جدوجہد سے بھر پور، بامقصد زندگی گزارنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

تازہ ترین