• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف 2019کے گئے ہوئے 2023 میں لوٹ آئے ہیں۔ اس عرصے میں ان کا اپنا علاج بھی ہو گیا اور ہائی برڈ نظام والوں کی طبیعت بھی صاف ہو گئی۔اس نظام کی بساط بچھانے والوں کا اپنی ہی دوا سے کافی حد تک علاج ہو گیا۔ مرض جانے مکمل طور پر ختم ہوا یا نہیں مگر ان برسوں میں مرض کی کم از کم تشخیص ہو گئی۔ اس قوم کی ناکامی و نامرادی کی وجوہات اب بچے بچے کو سمجھ آ چکی ہیں۔

جو کہتے ہیں کہ انہیں اصل مرض کا پتہ نہیں وہ خوفزدہ ہیں یا حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ اب اصل معاملہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ اب لوگ سرگوشیاں نہیں کر رہے، اب نعرے لگ رہے ہیں۔ اب لوگ اپنی شناخت چھپا نہیں رہے بلکہ اپنی شناخت اصل مرض کے حوالے سے بنا رہے ہیں۔

اس ملک میں سب قوتوں کو سبق مل چکا ہے۔ سب اپنی غلطیوں کا آموختہ دہرا چکے ہیں۔ کسی کا کسی سے حجاب نہیں رہا۔ اب کوئی نہیں کہہ رہا کہ ہماری غلطی نہیں ہے۔ اب کوئی نہیں لیکچر دے رہا کہ ہم مقدس ہیں۔ اب کسی کے سر پر عظمت رفتہ کی دستار نہیں ہے۔ اب کوئی سوشل میڈیا کے دشنام سے محفوظ نہیں۔

اب سب کچھ سرعام درپیش ہے، اب جنگ اداروں کی نہیں رہی، اب بات افراد تک آ گئی ہے۔ اب مرحلہ جان بچانے کا ہے۔ اب کوشش عزت کو تار تار ہونےسے محفوظ رکھنے کی ہے۔ ماضی کے سب مینار ڈھے چکے ہیں۔ اب کسی کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اب ایک نیا زمانہ سب کو درپیش ہے اور اس زمانے میں نواز شریف واپس آ ئے ہیں۔

نواز شریف کے پاس اب بھی بہت آپشن ہیں ۔ ایک رستہ تو سامنے کا ہے کہ سیدھا سیدھا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے لیں ۔ اسی دیوار کو ٹکر ماریں جس دیوار سے عمران خان نے اپنا سر پھوڑا ہے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ مفاہمت کر لیں۔ عمران خان سے انتقام لیں اور عمران خان کو لانے والوں کے نام بھول جائیں۔ عمران خان کو عقوبت خانے میں مزید ایذا پہنچائیں۔ ان کے سارے ساتھیوں کو گرفتار کروا دیں، اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا بدلہ لیں۔ ان کی مزید فائلیں کھلوا دیں۔ ان پر مقدمات کی لائنیں لگا دیں، انہیں عبرت کا نشان بنا دیں۔ ان سے وہی سلوک کریں جو بے نظیر کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے خلاف بھی ایسے بندے بھرتی کریں جو ان سے بڑھ کر گالی دیں لیکن اس سارے عمل میں احتیاط رہے کہ نہ ہائی برڈ نظام کی بزم سجانے والوں کے نام آئیں نہ جنرل باجوہ پر کوئی الزام آئے نہ فیض حمید کا کوئی ذکر ہو۔ بس ایک سیاستدان دوسرے سے انتقام لے۔ یہ رسم ہمارے ہاں مباح ہے، اس کے پرستار بھی بہت ہیں، اس کا اجر بھی اس سماج میں زیادہ ہے۔

نواز شریف کے پاس تیسرا آپشن یہ کہ عمران خان سے مفاہمت کرلیں۔ جس طرح بے نظیر کے ساتھ میثاق کیا تھا وہی معاہدہ دہرا دیں۔ عمران خان سے تصادم کے بجائے تعاون کا رستہ اختیار کریں۔

اگرچہ عمران سے توقع نہیں کہ وہ بات سمجھیں گے مگر بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ عمران خان کو بتائیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے کبھی ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا نعرہ لگانا پڑتا ہے کبھی کاکڑ فارمولا اپنانا پڑتا ہے اور کبھی ووٹ کی حرمت کا علم بلند کرنا پڑتا ہے۔

کبھی وطن بدر ہونا پڑتا ہے، کبھی طیارہ سازش کیس بھگتنا پڑتا ہے، کبھی بستر مرگ پر بیوی کو چھوڑ کر بے بنیاد مقدمات میں آکر گرفتاری دینا پڑتی ہے۔ کبھی اپنے ساتھیوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان کو بتائیں’’گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا ...گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں ‘‘

نواز شریف کے پاس ایک آپشن اور بھی ہے۔ وہ 25 کروڑ لوگوں کی فلاح کا رستہ ہے۔ اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ ایک بے لوث اور بے لاگ گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جس میں الزام لگانا مقصود نہ ہو بلک اس دشوار صورت حال سے نکلنا مقصد ہو۔ جس سے فساد مقصود نہ ہو فلاح کاارادہ ہو۔ ایک دفعہ سب قوتوں کے ساتھ بیٹھیں ۔ فیصلہ کریں ۔ ماضی کی غلطیوں کو طشت از بام کریں یا انہیں بھلا دیں لیکن اب مستقبل کی جانب دیکھیں ۔ پچیس کروڑ زندگیوں کے متعلق سوچیں ۔ اس وقت قوم کو ایک بڑے مباحثے کی ضرورت ہے، جہاں اختلاف کی تمام صورتوں کو ختم کیا جائے، جہاں اچھے مستقبل کی راہ تلاش کی جائے، جہاں ماضی کے زخموں کی ادھیڑنا بند کیا جائے۔ 25 کروڑ لوگ بہت ہوتے ہیں۔ 25 کروڑ لوگوں کے سینے پر لگے زخم بھی بہت ہوتے ہیں، ان زخموں کا علاج بہت دور کی بات ہے ابھی تک تو مرحلہ شمار تک نہیں پہنچا۔نواز شریف اس وقت دنیا کے سب سے تجربہ کار سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کا امکان ہے۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں عہدے کی طمع دل میں نہیں رہتی البتہ تاریخ میں تابندہ رہنے کی خواہش ضرور ہوتی ہے۔

اب یہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام رقم کرنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں، ان کے لیے سب آپشنز کھلے ہیں۔

تازہ ترین