• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر عروج کی ایک حد ہے‘ اسی طرح ہر زوال کی ایک آخری تہہ ہے‘ عروج و زوال کا قانون شجر و ہجر‘ کوہ و دمن سے فرد‘ معاشرہ‘ قوم اور تہذیب سب پر لاگو ہوتا ہے۔ سب‘فرد‘ معاشرے اور تہذیبوں کو کبھی نہ کبھی عروج نصیب ہوا اور کہیں نہ کہیں آخری حد تک پہنچ کر وہ زوال پذیر ہوگئے۔ مسلمانوں نے زوال کی تہہ کو 1922ء میں جا لیا تھا۔ اسی طرح یورپ کی عیسائی تہذیب کا عروج سولہویں صدی میں شروع ہو کر 1923ء تک مکمل ہو گیا‘ 1923ء اس لئے کہ اس کے بعد برطانیہ عظمیٰ اور اس کے حلیف اور یورپ آہستہ آہستہ اپنی توسیع کی آخری حدوں کو چھو کر واپس ہو لئے۔ اس کی وجوہات جو بھی رہی ہوں‘ ان میں سب سے بڑی اور ظاہری وجہ نو آبادیاں قائم کرنے یا ہتھیانے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش میں باہمی مسابقت‘ مقابلہ اور پھر دو عظیم جنگیں۔ جس طرح عروج ہمہ جہتی ہوتا ہے بالکل اسی طرح زوال بھی ہر شعبہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے‘ جس طرح قوموں اور تہذیبوں کو عروج کی آخری حد تک لے جانے کیلئے صدیاں درکار ہیں اسی طرح زوال پذیر معاشرہ‘ قوم یا تہذیب کو پستی کی آخری حدوں تک اترنے کیلئے بھی صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ ہم ہر روز خارجہ تعلقات اور قوموں کی پالیسی میں ملکی یا قومی مفاد کی بات سنتے ہیں یعنی قوموں اور ملکوں کے تعلقات میں کوئی اصول اور نظریہ کارفرما نہیں ہے بلکہ یہ صرف اپنے مفاد کے تابع ہوتے ہیں‘ قومی مفاد کی تصغیر کی جائے اور اسے فرد پر لاگو کیا جائے تو اسے ’’خودغرضی‘‘ کہا جائے گا‘ خود غرضی کو بڑا کیا جائے یا قومی مفاد کی تصغیر (منی ایجر) کی جائے تو اسے خودغرضی کہا جائے گا‘تو اس کے نتائج وہی ہو ں گے جو از ل سے خودغرضی کا نتیجہ ہیں۔
یورپ کے چند ملکوں نے باہمی مذاکرات کے ذریعہ یورپ کو کنفیڈریشن میں ڈھالنے کا عمل شروع کیا اور اس ڈھیلے ڈھالے اتحاد کا بلجیم کے شہر برسلز کو ہیڈکوارٹر قرار دیا گیا‘ ایک اسمبلی بنی اور پھر ایک کرنسی ’’یورو‘‘ وجود میں آ گئی۔ راقم کیلئے یہ پیشرفت حیرت کا باعث تھی کہ عروج کو پا لینے کے بعد زوال کی تہہ میں اترے بغیر پھر سے اٹھ کھڑے ہونے کا سلسلہ حیرت اور تعجب کا باعث تھا‘ دوسری اہم چیزجرمن‘ فرانسیسی‘ برطانوی اور سکینڈے نیوین ملکوں کی ہزاروں برس پرانی نفرت‘ حقارت‘ دشمنی‘ جنگ و جدل‘ خونریزی جو ان کے دل و دماغ سے ہو کر جین کے اندر DNA تک پہنچ چکی ہو اتنی جلد رفع ہو جائے یہ بھی تعجب خیز تھا۔ مگر یہ سب کوئی حقیقی کایا کلپ نہیں تھی بلکہ روس کی جارحانہ پیش قدمی نے مغربی یورپ کو بڑے اور فوری خطرے سے دوچار کر دیا تھا‘ چنانچہ امریکہ کی قیادت میں مغربی یورپ نے پہلے نیٹو کے نام سے فوجی یا دفاعی اتحاد قائم کر کے فوج کو تربیت دی اور دفاعی نظام تشکیل دیا۔ اس کے مقابلے میں روس نے بھی ’’وارسا پیکٹ‘‘ کے نام سے ایک فوجی اتحاد قائم کر لیا تھا‘ لیکن روس نے سینٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کے جن ملکوں کو اپنے حلقہ اثر میں شامل کیا تھا عملاً ان کی شناخت گم کر کے انہیں USSR کا لازمی حصہ بنا لیا تھا‘ یوں روس آبادی‘ رقبے اور وسائل کے اعتبار سے بہت بڑی طاقت نظر آنے لگا۔ لہٰذا تحفظ کے احساس اور روس کے خوف نے یورپ کو متحد ہونے میں مدد دی‘ چنانچہ ایک دفاعی اتحاد اب معاشی اور سیاسی اتحاد میں ڈھل کے روس کے مقابل کھڑا ہونے کو تیار ہونے لگا ‘روس بھی اپنی طاقت اور حد سے زیادہ وسعت اختیار کر چکا تھا‘ اس نے اپنی ہمت اور طاقت کا درست اندازہ کئے بغیر اپنی توسیع پسندی کو جاری رکھا اور 1979ء میں افغانستان پر چڑھ آیا۔ یہی اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا‘ جو اس کی قوت برداشت کی آخری حد ثابت ہوا‘ جس سے اونٹ کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ دھڑم سے زمین پر آ رہا۔ خوف ختم ہوا‘ روس وقتی طور پر امریکا اور یورپ کی مدد کا محتاج ہو گیا‘ مشرقی یورپ‘ سینٹرل ایشیا اس کے چنگل سے آزاد ہو گئے‘ اب کتنی ریاستیں مغربی یورپ اور روس کے دمیان حائل ہو گئیں‘ ایک قابل عمل اور حقیقی ’’بفر‘‘ (Buffer) قائم ہو گیا اور روس کا دبدبہ ختم ہو اتو یورپ کا خوف بھی جاتا رہا‘ ان کے اتحاد کی کوئی مثبت بنیاد نہیں تھی بلکہ خوف کے منفی جذبے نے ان کو اکٹھا کیا تھا‘ خوف کم ہوا تو قومی مفاد یعنی خود غرضی کا جذبہ سر اٹھانے لگا ار وہ قوم یا ملک جو سب سے زیادہ خودغرض مفاد پرست کہلائے جانے کا مستحق ہے یعنی برطانیہ‘ اس نے اپنے کیک کے ٹکڑے کو مشرقی یورپ کے پسماندہ ملکوں کے ساتھ بانٹنے سے انکار کرتے ہوئے یورپی یونین سے نکل جانے میں پہل کر ڈالی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل بھاگنے کی تین بڑی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ پہلی معیشت‘ یعنی سب سے بڑی وجہ اقتصادی ہے‘ برطانیہ بھوک اور روٹی بانٹنے کیلئے تیار نہیں تھا‘ اس کا خیال ہے کہ کیک کا بڑاٹکڑا اس کے ہاتھ میں ہے تو چھوٹے ٹکڑے والے کے ساتھ حصہ کیوں بٹائے۔ دوسری وجہ نقل مکانی ہے‘ مشرقی یورپ کے نسبتاً پسماندہ یا کم خوش حال ممالک کے باشندے یورپی یونین کی سفری سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر خوشحال علاقوں کی طر ف آنے لگے اور لندن ان کیلئے سب سے پرکشش شہر قرار پایا‘ دوسری طرف مشرق وسطیٰ کی بدامنی کے نتیجے میں وہاں سے بھی بے گھر ہونے والوں کا ایک ریلا یورپ کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے‘ اس لئے تارکین وطن کا مسئلہ انہیں زیادہ ستانے اور خوفزدہ کرنے لگا تھا چنانچہ انہوں نے اپنی سرحدوں کو بند کرنے‘ محفوظ بنانے اور اپنے شہریوں کے روزگارکو بچائے رکھنے کیلئے اس بندھن سے آزاد ہونے کو ترجیح بنا لیا۔تیسری بڑی وجہ برسلز میں یورپی یونین کی بیورو کریسی سے پیدا ہو جانے والی شکایات کو قرار دیا جا رہا ہے۔ وجوہات کی تعداد کو جتنا بھی بڑھا لیا جائے‘ اصل سبب خودغرضی ہے جسے قومی مفاد کا نام دیا جاتا ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ عروج و زوال کا غیرمعتدل اصول لاگو ہو چکا ہے اور یہ پہیہ اپنا چکر مکمل کئے بغیر رکنے کا نہیں وہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ اب اپنی اصل سرحدوں کے اندر مزید سکڑ جائے گا‘ جب ’’اسکاٹ لینڈ ‘‘اور ’’ویلز ‘‘اپنی الگ بستی بسائیں گے‘ حالانکہ یورپ ہو یا امریکہ ان کی معیشت میں نمو کا سبب یہی تارکین وطن ہیں جو ان کو سستی اور وافر لیبر فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پیداوار اور قیمتوں میں استحکام ہے۔ اگر مشرقی یورپ اور دوسرے ملکوں سے آنے والے مہاجرین کا سلسلہ کسی وجہ سے رک جائے تو ان کی اقتصادی حالت اور بھی پتلی ہو جائے گی‘ ان کے پاس اب سروسز کے علاوہ کوئی پیداواری صلاحیت ہے ہی نہیں اور ان کی شرح آبادی خطرناک حد تک گر چکی ہے‘ خاندانی نظام بکھر گیا ہے اور بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ چنانچہ دوسرے ملکوں سے آنے والے تازہ خون ‘ طاقتور اور جواں سال لوگوں کی مدد کے بغیر ان کیلئے اگلی نصف صدی گزرنا بھی مشکل ہے۔ جو غلطی برطانیہ کرنے جا رہا ہے وہی حماقت امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں نازل ہونے والی ہے‘ اگرچہ وہ امریکا میں الیکشن نہیں جیت سکے گا لیکن نفرت و حقارت کی جو آگ سلگائی ہے وہ ان ملکوں کو تپش دے کے رہے گی۔ برطانیہ‘ یورپی یونین سے نکلنے والا پہلا ملک ہے لیکن آخری نہیں‘ ساری دنیا کو پارہ پارہ کرنے والے خود متحد کس طرح رہ سکتے ہیں؟ یہ قدرت کے اصول کے منافی ہے اورقدرت اپنے قوانین کو نافذ کر کے رہتی ہے۔تقدیر کے فیصلے اٹل ہیں‘ ابھی پستی کی وہ تہہ نہیں آئے یہاں انہیں اترنا ہے۔ برطانیہ کو ایک نئے تضاد کا سامنا ہے جسے ’’جنریشن گیپ‘‘یعنی نوجوانوں اور بزرگ شہریوں کو فکری تضاد۔ 71 فیصد برطانوی نوجوان اتحا دمیں رہنا چاہتے تھے مگر بزرگ جاتے جاتے ان کی راہ بھی کھوٹی کر گئے۔

.
تازہ ترین