• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک۔ افغان بارڈر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالباً یہ دنیا کی واحد بین الاقوامی سرحد ہے، جسے بغیر مروج سفری دستاویزات کسی وقت بھی عبور کیا جاسکتا ہے۔ پشاور سے چند کلو میٹر دور طورخم پر ہر روز میلے کا سماں ہوتا ہے اور ہزاروں افغان اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آجارہے ہوتے ہیں۔ کسی کی فیملی پشاور میں ہے، تو کسی کے بچے ادھر پڑھ رہے ہیں اور کسی کو علاج معالجے کیلئے پاکستانی طبیب سے ملنا ہے۔ غرض پاکستان افغانوں کیلئے عملی طور پر دوسرا گھر بنا رہا، جہاں وہ جب چاہتے چلے آتے۔ افغانستان میں روسی یلغار کے بعد یہ سلسلہ تیزی سے بڑھا۔ خاص طور پر 35لاکھ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد تو سرحدیں بالکل ہی بے معنی ہوکر رہ گئیں اور من تو شدم، تو من شدی والی کیفیت پیدا ہوگئی، لطف کی بات یہ کہ اس کھل کھیل کے باوجود ویزا کے اجراء کا اہتمام بھی موجود ہے۔ اور افغانستان میں موجود پاکستانی سفارت خانہ اور چاروں قونصلیٹ مجموعی طور پر کم و بیش دو ہزار ویزے روزانہ جاری کرتے ہیں، جو ظاہر ہے خواص کیلئے ہوتے ہیں، جو قدرے باعزت طریقے سے سرحد پار جانا چاہتے ہیں۔ جبکہ ویزے بغیر 20/25 ہزار نفوس تو صرف طورخم سے بارڈر کراس کرتے ہیں، باقی سرحدی گزرگاہیں اس کے علاوہ ہیں۔
پاک۔افغان سافٹ بارڈر کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔ ہندوستان میں مضبوطی سے قدم جمانے کے بعد 1839ء میں انگریزوں نے افغانستان کو بھی اپنی عملداری میں لینے کی کوشش کی، جس کی افغانوں نے بھرپور مزاحمت کی اور برطانوی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ 1878ء میں دوسری اینگلو افغان جنگ میں انگریز سپاہ کا پلہ بھاری رہا اور نتیجتاً ایک وسیع علاقہ انگریزی عملداری میں شامل ہوگیا۔ مغربی سرحد پر مطلوبہ تزویری کامیابیوں کے بعد انگریزوں نے افغانستان کے حکمران امیر عبدالرحمٰن کے ساتھ صلح کرلی اور 1893ء میں فریقین کے مابین سرحدی معاہدہ طے پاگیا، جسے تاریخ میں ڈیورنڈ لائن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ڈیورنڈ برطانوی ہند کے ایک اہم اہلکار اور سفارت کار تھے اور مذکورہ معاہدہ انہیں کی کاوش کا نتیجہ تھا۔ جس کے تحت شمال مغرب کے آٹھ سو میل طویل بارڈر کی نشاندہی کردی گئی، باہمی رضامندی سے انجام پانے والے اس معاہدہ اور مابعد اقدامات کو فریقین نے ون ون سچویشن کے طور پر لیا تھا۔ افغانستان کو اطمینان تھا کہ انگریز اب مغرب کی جانب مزید پیشرفت نہیں کر پائیں گے اور انگریز خوش تھے کہ انہوں نے روس اور برطانوی ہند کے مابین افغانستان کی شکل میں ایک بفر اسٹیٹ قائم کردی ہے۔ جو داخلی طور پر تو خودمختار، مگر خارجہ معاملات میں حکومت ہند کے تابع ہوگی۔ بعد میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان کی جانب سے بہت سی توجیہات سامنے آئیں۔ کہا گیا کہ جس معاہدہ پر امیر عبدالرحمٰن نے دستخط کئے، وہ انگریزی میں تھا، اور موصوف انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے اسے سمجھ ہی نہ پائے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان اس لئے بھی چپکا ہورہا تاکہ وقتی طور پر برطانوی افواج کی مزید مہم جوئی سے بچا جاسکے۔ مگر افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ سب سے بڑا اعتراض یہ رہا ہے کہ اس کے ذریعے پختونوں کو تقسیم کردیا گیا ہے۔ پختونوں کی تقسیم والا اعتراض بادی النظر میں درست ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی عملداری میں آجانے والے پختون اس تقسیم سے ناخوش ہیں۔ برطانوی ہند میں شامل ہونے کے بعد ترقی و خوش حالی کی راہیں ان پر بتدریج کھلتی چلی گئیں۔ وہ نت نئے کاروبار اور ملازمتوں سے متعارف ہوئے اور پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ فوج میں خاص طور پر ان کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پھر ریل، سڑک، بجلی، ٹیلیفون، ٹیلی گراف جیسی سہولتوں نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ اور وہ اپنے بچھڑ جانے والے پختون بھائیوں سے بتدریج لاتعلق ہوتے چلے گئے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ سمیت ساری دنیا ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے مابین بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔
دریں حالات پاکستان کو مغربی بارڈر کو ریگولیٹ کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔2600 کلو میٹر طویل یہ سرحد انتہائی خطرناک اور دشوار گزار ہے۔ جہاں حکومتی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ سارے علاقہ میں ہر قسم کے اسلحہ کی بہتات اور اسمگلنگ عام ہے۔ قتل و غارت اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام اور پورا علاقہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایسے میں بارڈر کو محفوظ بنانے اور ریگولیٹ کرنے کی باتیں برسوں سے ہوتی آئی ہیں۔ 2003ء میں سرحدی چوکیوں کے مسئلہ پر دونوں ملکوں کی افواج کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ بعد کے برسوں میں افغان سرحد پر باڑ لگانے کی بات چلی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ انتہائی طویل اور دشوار گزار بارڈر کو انسانی وسائل سے سیل کرنا ممکن نہیں، چنانچہ مسئلہ سے تین طریقوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔ جہاں ممکن ہو خاردار تار لگادی جائے، جہاں باڑ ناقابل عمل ہو، وہاں کھائیاں کھود دی جائیں، اور جہاں دونوں طریقے ممکن نہ ہوں، وہاں بارودی سرنگیں بچھا دی جائیں۔ تاہم اس پر عمل صرف اس قدر ہوسکا کہ 35کلومیٹر طویل باڑ کھڑی ہوگئی۔ جس پر افغانستان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم ڈیورنڈ لائن کو تسلیم ہی نہیں کرتے، تو رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کیا جواز ہے؟ جواز یقیناً ہے۔ افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کا پاکستان کو پورا حق ہے۔ جسے عشروں تک ہم نے کھلا چھوڑے رکھا اور ہزاروں کی تعداد میں افغانی روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں داخل ہوتے رہے۔ مگر وطن عزیز کی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت کیخلاف جنگ پاکستان نے تن تنہا لڑی ہے اور اب جب کامیابی سے ہمکنار ہوا چاہتے ہیں، کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔ افغانستان میں بیٹھی کالعدم تحریک طالبان کی قیادت پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ آرمی پبلک اسکول اور باچہ خان یونیورسٹی میں ڈھائی جانے والی قیامت کے ڈانڈے سرحد پار ملتے ہیں۔
سرحد پر نگرانی کو موثر بنانے کا مدعا راتوں رات نہیں اٹھا۔ برسوں سے دونوں ملک رابطے میں رہے ہیں۔ طورخم پر گیٹ کی تنصیب اور سفری دستاویزات کی پابندی کے حوالے سے فریقین میں مختلف سطحوں پر اور مختلف چینلز کے ذریعے بیسیوں بار رابطہ ہوچکا ہے اور ڈیڈ لائن متعدد بار بڑھائی جاچکی۔ 31؍مئی 2016ء کو آخری ڈیڈ لائن ختم ہوئی تو اتمام حجت کی خاطر سیکورٹی حکام نے لائوڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ رعایتی مدت ختم ہوچکی اور آئندہ سفری دستاویزات کے بغیر سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ایسے میں افغانستان کی جانب سے مزاحمت کا کوئی جواز نہیں اور افغان سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے پاک فوج کے ایک میجر کی شہادت اور سولہ اہلکاروں کا زخمی ہونا سنگین معاملہ ہے۔ ایسے میں دونوں جانب سے جذبات کو قابو میں رکھنے اور معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی قسم کی مہم جوئی کی گنجائش نہیں۔ پوشیدہ ہاتھ موقع کی تلاش میں ہیں اور حیلے بہانے ٹکرائو کی صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ عسکری قیادت نے معاملہ کو نہایت چابکدستی سے سنبھالا ہے۔ سیاسی اور سفارتی چینلز کو بھی بھرپور انداز میں بروئے کار لانا ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ ماضی میں امریکی اعانت سے اسپن بولڈک بارڈر پر بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا گیا تھا، جو شاید آج بھی کارآمد ہے۔ اسے طورخم سمیت سب چوکیوں تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی استعداد کار بھی بڑھانا ہوگی۔ روز کے ہزار، دو ہزار ویزوں سے کام نہیں چلے گا۔ اس تعداد کو 5/7ہزار روزانہ تک لے جانا ہوگا تاکہ جینوئن ضرورت مندوں کو آمد و رفت میں دشواری نہ ہو۔
تازہ ترین