اٹارنی جنرل نے صدرِ مملکت عارف علوی کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کی دستخط شدہ کاپی سپریم کورٹ میں پیش کر دی اور اس حوالے سے حکم نامہ لکھوانے کے بعد عدالت نے انتخابات 90 دن میں کرانے سے متعلق کیس نمٹا دیا۔
سپریم کورٹ میں عام انتخابات کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل تھے۔
آج صبح سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ پہنچ کر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان ہونے والی ملاقات کے منٹس داخل کر رہے ہیں، صدرِ مملکت سے مشاورتی اجلاس کے منٹس عدالت کو دوں گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ کیس کی سماعت ریگولر کیسز کے بعد کریں گے، منٹس دینے میں کتنا وقت لگے گا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا تھا کہ آدھے گھنٹے تک منٹس فراہم کر دیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر کیس کی سماعت آخر میں ہی ہو گی۔
جس کے بعد عدالت نے کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا۔
اٹارنی جنرل نے صدرِ مملکت اور الیکشن کمیشن کے 8 فروری کو الیکشن کرانے پر اتفاق سے متعلق مشاورتی اجلاس کے منٹس سپریم کورٹ میں پیش کیے تھے۔
وقفے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان نے صدرِ مملکت کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کی دستخط شدہ کاپی بھی پیش کر دی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے سوال کیا کہ صدرِ مملکت کے دستخط کہاں ہیں، پہلے دستاویزات پر صدر سے دستخط کرا کے لائیں پھر کیس سنیں گے، ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی قسم کا ذرا سا بھی شبہ ہو۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق صدر نے انتخابات کی تاریخ دینی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرِ مملکت سے دستخط کرا لیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا صدر کے دستخط کرا لائیں تو پیغام بھیج دیجیے گا۔
عدالت میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو میٹنگ منٹس پڑھنے کی ہدایت کی جس پر اٹارنی جنرل نے میٹنگ منٹس پڑھ کر سنائے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ممبران کی منظوری سے میٹنگ منٹس منظور ہوئے ہیں، صدرِ مملکت سے چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن کے دیگر ممبران ملے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ صدرِ مملکت کے دستخط کہاں ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صدرِ مملکت کی جانب سے پریس ریلیز جاری کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر کے دستخط کروا کر لائیں تو پیغام بھیج دیجیے گا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
سپریم کورٹ میں سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہت دیر ہو گئی اٹارنی جنرل صاحب! کیا یہ اصل کاپی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک اصل کاپی اور 3 فوٹو کاپیز ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم اصل کاپی رکھیں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ صدر کی دستاویز پڑھ کر سنا دیں۔
عدالت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرِ مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دی ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابات کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عام انتخابات 8 فروری کو کرانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن بھی پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضا مندی ہے، تمام ممبران نے متفقہ طور پر تاریخ پر رضا مندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھوانا شروع کیا اور کہا کہ تمام فریقین بیٹھ جائیں، حکم نامہ لکھوانے میں وقت لگے گا، آپ لوگ تھک نہ جائیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ علی ظفر نے صدرِ مملکت کے 12 ستمبر کو چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیا، چیف جسٹس نے حکم نامے میں آرٹیکل 48 شق 5 اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 ون کو بھی درج کرایا۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز موجود ہیں؟
اس کے بعد تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ان سے سوال کیا کہ کیا صوبوں کو انتخابات 8 فروری کو کرانے پر کوئی اعتراض ہے؟
ایڈووکیٹ جنرلز نے متفقہ جواب دیا کہ انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرلز سے مکالمہ کیا کہ ہم آپ کو بھی انتخابات کے لیے پابند کر رہے ہیں۔
’الیکشن کمیشن اور صدر سمیت ہر ادارہ آئین کا پابند ہے‘
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت کے خط کا جواب نہیں دیا، الیکشن کمیشن اور صدر سمیت ہر ادارہ آئین پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے، آئین پر عمل نہ کرنے کے سخت نتائج ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان حل ہونا تھا جو غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، اگر صدرِ مملکت کو مشورہ درکار تھا تو وہ آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ آ سکتے تھے، متعدد درخواستیں دائر ہو چکی تھیں اس لیے عدالت نے کیس سنا۔
’انتخابات کا اعلان نہ ہونے سے پورا ملک تشویش میں تھا‘
سپریم کورٹ نے کہا کہ بہر حال عدالت مکمل طور پر آئینی حدود سے آگاہ ہے، انتخابات کا اعلان نہ ہونے سے پورا ملک تشویش میں تھا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن یا صدرِ مملکت جیسے آئینی اداروں کے اختیار میں مداخلت نہیں کی، ہر آئینی ادارے پر آئین کی پابندی لازم ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین سے انحراف کرنے کا کوئی آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان صرف سہولت کار کا کردار ادا کیا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدرِ مملکت اور الیکشن کمیشن اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہیں، اعلیٰ آئینی عہدہ ہونے کے ناتے صدرِ مملکت کی ذمے داری زیادہ بنتی ہے۔
’بدقسمتی سے پاکستان میں متعدد بار آئین کو پامال کیا گیا‘
حکمنامے کے مطابق آئین کو بنے 50 سال گزر چکے، اب کوئی ادارہ آئین سے لاعلم ہونے کا نہیں کہہ سکتا، 15 سال قبل آج ہی کے دن آئین کو پامال کیا گیا تھا، بدقسمتی سے پاکستان میں متعدد بار آئین کو پامال کیا گیا ہر آئینی خلاف ورزی کے اثرات سنگین اور دور رس ہوتے ہیں، آئینی خلاف ورزیوں کے اثرات آج بھی محسوس ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ہمیں نا صرف آئین پر عملدرآمد شروع کردینا چاہیے بلکہ اپنے آئینی انحراف کے ماضی سے سیکھنا بھی چاہیے، ہر آئینی خلاف ورزی کے سنگین اثرات نا صرف پاکستان کے عوام پر ہوئے بلکہ خطے پر بھی ہوئے۔
’عدالتیں بھی غیر ضروری معاملات میں الجھتی رہی ہیں‘
سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالتیں بھی غیر ضروری معاملات میں الجھتی رہی ہیں، ماضی قریب میں ایک وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا گیا، آئین واضح ہے کہ ممبران اسمبلی کی اکثریت تحریک عدم اعتماد منظور کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا، سپریم کورٹ نے سیاسی معاملے پر از خود نوٹس لیا، صدرِ مملکت نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کی جو غیرآئینی عمل تھا۔
’غیرآئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے‘
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد صدر وزیراعظم کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے، عوام کو منتخب نمائندوں سے دور نہیں رکھا جاسکتا، غیرآئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، صرف عوام کے مفاد میں آئینی ادارے اہم فیصلے کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ امید کرتے ہیں تمام آئینی ادارے مستقبل میں سمجھداری کا مظاہرہ کریں گے، حیران کُن طور پر صدر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا لیکن انہوں نے کی جبکہ صدر کے پاس تاریخ دینے کا جو اختیار تھا وہ استعمال نہیں کیا گیا، امید کرتے ہیں ہر ادارہ پختگی اور سمجھ کے ساتھ چلے گا۔
’انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضا مندی سے حل ہو چکا‘
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضا مندی سے حل ہوچکا ہے، 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے۔
عدالت میں چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن پروگرام دیا یا نہیں؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن پروگرام کا اعلان کیا جائے گا، 30 نومبر کو حلقہ بندیاں مکمل ہوں گی اور دسمبر کے پہلے ہفتے میں الیکشن پروگرام دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن پروگرام کی تاریخ دی جائے تاکہ لوگوں کو پتا تو چل سکے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے عدم اعتماد کیس میں یہ کہا تھا کہ سنگین غداری کا راستہ پارلیمنٹ بند کرے، صرف عوام کے مفاد میں آئینی ادارے اہم فیصلے کرسکتے ہیں، اگر کوئی عوامی عہدے پر بیٹھ کر بے بس ہے تو وہ عملی طور پر نہیں محض دفتر میں بیٹھ کر عوام کی نمائندگی کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالتِ عظمیٰ میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 11 فروری 2024ء کی تاریخ تجویز کی تھی۔
تاہم عدالت نے الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے جمعرات (کل) ہی کے روز صدرِ مملکت کے ساتھ مشاورت کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور صدرِ مملکت کی ملاقات ہوئی تھی۔
صدرِ مملکت عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات میں ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 فروری کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا تھا۔