کسی بھی مُلک میں تعلیم کے شعبے کی ترقّی و ترویج کے اقدامات کے تحت تدریس کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ دیگر ایسے عوامل و عناصر پر بھی پوری سنجیدگی سے توجّہ دینا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر طلبہ کے اذہان پر اثر انداز ہو کر اُن کی صلاحیتیں بیدار کرنے اور موجود صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں ٹھوس کردار ادا کرتے ہیں اور شعبہ تعلیم کے استحکام کی امید اُسی صورت ہی میں کی جا سکتی ہے کہ جب مُلک کا ہر بچّہ اسکول میں زیرِ تعلیم ہو۔
تاہم، پاکستان سمیت دیگر ترقّی پذیر ممالک میں پرائمری تعلیم کی صورتِ حال خاصی پیچیدہ اور فکر انگیز ہے۔ اس وقت ان ممالک میں مستقبل کے معمار کارخانوں، ہوٹلز اور دُکانوں سمیت چھوٹے بڑے صنعتی و تجارتی مراکز میں کام کرتے نظر آتے ہیں، جو تعلیمی سطح پر ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
واضح رہے کہ ترقّی کی راہ پر گام زن ہونے کے لیے مختلف شعبہ جات میں علمی و فنی صلاحیتوں کے حامل محققین اور ماہرین سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوّت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے پرائمری تعلیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ لہٰذا، پرائمری تعلیم کے شعبے میں موجود نقائص اور کم زوریوں کو دُور کرنا از حد ضروری ہے۔
دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے لازمی ہے کہ ابتدائی تعلیم کی عُمر کو پہنچنے والے ہر بچّے کو اسکول میں داخل کروایا جائے اور آبادی کی تعداد میں اضافے کی مناسبت سے ہر سال کم از کم 97فی صد بچّے پرائمری اسکولز میں انرولڈہوں۔ نیز، انرولمنٹ کی اس رفتار کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے، کیوں کہ جس طرح دو کلو دودھ کو پکا کر ایک پاؤ بالائی نکالی جاتی ہے، اسی طرح ابتدائی جماعتوں کے طلبہ کے وسیع البنیاد انرولمنٹ نیٹ ورک کا جاری سلسلہ ہی آیندہ برسوں کے دوران ادراک کے حامل ذہنوں کو مجتمع کر کے مختلف مہارتیں اور صلاحیتیں رکھنے والے سائنس دانوں، محققین اور ماہرین کی صورت میں ایک ’’کریم‘‘ پیدا کرے گا، لیکن یہ سب اسی صورت ہی میں ممکن ہے کہ جب پرائمری تعلیم کو عام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے ساتھ اس سطح کی تعلیم و تربیت کو مؤثر بنانے کی ضرورت کو بھی ہر قیمت پر پورا کیا جائے۔
پاکستان سمیت دیگر غریب ممالک میں تعلیمی ترقّی کی راہ میں حائل ایک اہم رکاوٹ خاندانوں کی معاشی بدحالی بھی ہے۔ ان ممالک میں اکثر والدین تشویش ناک حد تک کم فی کس آمدنی اور بے روزگاری کی وجہ سے ایک جانب اپنے بچّوں کو معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہیں، تو دوسری طرف کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث تعلیمی میدان میں اپنے بچّوں کی خاطر خواہ مدد بھی نہیں کر سکتے، جب کہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ غریب طلبہ اپنے اہلِ خانہ کی کفالت میں ہاتھ بٹانے کی غرض سے اسکول سے چھٹی کے بعد چھوٹی موٹی ملازمتیں بھی کرتے ہیں۔
نتیجتاً، اُن کا خاصا قیمتی وقت روٹی روزی کمانے کی نذر ہو جاتا ہے اور ایسے میں اُن سے بہتر امتحانی نتائج کی توقع رکھنا بے سود ہے۔ نیز، ایسے طلبہ میں تعمیری صلاحیتوں کی نشوونما بھی نہیں ہوپاتی اور نہ ہی اُن کے شعور میں پختگی آتی ہے،اسی سبب پرائمری تعلیم کے حوصلہ افزا نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
یہ بات اس طرح ثابت کی جا سکتی ہے کہ ایک بنجر اور بے آب و گیاہ زمین میں چاہے جتنا بھی معیاری بیج کیوں نہ بویا جائے، وہ ثمر بار نہیں ہو گا، کیوں کہ اُس زمین میں وہ زرخیزی ہی موجود نہیں کہ جو پیداوار کی بنیادی و لازمی شرط ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ طلبہ کے اذہان زرخیز ہوں گے، تو تبھی وہ مطلوبہ نتائج دے سکتے ہیں اور معیاری تدریس سے ایک ذہین طالب علم ہی بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں،اہلِ خانہ کا تعلیمی پس منظر بھی بچّے کی ابتدائی تعلیم میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی بہ دولت بچّے کا ذہن اسکول میں داخلے سے قبل ہی فعال ہو چُکا ہوتا ہے اور پھر جب وہ بچّہ پرائمری اسکول سے اپنی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کرتا ہے، تو اُسے پڑھائی لکھائی میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی اور یوں اچّھے تعلیمی پس منظر کے وجہ سے بچّے کی تعلیمی بنیاد مستحکم ہو جاتی ہے۔ درحقیقت، گھر کا تعلیمی ماحول ’’خاموش معلّم‘‘ ہوتا ہے، جو بچّے کو دُنیا میں آنے کے بعد ہمہ وقت کچھ نہ کچھ سکھاتا ہی رہتا ہے۔
یہ ایک ایسی تدریس و تربیت ہوتی ہے، جس کا کوئی مخصوص وقت، مُدّت یا دورانیہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ چوبیس گھنٹے ہی جاری رہتی ہے۔ تعلیم یافتہ ماں کی گود بچّے کا پہلا اسکول اور تربیت گاہ ہوتی ہے۔ یہ ایک غیر مرئی اسکول ہے، جہاں سے بچّے کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے اور پھر اُس کی ذہنی و نفسیاتی نشوونما مستقل بنیادوں پر جاری رہتی ہے۔ نیز، یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ گھر کا ماحول اور پس منظر جس نوعیت کا ہو گا،بچّے کی تعلیم و تربیت انہی خطوط پر ہو گی اور پھر اسی سے قوم کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہو گا۔
بِلاشُبہ خاندانوں کا تعلیمی پس منظر ہی بچّے کے مثبت و تعمیری رویّوں کی تشکیل اور نشوونما کا سر چشمہ ہوتا ہے۔ ایک بچّہ گھر میں اپنے والدین ، بڑے بہن بھائیوں کی تعلیمی سرگرمیاں ، مصروفیات دیکھتا ، ان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ اُنہیں کُتب، اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کرتے دیکھ کر شدّت سے اس کا اثر قبول کرتا ہے اور پھر منطقی طور پر اُس میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہونے لگتا ہے۔
یاد رہے کہ تعلیم یافتہ گھرانے میں جنم لینے والے بچّے کے اندر ایک تعلیم یافتہ انسان چُھپا ہوتا ہے، لیکن اُس کی پوشیدہ صلاحیتیں اُسی وقت سامنے آتی ہیں کہ جب ماں کو تعلیم کی اہمیت کا ادراک ہو اور اس ضمن میں پرائمری تعلیم بنیادی اہمیت رکھتی ہے، لہٰذا بڑی تعداد میں نئے پرائمری اسکولز کھول کر ابتدائی تعلیم عام کی جائے، تاکہ بچّوں کے ساتھ بچّیوں کی شرحِ خواندگی میں بھی اضافہ ممکن بنایا جا سکے۔
نیز، ایک پڑھی لکھی ماں بچّوں کی تعلیم ہی میں نہیں، اُن کی دینی و دنیاوی تربیت میں بھی اہم ترین کردار کرتی ہے۔ پھر خاندان کے تعلیمی ماحول کے اثرات قبول کرنے کے نتیجے میں بچّے کی تعمیری سوچ پروان چڑھتی ہے اور اُس میں سماجی ذمّے داریوں کی اہمیت کا احساس بیدارہوتا ہے۔ یوں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم یافتہ گھرانوں کے بچّوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ قدرتی طور پر انسان کی ذہنی صلاحیت، اُس کے مطالعے کے دائرۂ اثر پر فوقیت رکھتی ہے۔یہ ایک اصولی اور اٹل بات ہے کہ کوئی بھی فردمصنوعی طور پر خداداد ذہنی صلاحیت حاصل نہیں کر سکتا۔ جہاں مطالعے کی فعالیت ، دائرۂ اثر کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے ذہنی صلاحیت کا وجود ظاہر ہوتا ہے۔ قدرت کی طرف سے عطا کردہ اس دانش مندی کی بنیاد ہی پر نایاب ٹھوس حقائق اور نتائج تک رسائی ممکن ہے، جو لاکھ مطالعے و مشاہدے کے باوجود حاصل نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح درس گاہوں میں ضروری سہولتوں کی دست یابی تدریس سمیت دیگر تعلیمی امور کی انجام دہی کے لیے سازگار ، حوصلہ افزا ماحول پیدا کرتی ہے، جس سے معلّم اور متعلم دونوں کو ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی ذہنی استعداد کابہت خود اعتمادی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دونوں طرح کی سرگرمیوں میں دل جمعی اور مستقل مزاجی سے شریک ہونے کے ضمن میں یہ سہولتیں زبردست ترغیبی محرّک ثابت ہوئی ہیں۔ ان سہولتوں میں اسکائوٹنگ، کسی ضرورت کی صُورت میں رابطے کے لیے فون، ڈاکٹر کا انتظام، سالانہ مجلّے (جو طلبہ کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے آئینہ دار ہونے کے ساتھ ان کی ذہنی صلاحیتوں کے مظہر اور معاشرے میں مقابلے کا رجحان پیدا کرنے کی مستحکم بنیاد بنتے ہیں) اور اخبارات و تعلیمی جراید وغیرہ شامل ہیں۔
اخبارات کے مطالعے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ان کے مطالعے سے قاری کا ذہن کھلتا ہے اور اس کے اندر تدبّر، بصیرت اور سیاسی و سماجی شعور پیدا ہوتا ہے۔پھر مشاہدے کی قوّت میں اضافے کے ضمن میں بھی اخبارات و جراید کا کوئی ثانی نہیں۔ قصّہ مختصر، اسکول میں تدریسی ماحول جتنا بہتر اور تعمیری ہو گا، طلبہ اور اساتذہ میں اتنی ہی ذہنی ہم آہنگی ہو گی اور پھر اسی اعتبار سے امتحانی نتائج بھی برآمد ہوں گے۔