• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جگنو روٹھ گئے انہیں منا کر واپس لاؤ‘‘یہ بات 2010 ء کے سیلاب میں تباہ ہونے والے ایک سکول کے ٹیچر نے مجھے کہی تھی۔ اس سیلاب کے دوران میں اپنے کیمرہ مین کے ساتھ نوشہرہ کی گلیوں میں کشتی پر گھوم رہا تھا۔ وہ سکول ٹیچر اپنے مکان میں بیٹھاکسی مدد کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اُسے کشتی میں بٹھا کر ایک خشک جگہ پر لایا تو اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا یہ آپ ہر کسی کو پوچھتے ہیں کہ تمہارا گھر کیسے ڈوبا؟ سب کہتے ہیں دریا کا پانی اُس کے گھر میں گھس گیا۔ دریا کے پانی میں اضافے کی وجہ طوفانی بارش قرار پاتی ہے لیکن معاملہ کچھ اور ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے تواُس سکول ٹیچر نے کہا جگنو روٹھ گئے ہیں انہیں منا کر واپس لاو، میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی رپورٹنگ میں اُلجھا ہوا تھا جگنو کے روٹھ جانے کی اطلاع میرے لئے بریکنگ نیوز نہیں تھی لہٰذا میں اس اطلاع کو سیلاب متاثرہ شخص کی دل لگی سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔ شام کو میں اسلام آباد واپسی کیلئے اپنی گاڑی تلاش کررہا تھا تو مجھے وہی شخص متاثرین سیلاب کے ایک امدادی کیمپ میں پانی کی بوتلیں بانٹا نظر آیا۔ میں نے اُس کو بلاکر پوچھا کہ آپ کون سے جگنو کی بات کر رہے تھے؟ اُس اسکول ٹیچر نے جواب میں کہا کہ جناب میں اُسی جگنو کی بات کررہا ہوں جسے علامہ اقبال نے اپنی ایک مشہور نظم کا موضوع بنایا تھا یہ سُن کر میں چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گیا، علامہ اقبال کی نظم’’جگنو‘‘کے اشعار یاد کرنے لگا، اور سوچنے لگا کہ اس جگنو کا سیلاب سے کیا تعلق ہے، اُس بھلے آدمی نے میری مشکل آسان کرتے ہوئے کہا کہ شائد آپ مجھے کوئی دیوانہ سمجھ رہے ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ آج نہیں تو کل آپ کو میری بات سمجھ آ جائے گی ۔ جب تک ہم سب مل کر جگنو کو نہیں منائیں گے یہ سیلاب بار بار آئیں گے اور مزید تباہی پھیلائیں گے۔ میرے پاس وقت نہیں تھا مجھے اسلام آباد واپسی کی جلدی تھی لیکن سیلاب کو واپسی کی کوئی جلدی نہ تھی۔ سیلاب آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا۔ پھر یہ سیلاب اسلام آباد اور راولپنڈی سے براستہ لاہور جنوبی پنجاب اور وہاں سے سندھ میں داخل ہوا۔ میں بھی اس سیلاب کے ساتھ سفر کرتا رہا۔ ایک شام حیدرآباد میں سیلاب کی کوریج کے دوران ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ علماء اس سیلاب کو اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس سیلاب کے پیچھے انسانی لالچ کار فرما ہے ۔ ہم نے اپنے لالچ کے باعث جگنو اور کوئل کے ساتھ جو ظلم کیا یہ سیلاب اسی ظلم کی سزا ہے ۔ میں نے اُس بزرگ سے پوچھا کہ ذرا مجھے سمجھائیے کہ ہم نے جگنو اور کوئل کے ساتھ کیا ظلم کیا ؟ بزرگ نے کہا کہ ہم انسانوں نے جنگل ختم کر دیئے، ہم نے جنگل کاٹ کر اُن پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنا ڈالیں، کھیت کھلیان بیچ کر پلازے کھڑے کر دیئے اور باغات ختم کرکے جگنو کو جلاوطن کردیا۔ جب درخت نہیں ہونگے تو کوئلیں اور طوطے کہاں جائیں گے ؟وہ بھی چلے گئے اور رہی سہی کسر دریاؤں اور ندی نالوں کے راستے میں تعمیرات نے پوری کر دی ۔ ہم نے پانی کے بہاؤ کو روکا اور یہ بھول گئے کہ برسات کے موسم میں بارش کا پانی موت بن کر ہم سے انتقام لے گا۔ اُس بزرگ کی بات سُن کر مجھے یہ سمجھ آئی کہ نوشہرہ کے سکول ٹیچر نے یہ کیوں کہا تھا کہ جب تک ہم سب جگنو کو نہیں منائیں گے یہ سیلاب بار بار آئیں گے اور مزید تباہی پھیلائیں گے ۔ 2010 ء کے بعد 2022 ء میں زیادہ خطر ناک سیلاب آیا اور ایک دفعہ پھر اس سیلاب کے ساتھ میں نے سوات سے کراچی تک سفرکیا،2022 ء میں متاثرین سیلاب کی ایک بڑی اکثریت کو میں نے گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتے سُنا اور انہیں یہ سمجھ بھی آگئی تھی کہ درخت کاٹنا اور دریا کے راستے میں عمارت بنانا غلط ہے، 2022 ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد پاکستان میں درخت کاٹنے ، سٹون کرشنگ اور دریاؤں کے راستے میں تعمیرات کو روکنے کیلئے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت تھی لیکن ریاست کی زیادہ توجہ سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں اور انہیں سزائیں دلوانے پر تھی ۔ ہم نے فارم 47 کی ٹیکنالوجی ایجاد کر کے الیکشن میں من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنے کا طریقہ تو سیکھ لیا لیکن بار بار کے سیلابوں کی تباہ کاری سے بچنے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ بنا سکے ۔ 2025 ء کے مون سون میں جو تباہی نظر آئی وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ چند دن پہلے جب میں بونیر کے علاقے پیر بابا بازار کے نواحی گاؤں بشنوئی کے تباہ شدہ ملبے پر کھڑا تھا تو لوگ بتا رہے تھے کہ بہت سے انسان ملبے کے اندر دفن ہو چکے ہیں اُن کو نکالنا اس لئے مشکل ہے کہ قریبی پہاڑوں کے بڑے بڑے پتھروں نے نیچے آ کر درجنوں مکانات کو ڈھانپ لیا ہے ۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ پہاڑ پر آسمانی بجلی گری اور بجلی کے باعث پتھر لڑھک کر نیچے آئے لیکن کئی عینی شاہدین نے بتایا کہ شدید بارش کے بعد پہاڑوں سے جو سیلابی ریلا آیا اس میں بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ کٹے ہوئے درخت بھی تھے ۔ یہ سیلابی ریلا اس گاؤں کو تباہ کرتا ہوا پیر بابا بازار کی طرف بڑھ گیا اور کٹے ہوئے درختوں کی لکڑی نےبھی بہت تباہی مچائی۔یہ کٹے ہوئے درخت ہر تباہ شدہ مکان اور دکان میں پھنسے نظر آ رہے تھے ۔ پیر بابا بازار میں ایک تاجر نے کہا کہ ہم نے درخت بھی کاٹے اور ماربل فیکٹریوں کیلئے پہاڑوں کا پتھر بھی کاٹا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ یہ تاجر شہد کا کاروبار کرتا تھا۔ اُس نے کہا کہ جب پہاڑوں سے درخت، پھول اور پودے غائب ہو جائیں اور ہر وقت پتھروں کو توڑا جائے تو شہد کی مکھی کسی کام کی نہیں رہتی ۔ وہ اپنی شہد کی مکھیوں کو افغانستان لیجانے کے بارے میں سوچ رہا تھا کیونکہ پاکستان میں پھول ختم ہوتے جا رہے ہیں اور جب پھول نہ ہونگے تو شہد کیسے بنے گا ؟ بونیر کے بعد مجھے سوات اور صوابی میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کا موقع ملا ۔ ہر جگہ تباہی تھی اور پہلے سے زیادہ تھی ۔ صوابی کے علاقے دالوڑی اور بونیر کے علاقے بشنوئی کی کہانی میں کوئی فرق نہ تھا۔ ان دونوں بستیوں پر بارش کے بعد پہاڑوں سے پتھر برسے ۔ برسات کا موسم لینڈ سلائنڈنگ کا موسم بن چکاہے ۔ ایک دن کی بارش سے کراچی شہر موت کا کنواں بن جائے تو وہاں رہنے والے انسانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ بارش میں اتنے اضافے کی وجہ کیا ہے ؟ سادہ سی بات ہے کہ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے گلیشئر پگھل رہے ہیں اور گرم موسم میں نمی بڑھنے سے بارش میں اضافہ ہوتا ہے، درجہ حرارت کم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم درخت کاٹنے پر پابندی لگائیں ۔ وہ جگنو جو روٹھ گئے انہیں منا کر واپس لائیں ۔ جب ہمارے ارد گرد جگنو روشنی پھیلائیں گے ، کوئلیں کوکیں گی اور پرندے چہچہائیں گے تو پھر بارش زحمت نہیں رحمت بن جائے گی ۔ ہو سکتا ہے آپ مجھے دیوانہ سمجھیں لیکن یاد رکھیں اگر آپ جگنو کو واپس نہ لائے تو سیلاب کی تباہ کاریوں میں مزید اضافہ ہو گا۔

تازہ ترین