• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 80 لاکھ افراد امراضِ چشم میں مبتلا

پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی کے شعبہ امراضِ چشم کے صدر، میو اسپتال کی آئی یونٹ سیکنڈ کے سربراہ اور المصطفیٰ آئی اسپتال کے چیف سرجن ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی،جس میں اُنہوں نے مُلک میں امراضِ چشم کی صُورتِ حال پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا۔

س: ڈاکٹر صاحب پاکستان میں آنکھوں کے امراض کی صُورتِ حال کیا ہے؟

ج: پاکستان میں ذیابطیس، گُردوں اور قلب سے متعلقہ امراض کا ذکر تو بہت ہوتا ہے، لیکن امراضِ چشم سے عموماً چشم پوشی برتی جاتی ہے، حالاں کہ’’ آنکھ ہے، تو جہان ہے‘‘۔زندگی کی تمام رنگینیاں آنکھوں ہی کے دَم سے ہیں۔

جب کہ مُلک میں بعض وجوہ کی بنا پر امراضِ چشم میں نہایت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر جدید طرزِ ندگی، ناقص خوراک اور شعور و آگہی کے فقدان نے ان امراض کی رفتار تیز تر کردی ہے۔ پھر فضائی آلودگی اور مُلکی آبادی میں معمّر افراد کی تعداد بڑھنے کے سبب بھی امراضِ چشم میں اضافہ ہوا ہے۔

س: پاکستان میں امراضِ چشم کی کون سی اقسام زیادہ عام ہیں؟

ج: اگر ہم دنیا کا عمومی جائزہ لیں، تو ہر جگہ ایسے امراضِ چشم بڑھ رہے ہیں، جن کا زیادہ تر تعلق عُمر کے بڑھنے سے ہے۔ انھیں ’’MACULAR DEGENERATION‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔دراصل عُمر میں اضافے کے ساتھ سینٹرل ویژن (مرکزی نظر) میں کم زوری یا خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب بڑھتی عُمر کی وجہ سے MACULA کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ آنکھ کے پردے کا وہ حصّہ ہے، جو نظر کنٹرول کرتا ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں (بشمول پاکستان) معمّر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، وہاں اِس نوعیت کے امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ 

جہاں تک امراضِ چشم کی درجہ بندی کا تعلق ہے، تو اِس وقت مُلک میں جو امراض دیکھے جا رہے ہیں، اُن میں سے اکثر ایسے ہیں، جو عُمر کے ساتھ آنکھ کے پردے وغیرہ کی کم زوری سے پیدا ہوتے ہیں، جب کہ الرجی، AMBLYOPIA، سفید موتیا، کالا موتیا، آنکھ کے پردوں کا نقص، بھینگا پن، کلر بلائنڈنیس، اندھراتا اور آنکھوں کا سرطان بھی اہم امراض میں شامل ہیں۔ کبھی کبھار آشوبِ چشم بھی لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔نیز، آنکھ پر لگنے والی چوٹ بھی کئی امراض کا سبب بن سکتی ہے۔

ویسے مَیں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ پریکٹس میں شوگر کی وجہ سے آنکھوں کے امراض میں جس قدر تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتے دیکھا ہے، کسی اور مرض کے سبب نہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں ذیابطیس کے4 کروڑ مریض ہیں، جب کہ ایک کروڑ ایسے ہیں، جنہیں ذیابطیس ہے، لیکن تاحال تشخیص نہیں ہوئی۔ شوگر، یوں تو جسم کے تمام ہی اعضا کو متاثر کرتی ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر آنکھوں پر پڑتا ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایسے مریض جب ہمارے پاس آتے ہیں، تو اُس وقت تک اُن کا مرض بہت بڑھ چُکا ہوتا ہے (جس کا اُنہیں خود علم نہیں ہوتا)لہٰذا بعض اوقات آپریشن سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ 

پاکستان میں ذیابطیس کے40 فی صد مریضوں میں آنکھ کا پردہ متاثر ہوتا ہے۔اِس لیے مَیں ہمیشہ اِس بات پر زور دیتا ہوں کہ 40برس کی عُمر کے بعد ہر شخص کو ذیابطیس اور آنکھوں کا معائنہ لازماً کروانا چاہیے۔کیوں کہ اگر خدانخواستہ شوگر آنکھوں کو متاثر کر رہی ہو، تو علاج یا صرف غذائی احتیاطی تدابیر سے یہ منفی اثرات ختم کیے جاسکتے ہیں۔

اِسی طرح بلڈ پریشر پر کنٹرول بھی ضروری ہے کہ اس کا بھی شوگر سے بالواسطہ تعلق ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غذائی عادات میں تبدیلی، احتیاطی تدابیر اور بروقت علاج سے امراضِ چشم سے بہت حد تک بچا جا سکتا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں امراضِ چشم کے مریضوں کی تعداد 2ارب 20کروڑ ہے، جب کہ ان میں سے تقریباً نصف کا بروقت علاج کر کے اُنہیں نارمل زندگی کی طرف لوٹایا جاسکتا تھا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س: آپ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں امراضِ چشم کے مریضوں کی تعداد کتنی ہوگی؟

ج: عالمی ادارۂ صحت اور مقامی رپورٹس کے مطابق اِس وقت 80 لاکھ سے زائد پاکستانی آنکھوں کے کسی نہ کسی مرض کا شکار ہیں، جب کہ20 لاکھ افراد اندھے پن کا شکار ہو چُکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کالے موتیا (Glaucoma) کے مرض میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی شرح اب5 فی صد سے بڑھ چُکی ہے اور یہ اندھے پَن کی ایک بڑی وجہ ہے۔ 

اِس مرض میں آنکھوں کی OPTIC NERVE میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے، لہٰذا اس سے خارج ہونے والا قدرتی پانی بند ہونے سے آنکھوں پر پریشر بڑھ کر بینائی کو متاثر کرنے لگتا ہے۔ کالے موتیے سے ضائع ہونے والی بینائی کی واپسی یا بحالی ممکن نہیں، البتہ سفید موتیا سے ہونے والا دھندلا پن ختم کیا جاسکتا ہے۔جب کہ کالے موتیے میں آپٹیکل لینز میں پیدا ہونے والی رکاوٹ یا خرابی کی کوئی بنیادی وجہ اب تک سامنے نہیں آئی۔

س: سفید موتیا کی شرح کتنی ہے؟

ج: 60برس سے زائد عُمر کے افراد میں سفید موتیا کی شرح زیادہ ہے۔تاہم، اب سفید موتیا کے آپریشن کے جدید ترین طریقے آچُکے ہیں اور مریض چند گھنٹوں بعد اسپتال سے گھر چلا جاتا ہے، نظر بھی مکمل بحال ہو جاتی ہے۔ واضح رہے، جوں جوں عُمر بڑھتی ہے، سفید موتیا کی شرح بڑھ کر 60،70فی صد تک ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپریشن میں بہت تاخیر ہو جائے، تو یہ کالے موتیے میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس سے آنکھوں کے پردے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

س: کالا موتیا کے اسباب اور علاج سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: پاکستان بلکہ پوری دنیا میں یہ مرض اندھے پَن کی تیسری اور چوتھی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں یہ شرح تقریباً 7فی صد ہے۔ اِس مرض میں آنکھوں میں گردش کرنے والے نظری پانی کے بہائو میں رکاوٹ کے باعث پریشر بڑھ جاتا ہے، جس سے آپٹک نرو متاثر ہو کر بینائی سے محرومی کا باعث بنتی ہے اور ضائع ہونے والی بینائی کی بحالی بھی ناممکن ہوتی ہے۔ہاں، اگر بروقت تشخیص ہو جائے، تو آپریشن کے ذریعے پانی کے بہائو کا متبادل راستہ بنا کر پریشر کنٹرول کیا جاسکتا ہے یا صرف ادویہ سے بھی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے، جس سے نظر مزید ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔

جہاں تک اِس کی وجوہ کا تعلق ہے، تو یہ معاملہ ابھی تک زیادہ واضح نہیں ہوسکا۔ یہ ایک طرح کا آنکھ کا تیکنیکی نقص ہوتا ہے، جسے سرجری یا ادویہ سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ گلوکوما موروثی بیماری بھی ہوسکتی ہے، اِس لیے جس خاندان میں یہ مرض ہو، اُس کےتمام افراد کو40 سال کی عُمر کے بعد اپنا چیک اَپ ضرور کروانا چاہیے۔اسٹرائیڈز کا بے جا استعمال بھی بعض اوقات اِس مرض کا سبب بنتا ہے۔

پاکستان میں آنکھ کے پردے کے امراض، فضائی آلودگی کی وجہ سے آنکھوں کی خارش، آشوبِ چشم، سوزش، آنکھ کا سُرخ ہونا، اندھراتا، بھینگا پن اور آنکھوں کا سرطان بھی پایا جاتا ہے، لیکن ان کی شرح بلند نہیں ہے۔آشوبِ چشم کے علاج کی بات کریں، تو بہترین علاج پاکیزگی اور صفائی ہے۔ سیاہ چشمہ لگائیں، بار بار ہاتھ دھوئیں، اپنے استعمال کی اشیاء عارضی طور پر علیٰحدہ کر لیں اور ڈاکٹر کے مشورے سے آئی ڈراپس استعمال کریں۔

س: یہ تاثر کہاں تک درست ہے کہ گاؤں، دیہات میں آنکھوں کے امراض زیادہ پائے جاتے ہیں؟

ج: جی بالکل، گاؤں، دیہات میں امراضِ چشم کی ایک بڑی وجہ امراض سے متعلق عدم آگہی، تساہل اور روایتی مفروضے ہیں۔ دیہات میں اتائیوں نے بھی اپنی دکانیں چمکائی ہوئی ہیں اور یہ نیم حکیم لوگوں کے اندھے پَن کا باعث بن رہے ہیں۔ایسے لوگوں تک سہولتیں بہم پہنچانا ایک بہت بڑی نیکی ہے، اسی لیے مُلک میں بے شمار فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جیسے لاہور میں ہم المصطفےٰ ٹرسٹ اور فیضان ٹرسٹ کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ 

المصطفےٰ ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام گزشہ 3سال میں 10ہزار مریضوں کے مفت آپریشن کیے جا چُکے ہیں، جب کہ فیضان انٹرنیشنل کے تحت پنجاب میں 36سے زائد مراکز امراضِ چشم کے مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ میرے طب کے استاد اور روحانی رہبر، ڈاکٹر حافظ محمّد فرّخ مجید نے، جو آئی اسپیشلسٹ تھے، 4لاکھ افراد کے مفت آپریشنز کیے تھے اور اُن سے فیض پانے والے شاگرد پورے مُلک میں پھیلے ہوئے ہیں۔

مَیں بھی انہی کی خواہش اور ہدایت کو عملی جامہ پہنا رہا ہوں اور اِس ضمن میں مخیّر افراد سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ ماہرینِ امراضِ چشم کے تعاون سے دیہات اور دور دراز کے شہروں میں فِری آئی کیمپس لگائیں تاکہ طبّی سہولتوں کے فقدان سے اندھے پَن کی جو شرح بڑھ رہی ہے، اُس میں کمی آسکے۔ ہمارے یہاں مخیّر افراد کی کمی نہیں، صرف ان کی مخلصانہ کوششوں کو امراضِ چشم کے ماہرین کے تعاون سے چینلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ماہرینِ امراضِ چشم اپنی پریکٹس سے صرف چند گھنٹے ان غریبوں کے لیے وقف کر دیں، تو ان کی دنیا اندھیر ہونے سے بچ سکتی ہے۔

س: بڑھتے امراضِ چشم میں موبائل فونز، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور ٹیبلٹس کے استعمال کا کتنا عمل دخل ہے؟

ج: امراضِ چشم کے اسباب کے ضمن میں اِس سے قبل مَیں نے جو وجوہ گنوائی ہیں، وہ اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن موبائل فونز، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر وغیرہ نے امراضِ چشم میں جس تیزی سے اضافہ کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے پاس آنے والے اکثر نوجوان اور متوسّط عُمر کے افراد کمر درد، آنکھ میں سُرخی، سوزش، خارش، چڑچڑے پن، نیند کی کمی اور گردن میں درد کی شکایت کرتے ہیں، مگر جب اُن کا تفصیلی چیک اَپ ہوتا ہے، تو سب نارمل ہوتا ہے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ موبائل فونز، کمپیوٹرز وغیرہ کے زیادہ استعمال کی علامات ہیں۔

چوں کہ ان آلات میں ایل ای ڈی ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے اور اُس سے نکلنے والی بلیو لائٹ آنکھ کے پردے کے لیے خطرناک ہے۔پھر اس سے نیند بھی متاثر ہوتی ہے۔عموماً والدین بچّوں کو گیمز کے لیے موبائل فونز یا لیپ ٹاپ دے دیتے ہیں، جنھیں وہ گھنٹوں استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ اب تو کم سِن بچّوں کو موبائل گیمز دِکھا کر ہی کھانا کھلایا جاتا ہے۔ 

یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے، جو بچّوں میں نظر کی کم زوری، آنکھ کے پردے کے نقصان، الرجی اور دیگر بے شمار امراضِ چشم کا باعث بن سکتا ہے۔ چوں کہ اثرات آہستہ آہستہ مرتّب ہوتے ہیں، اِس لیے ہم نظرانداز کرتے رہتے ہیں، لیکن آخرکار یہ کسی بڑے مرض کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

س: لیکن اس سے فرار بھی تو ممکن نہیں۔ آج کل تو آن لائن کلاسز پرائمری ہی سے شروع ہو جاتی ہیں۔پھر دفاتر میں بھی گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا پڑتا ہے؟

ج: جی، یہ بات بالکل صحیح ہے۔ دراصل یہ گلے میں پڑا ڈھول ہے، جسے بجانا پڑ رہا ہے۔ تاہم اِس سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو، موبائل اور کمپیوٹر کو کم سے کم وقت دیا جائے۔ اگر مسلسل کام کرنا پڑ رہا ہے، تو 20-20 -20کا فارمولا اپنایا جائے، جس کے تحت ہر 20منٹ بعد 20سیکنڈ کے لیے 20فِٹ دُور کسی چیز کو دیکھا جائے۔ اس سے وہ سائیکل (Cycle) ٹوٹ جائے گا، جو آنکھوں کے پردے کو متاثر کرتا ہے۔

نیز، اگر آپ کرسی پر بیٹھے ہیں، تو پُشت کو کرسی کےساتھ سیدھا رکھیں، یعنی کمر جُھکا کر نہ بیٹھیں، پائوں زمین پر فلیٹ ہوں۔ کمپیوٹر اسکرین اور آپ کے درمیان24 انچ کا فاصلہ ہونا چاہیے اور کمپیوٹر آپ کی سیدھی نظر سے ذرا نیچے ہونا چاہیے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر کی بلیو لائٹ کی شدّت کم کرنے کے لیے خود کمپیوٹر میں متعدّد Modes ہوتے ہیں اور فلٹرز بھی دست یاب ہیں، جنھیں استعمال کیا جانا چاہیے۔

کمپیوٹر سے نکلنے والی Glare Light سے بچیں۔ یہ تیز روشنی اُس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کھڑکی سے آنے والی روشنی آپ کی اسکرین سے منعکس ہو کر آپ کی نظروں سے ٹکراتی ہے۔ اسکرین پر پڑنے والی ٹیبل لیمپ بلب یا ٹیوب روشنی بہت تیز یا ایسی نہ ہو، جس سے گلیئر پیدا ہو۔ اگر ہر آدھے پونے گھنٹے بعد چہل قدمی کریں تو یا دُور کی چیزیں دیکھیں، تو اس سے بھی آنکھوں کے مسلز کو آرام ملے گا۔ آنکھیں بہت تھک جائیں، تو اُنھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ کر اندھیرے میں کچھ دیر کے لیے دیکھیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل کام کے دوران آنکھوں کو وقفہ ملنا چاہیے۔

س: امراضِ چشم سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟

ج: آپ جس چیز کی جتنی حفاظت کریں گے، وہ آپ کا اُتنا ہی ساتھ دے گی، آنکھ قدرت کا ایک اَن مول عطیہ ہے، جس پر زندگی کی تمام رنگینیوں کا انحصار ہے، لہٰذا اس کی حفاظت کریں۔ میرے نزدیک احتیاطی تدابیر، علاج سے بہتر ہیں۔ اسلام ایک بے مثال ضابطۂ حیات ہے، جس میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے اور اگر ہم پانچ وقت وضو اور نماز کی ادائی کا اہتمام کریں، تو نہ صرف امراضِ چشم بلکہ دیگر بے شمار امراض سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

مَیں شوگر چیک کرنے پر اِس لیے بار بار زور دیتا ہوں کہ اس کے آنکھوں پر مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں، جب کہ بروقت تشخیص سے اُن سے بچا جاسکتا ہے۔ ایک عالمی سروے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ نصف سے زاید امراضِ چشم سے بروقت تشخیص اور احتیاطی تدابیر سے بچا جاسکتا ہے۔ یہی معاملہ سفید اور کالا موتیا کا ہے۔بچّوں کو موبائل فونز اور لیپ ٹاپ دینا ناگزیر ہو، تو پھر ان پر وقت کی قدغن ضرور لگائیں۔متوازن اور صحت بخش خوراک لیں، تاکہ آنکھ کو ضروری وٹامنز اور زنک وغیرہ مل سکے۔

س: کیا پاکستان میں امراضِ چشم کے ماہرین کی کمی ہے؟

ج: پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے ایک ماہرِ امراضِ چشم ہے، جو یقیناً ناکافی تعداد ہے۔جب کہ بڑے شہروں کی نسبت دیہات اور چھوٹے شہروں میں تو ان کی کمی بُری طرح محسوس ہوتی ہے۔حالاں کہ اِس لیے بنیادی صحت مراکز اور رورل ہیلتھ سینٹرز میں اگر ماہرین نہیں، تو کم ازکم متعلقہ ہیلتھ کیئر کا عملہ بنیادی معلومات کی فراہمی اور آگہی کے لیے ضرور موجود ہونا چاہیے۔ 

شہروں میں ماہرین کی کمی کوئی اِتنا بڑا مسئلہ نہیں، اِس لیے ہمیں دیہات کی طرف توجّہ دینی چاہیے، جہاں تعلیم کی کمی، آگہی کے فقدان اور روایتی مفروضات کے سبب امراضِ چشم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔مَیں پھر خیراتی اور رفاہی اداروں پر زور دوں گا کہ وہ المصطفےٰ اور فیضان ٹرسٹ کی طرح آگے آئیں، حکومت کا بوجھ بانٹیں اور ماہرینِ امراضِ چشم کے تعاون سے فری آئی کیمپس کا انعقاد کریں۔ 

سندھ، بلوچستان، کے پی کے میں امراضِ چشم کے لا تعداد مریض، ماہرین کے لیے چشمِ براہ ہیں اور ان میں اکثریت ایسے غریب افراد کی ہے، جو علاج معالجے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔یاد رکھیے، کسی کی دنیا کو اندھیروں سے بچانا ایک بہت بڑی نیکی ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید