بہار کا موسم تھا مگر پت جھڑ کا گمان ہوتا تھا۔یہی رمضان کے دن تھے اور ایسے ہی چاند کی راتیں۔ چند سال قبل مگر وقت یہ نہیں تھا، پورے ملک پر خوف کی چادر تنی ہوئی تھی، کس وقت کہاں بم دھماکہ ہو جائے، کس مسجد میں فائرنگ ہو جائے، کس دربار میں خودکش بمبار گھس جائے، کس عمارت پر حملہ ہو جائے، ہر دم یہی دھڑکا لگا رہتا تھا۔ خیبر پختونخوا سے باہر لاہور وہ شہر تھا جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا، لاہور ہائی کورٹ سے لے کر داتا دربار تک اور ایف آئی اے بلڈنگ سے لے کر مون مارکیٹ تک، اس شہر کے باسیوں نے بدترین دہشت گردی کا سامنا کیا۔ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک عید کی خریداری کے لئے ہم گھر سے نکلے تو ایک عجیب سا خوف دلوں میں تھا، عید کی نماز بھی اسی کیفیت میں ادا کی، واپس آکر ٹی وی لگایا تو پتہ چلا کہ چارسدہ میں عید کی نماز ادا کرتے ہوئے مسلمانوں پر کسی نے خودکش حملہ کر دیا، پچاس لوگ شہید ہو گئے۔ کہاں کی عید، کیسی عید۔ پورا ملک خون میں ڈوب رہا تھا۔ اگلے کئی سال بھی ایسی ہی دہشت میں عید کی نماز پڑھی، امام صاحب نے خطبے میں فلسطین کی آزادی سے لے کر اُن شیخ صاحب کی والدہ کی مغفرت کی دعا بھی کروائی جو مسجد کو چندہ دیتے تھے مگر دہشت گردوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولے۔ میں نے عید ملتے ہوئے کہا کہ حضرت، کیا حرج تھا اگر ایک دو جملے اس بابت بھی ارشاد کر دیتے، فرمایا، اوہ میں بھول ہی گیا! انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں وہ ’’کیسٹ‘‘ نہیں سنوانا چاہتا جس میں آپ کو وہ تمام تاویلیں سننا پڑیں گی جو ہمارے شعلہ بیان مقرر اور تجزیہ نگار اُن دنوں ’’اپنے لوگوں‘‘ کے حق میں دیا کرتے تھے۔ کیسی کیسی دل موہ لینے والی دلیل ان کی زنبیل سے نکلتی تھی ’’ان سے مذاکرات کرو، دنیا نے ہمیشہ مذاکرات سے ہی امن قائم کیا ہے!‘‘ کیا کسی کو یاد ہے کہ موسم سرما میں شروع ہونے والے اُن مذاکرات میں طالبان کا ترجمان کون تھا اور وہ سرد موسم کتنے بے گناہوں کا خون بہا لے گیا تھا، ذرا اپنی یادداشت کھنگالئے شاید کچھ یاد آ جائے۔ آج ایک مرتبہ پھر وہی لوگ وہی پرانی تاویلیں لے کر میدان میں اترے ہیں، اب کی بار بھی اُن کا موقف وہی ہے جو پہلے تھا، حالانکہ اُن کے تمام دلائل شکست کھا چکے ہیں اور اُن کی تمام پیشگوئیاں تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو چکی ہیں، لیکن اب بھی وہ انہی بنیادوں پر اپنا پولیو زدہ مقدمہ دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اردو میں ایسی کوشش کو ہمت کی بات کہا جاتا ہے البتہ بقول مشتاق یوسفی، پشتو میں اس کے لئے بہت برا لفظ ہے۔
چلئے اپنے ان کرم فرماؤں کا مقدمہ دوبارہ سنتے ہیں اور فرض کر لیتے ہیں کہ مغرب زدہ دانشوروں میں سے کچھ این جی اوز کا ایجنڈا رکھتے ہیں اور کچھ مادر پدر آزادی کے علمبرداں ہیں جبکہ باقی ماندہ بچونگڑے وہ دیدہ بینا نہیں رکھتے جو عالمی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ضروری ہے۔ سو یہ مفروضہ قائم کرنے کے بعد ہم اپنے قومی معاملات پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے زانوئے تلمذ تہ کر کے اُن محترم دانشوروں کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ماضی میں شدت پسندوں سے مذاکرات کے حامی اور ان کے خلاف آپریشن کے مخالف تھے۔ پانچ منٹ کے لئے اپنے ذہن کو آزاد چھوڑ دیں اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یہ محترم تجزیہ نگار ملکی معاملات پر کیا رہنمائی فرمائیں گے، شاید کچھ ایسا منظر آپ کے دماغ میں ابھرے :’’پورے ملک میں عورتوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی جائے تو ملک سے دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ اگر عورتوں کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی جائے تو ہماری معاشی ترقی کی شرح پانچ فیصد ہو سکتی ہے۔ اگر عورتوں کے ٹی وی اشتہارات میں کام کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو ملک میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں دس فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ اگر عورتوں کو بازاروں میں جانے سے روک دیا جائے تو پاک افغان بارڈر پر تناؤ ختم ہو جائے گا۔ اور اگر عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے یا انہیں تیل چھڑک کر آگ لگانے کی مخالفت میں کوئی قانون سازی کی گئی تو پھر اس ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا!‘‘ یہ ہے وہ ’’وژن‘‘ جس کی بنیاد پر ایک ایسی مشن اسٹیٹمنٹ تشکیل دی جا سکتی ہے جو بحر ظلمات میں خچر، معافی چاہتا ہوں، گھوڑے دوڑانے کا ہمارا خواب پورا کر دے گی۔
مجھے ان عظیم دانشوروں کے وژن پر کوئی اعتراض نہیں، وہ خوشی سے اپنا موقف قائم رکھیں، یہ اُن کا مسئلہ ہے، وہ شوق سے اپنا مقدمہ لڑیں، میرا سوال یہ ہے کہ بطور قوم ہم سوچتے کیسے ہیں، ہمارے لکھاریوں کی ترجیحات کیا ہیں اور مختلف موضوعات پر وہ اپنا موقف کن دلائل پر بیان کرتے ہیں؟ ایک عورت کو غیرت کے نام پر زندہ جلا دیا جائے تو اِن کے قلم کو سانپ سونگھ جاتا ہے، البتہ اگر کوئی عورت اس موضوع پر فلم بنائے اور دنیا اسے ایوارڈ سے نوازے تو یہ لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بات ہو تو یہ مخالفت کرتے ہیں، نظام تعلیم پر بات کریں گے تو فرمائیں گے کہ انگریزی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی مغربی تعلیم نے ہمیں برباد کر دیا، بجا ارشاد، گویا مدرسوں سے تو جابر بن حیان پیدا ہو رہے ہیں! آج سے پندرہ برس پہلے کے افغانستان کا طرز حکومت ان کے نزدیک مثالی تھا، اس سے اندازہ لگا لیں کہ وہ آج کا پاکستان کیسا دیکھنا چاہتے ہیں !میں پھر کہوں گا کہ مجھے ان کی رائے کا احترام ہے، لیکن الجھن یہ ہے کہ جب ان کا وژن ہی اِس قسم کا ہو، ان کی پیشگوئیاں اور تجزیئے ہماری آنکھوں کے سامنے شکست کھائے ہوں، پھر کوئی ذی شعور آدمی کس طرح جانتے بوجھتے ہوئے ان کی پیروی کرے!
کسی دانا کا قول ہے کہ ایک دور اندیش آدمی آنے والے زمانوں کی اُس وقت خبر دیتا ہے جب باقی لوگ بے خبری کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ اپنا حال تو یہ ہے کہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا، اپنے ہاتھوں سے ہم نے اِس ملک میں ہزاروں بے گناہوں کے لاشے اٹھائے، اپنے ہوش میں ہم نے ان تمام تجزیوں کو مٹی کا ڈھیر بنتے دیکھا جو پاکستانیوں کے قاتلوں کی حمایت میں کئے جاتے تھے، مگر اس کے باوجود کچھ لوگ اب بھی اسی بے رحمی کے ساتھ وہی راگ الاپ رہے ہیں جس کی دھن صرف بے گناہ پاکستانیوں کے جنازے پر ہی بجائی جا سکتی ہے۔