السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
قوم کی اصلاح و رہنمائی کا فریضہ
سنڈے میگزین سے ایک ایسا دیرینہ رشتہ ہے، جواب زندگی بَھر ٹُوٹنے والا نہیں۔ بلکہ اس کے توسّط سے دوستی اور محبّت کے جذبات دن بہ دن پروان ہی چڑھ رہے ہیں۔ خطوط لکھنے کی دَم توڑتی روایت کو بحال رکھنے میں اِس کا کردار مثالی ہے، تو قوم کی اصلاح و رہنمائی کے ضمن میں بھی اِس کی خدمات قابلِ فراموش نہیں۔ اور مجھے بہت خوشی ہے کہ یہ جریدہ ہر طبقۂ فکر کے مابین ایک پُل کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ (شری مان مرلی چند/ گوپی چند گھوکھلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، مھرپاڑا، شکارپور)
پتا نہیں، کیسے مسلمان ہیں؟
’’ قصص القرآن‘‘ میں قصّہ سامری جادوگر پڑھ کے معلومات میں بہت اضافہ ہوا، ہم توقرآن کے بیان کردہ کئی قصّوں سے بھی ناواقف ہیں، پتا نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں۔ ’’پاکستان برکس میں کیسے شامل ہو؟‘‘ منور مرزا کا بہترین مضمون تھا۔ ’’سرطان سے جنگ‘‘ کے حوالے سے نیوروانکولوجسٹ کا انٹرویو سیر حاصل تھا۔ گورنر خیبر پختون خوا الیکشن سے متعلق فکر مند اور آرزومند دکھائی دئیے۔ ’’سفرِوسط ایشیا‘‘ میں الماتا کے دفاتر کے اوقات، اور خاص طور پر خواتین ملازمین کے چُھٹی سے پہلے بنائو سنگھارکا پڑھ کرحیرت ہوئی۔ ویسے بڑے مزے کاسفرمانہ ہے۔
حفیظ میرٹھی سے متعلق مضمون عُمدہ تھا۔ ہمیں توصرف حفیظ جالندھری ہی کا پتا ہے، جن کا شعر ہے ؎ عجیب لوگ ہیں کیا خُوب مُنصفی کی ہے… ہمارے قتل کو کہتے ہیں،خُودکُشی کی ہے۔اورآخرمیں بات لکھاریوں، پڑھاکو لوگوں کے صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ اشوک کمار کولھی تو ’’ہفتے کی چِٹھی‘‘ سے بھی زیادہ جگہ لے گئے اورآپ نے بھی جواب میں خاصی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ رونق افروز واقعی اس صفحے کی رونق ہیں، مگر دائرہ دین پناہ سے اُن کی عدم واقفیت کا آپ نے جیسے پوسٹ مارٹم کیا، وہ بھی بس آپ ہی کا انداز ہے۔
ہمیں تو یہ پتا ہے کہ مغلیہ دَور کے کسی بادشاہ نے یہاں بزرگ سیّد عبدالوہاب شاہ بخاری کا مزار بنوایا، جسے بعد میں دائرہ دین پناہ کا نام دیا گیا۔ ننّھی پَری، ماہ نور کے لیے آپ کی شان دار حوصلہ افزائی نے دل خُوش کردیا۔ آخر میں ایک التماس، 20اگست کو میرا پیارا بھائی برین ہیمرج کا شکار ہوکر محض 40سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے گیا۔ پس ماندگان میں ایک بیوہ چار بچّے ہیں، تو تمام قارئین اُس کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ ہماراایک توبھائی چلاگیا، اوپرسے اسپتالوں کے اخراجات کے بعد اب مختلف سرکاری اور نادرا دفاتر کے عملے کی بے اعتنائی کے ساتھ مزید ذلتیں اُٹھا رہے، ٹھوکریں کھارہےہیں۔ پتا نہیں، کن جانوروں کے ریوڑ میں پھنس گئے ہیں ہم۔ ہماری آسانی کے لیے دُعا کیجیے۔ ( شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، مظفّر گڑھ)
ج: شمائلہ! خط کے آخر میں تم نے جو کچھ لکھا، اُس سے بڑا المیہ کوئی اور ہوسکتا ہے۔ خط کے آغاز میں تمہارا ہی سوال تھا کہ ’’پتا نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں؟‘‘ تو بس، ہم ایسے ہی مسلمان ہیں۔ اللہ رب العزت تم لوگوں کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔ ہر دُکھ، درد، تکلیف کا بہترین نعم البدل عطاہو۔ جی تو یہی چاہ رہا ہے کہ جیسے اشوک کولھی کے خط کے جواب میں دل کی بھڑاس نکالی تھی، آج پھر جی کا غبار ہلکا کیا جائے، مگر وہ کیا ہے کہ ؎ کوئی اُمید بر نہیں آتی… کوئی صُورت نظر نہیں آتی… آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی… اب کسی بات پر نہیں آتی۔
سابق وزیر اعلیٰ پر اتنے بُرے دن؟
’’ تعمیرات‘‘ کے صفحے پر ہر بار لیاقت جتوئی کا نام کیوں لکھا ہوتا ہے، کیا سابق وزیرِاعلیٰ کے اتنے بُرے دن آگئے ہیں کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کےلیےاخبار میں لکھنے پرمجبور ہیں۔ براہِ مہربانی نام ذرا صحیح سے لکھا کریں۔ ٹھیک ہے کہ منہگائی آسمان پر ہے، لیکن صورتِ حال اب ایسی بھی نہیں کہ سابق وزیرِاعلیٰ یا سابق وفاقی وزیر اب ایک اخبار میں کُل وقتی ملازم کے طور پر کام کریں۔ براہِ کرم اِس نام کو درست کریں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج : بس کچھ بھی …کوئی بھی اونگی بونگی، بے پَرکی بات… بس کرنی ہے۔ اگرایک سابق وزیرِاعلیٰ کا نام لیاقت جتوئی تھا، تو اب اِس نام کا پوری دنیا میں کوئی دوسرا شخص نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک شخص کا نام ہی لیاقت جتوئی ہے، تو اُسے کیسے درست کریں اور اے کاش! کبھی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء بھی اخبارات میں کُل وقتی ملازمتیں کریں۔ اور وہ برا نہیں، یقیناًسب سے اچھا وقت ہوگا، اِس ملک کے لیے۔
شان دار وجان دار تجزیہ
تازہ سنڈے میگزین میں محمود میاں نجمی، منور مرزا، سعدیہ عبید خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کے مضامین پڑھنے کو ملے۔ منور مرزا کا تجزیہ تو ہمیشہ کی طرح بہت ہی شان دارتھا۔ پڑھ کے دلی خُوشی ہوئی۔ ’’یادداشتیں‘‘میں سعود تابش نے اپنے والد صاحب پرمضمون لکھ کر کمال کردیا، بہت ہی پسند آیا۔ تابش دہلوی کو کراچی کے مشاعروں میں ہم نے کافی سُنا ہے کمال کےشاعر تھے۔ اور وہ ہمارے دوست شمیم کی بیگم کے نانا بھی ہیں۔ تصاویر بھی زبردست تھیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پروفیسر سیّد منصور علی خان کا خط بھی پڑھنے کو ملا، پڑھ کر بہت ہی اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)
ج: آپ تو اِک ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھ کے ہی اِس قدرخوش ہولیتے ہیں، تو پتا نہیں، دیگر خوشی کے مواقع پرکیا کرتے ہوں گے۔
ہرفرد فرض کو قرض سمجھے، تو…
’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ شیطان لعین‘‘ پڑھا۔ شان دارقلمی کاوش تھی۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ’’شیطان، انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘، پڑھ کر رُوح کانپ گئی۔ ہمارے معاشرے کو واقعتاً ’’تہذیبِ حجاب‘‘ کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا ’’سفرِحجاب‘‘ پر مضمون بےمثال تھا۔
دنیا چاند کی تسخیر کے مشن پر ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگی ہے اور ہم آٹا، چینی، دال، چاول کے بھائو تائو ہی میں پھنسےہوئے ہیں، حالاں کہ اگرہرفرداپنے فرض کو قرض سمجھ کر ادا کرے، تو ہم بھی کہیں نہ کہیں تو کھڑے ہو ہی سکتے ہیں۔ ’’اسپیس ریس‘‘ کےعنوان سے محبّتوں کےامین قلم کے حامل، منور مرزا صد فی صد درست فرمارہےتھےکہ اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی دنیا کا مقابلہ ممکن ہے۔ ونگ کمانڈر(ر) محبوب حیدر سحاب جنگِ ستمبر کے پاک فضائیہ کے چند یادگار معرکےزیرِبحث لائے۔
سچ پوچھیں تو یہ معرکے ہی یاد دلاتے ہیں کہ ہمارا ماضی کتنا شان دار تھا۔ اسکواڈرن لیڈر سرفرازرفیقی، اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم، گروپ کیپٹن غلام حیدر، پائلٹ آفیسر یونس اوردیگرجان بازوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ اور جو شہید ہوئے، وہ جنّت میں اپنا محل بنا گئے۔ فرحی نعیم کا رائٹ اَپ، نرجس ملک ہی کے خیالات کا پرتو معلوم ہوا۔
ثمینہ اقبال، عالیہ زاہد بھٹی اور افشاں یونس کے مضامین بھی میگزین کی شان دوبالا کرگئے۔ ’’باکو اور قبالا‘‘ کی رُوداد بقلم ماہ جبیں، جیسے دل میں اُتر گئی۔ ربِ دوجہاں نے دنیا ہی کو کیسے کیسے رنگوں سےسجایا ہے،توجانےاُس کی جنت کیسی ہوگی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیرفاطمہ کا شہ پارہ ’’رکاوٹ‘‘، کنول بہزاد کی کاوش ’’حجاب اور احتساب‘‘، ڈاکٹر عزیزہ انجم کی نظم ’’حجاب‘‘ اور سید سخاوت علی جوہر کی نظم ’’اے مجاہد، تجھے سلام‘‘ نے بھی دل کے تاروں کو چھیڑا، جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ استادِ محترم پروفیسر سیّد منصور علی خان کے نام رہا۔ اللہ انہیں صحت و تن درستی دے۔ (ضیاالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: آمین، ثم آمین۔
دُور دیسوں کی باتیں…
اوائل عُمری ہی سے مطالعے کا شوق تھا، جو دھیرے دھیرے قلم و قرطاس سے وابستگی میں تبدیل ہوگیا اور ہمارے اِس شوق کو جِلا بخشنے میں ’’سنڈے میگزین‘‘ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب اِس کا مطالعہ گویا لوازمِ زندگی میں شامل ہے۔ حالیہ جریدے کا مطالعہ خُوب رہا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں پیغمبرِخدا، عظیم بادشاہ، حضرت سلیمانؑ کا قصّہ عُمدہ انداز میں پیش کیا گیا۔ اقصیٰ منوّر نے قرآن و حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ بہترین تحریر رقم کی۔ رائو محمّد شاہد اقبال، پاک فوج کےناقابل فراموش مِشنز پرخصوصی مضمون لائے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ایک نئے عالمی تجارتی معاہدے پر قلم آزمائی کی۔ ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ بہت دل چسپ سفرنامہ ہے۔
ویسے سفرنامہ خواہ کسی بھی مُلک کا ہو، کسی دوست مُلک کا یا دشمن دیس کا، کسی ترقی یافتہ مُلک کا یا پس ماندہ، پڑھ کر بہت لُطف آتا ہے کہ دُوردیسوں کی باتیں ویسے ہی میرے مَن کو خوب بھاتی ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘حافظ محمّد ثانی کی تحریر سےمرصّع تھا۔ ’’ریل کیسے ہوئی ڈی ریل‘‘ پاکستان ریلوے کےعروج و زوال کی الم ناک داستان بڑی عُمدگی سے بیان کی گئی۔ مُلک کے دیگر اِداروں کی طرح یہ ادارہ بھی افسر شاہی کی کرپشن کی بدولت آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’مداوا‘‘ کے ذریعے اہم معاشرتی موضوع اجاگر کیا گیا۔ واقعی رشتے طے کرتے ہوئے اگر مال و دولت کے بجائے شرافت کوترجیح دی جائے، تو کتنا اچھا ہو اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ حسبِ روایت رنگارنگ خطوط سے سجاتھا، پڑھ کے مزہ آگیا۔ (عائشہ ناصر، کراچی)
ج: دُوردیسوں کی باتیں، اِس لیے زیادہ بھاتی ہیں کہ دُور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہی ہوتے ہیں۔
دل لبھانے والی کاوش
سنڈے میگزین کے تمام ہی مضامین اپنی ہیئت کے اعتبار سے قابل تعریف ٹھہرتے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ حضرت سلیمانؑ‘‘ بہترین تھا۔ منور مرزا کی تحریر ’’مشرق و مغرب میں تبدیلی کی ہوائیں‘‘ لاجواب تجزیہ لگا۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کا سفرنامے ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ اور فرحی نعیم کی کاوش ’’قرعہ‘‘ کا بھی جواب نہ تھا، خصوصاً سفرنامہ تو خُوب دل لبھانے اور معلومات میں اضافہ کرنے والی کاوش ہے۔ ’’بدھ مَت‘‘ کے حوالے سے ایک مختصر سا معلوماتی مضمون پیشِ خدمت ہے۔ گر قبول افتد۔ دلی خواہش ہے کہ یہ تحریر سنڈے میگزین کی زینت بنے۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: تحریر قابلِ اشاعت ہوئی تو باری آنے پر شائع کر دی جائے گی۔
کب ہوگا، کب ہوگا، کب ہوگا؟
میرے بھیجے گئےمضامین کب شائع ہوں گے؟ میگزین کے صفحات میں کب اضافہ ہوگا؟ میگزین کب مزید اُبھر کر سامنے آئے گا؟ منہگائی کا خاتمہ کب ہوگا… اور فلسطین کب آزاد ہوگا؟؟ (شہناز سلطانہ، رمشا طاہر، کراچی)
ج: ہم سے ایسے محیرالعقول سوالات کرنے کے لیے آپ اکیلی کافی نہیں تھیں، جو اب ایک عدد رمشہ طاہر کو بھی ساتھ لے آئی ہیں۔ باقی سوالات کا تو ایک ہی جواب ہے کہ ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔ البتہ آپ کے پہلے سوال کا جواب ہمیں معلوم ہے اور وہ یہ کہ ’’کبھی نہیں‘‘ کہ جس تحریر کو کوئی سَر، پیر ہی نہ ہو، اُسے پڑھنا، سمجھنا ہی کارےدارُد ہے، کُجا کہ شائع کرنا۔
ربِ کریم کی ذات سے اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم بخیریت ہوگی۔ سب سے پہلے تو شکریہ ادا کروں آپ کا کہ آپ نے ہمیشہ نہ صرف میرے خطوط شایع کیے بلکہ اس قابل بھی سمجھے کہ انہیں’’ مسندِ خاص‘‘ پرجگہ دی جائے۔ شکریہ تو مجھے بزم کے اُن ساتھیوں کا بھی ادا کرنا ہے، جو وقتاً فوقتاً اپنے خطوط میں میرے اندازِتحریر کو پسندیدگی کی سند عطا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہماری یہ بزم ہمیشہ ایسے ہی سجی رہے اور جانِ بزم، اسی طرح سب کو کھٹے میٹھے جوابات سے نوازتی رہیں۔
بس ایک بات دل میں کھٹکتی ہے اور وہ ہے خط شایع ہونے تک کا لمبا…وقفہ اور کٹھن انتظار مگر شکایت اس لیے نہیں کرسکتی، کیوں کہ جانتی ہوں کہ آپ کے پاس خطوط کا ایک ڈھیر ہوتا ہے اور باری آنے میں وقت لگ ہی جاتا ہے۔ تازہ شمارہ ہاتھ میں ہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ کی، جو پچھلے مضامین کی طرح ایک بہترین اور معلومات سے بھرپور سلسلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے، جوعوام الناس کی معلومات میں بیش بہا اضافہ بہت آسان اور دل چسپ پیرائے میں کررہے ہیں۔
اِس بار’’ہابیل وقابیل‘‘ کا قصّہ تفصیلاً پڑھنے کو ملا۔ گھروں میں کام کرنے والے کم سِن مزدوروں کی بپتا بہت موثر اور بھرپور طریقے سے بیان کی گئی۔ کتنے سفّاک ہوگئے ہیں ہم کہ معصوم بچّوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ایک پَل کو اپنے بچّوں کا بھی خیال نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم اور ہمارے اندر’’انسانیت‘‘ پیدا فرمائے۔ ’’چنبل‘‘ یعنی ’’سورائسز‘‘ سے متعلق ڈاکٹر یاسمین شیخ کا مضمون بےحد معلوماتی تھا، ویسے وہ ہمیشہ ہی بہت اچھا لکھتی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فائزہ مشتاق کی تحریر ’’طلاق، خلع عورت کے لیے بدنما داغ کیوں‘‘؟ ایک چشم کُشا تحریر تھی۔ اور آج کل کے حالات کے تناظر میں گھر ٹوٹنے کی وجوہ اوراس کے سدِباب کا بھرپور احاطہ کرتی نظر آئی۔
دوسری جانب حفصہ نسیم یہ سمجھا رہی تھیں کہ حلال ہی میں برکت ہے اور محنت کر کے رزقِ حلال کمانے میں کوئی عار نہیں۔ جب سے ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ آپ لکھ رہی ہیں، نہ جانے کیوں ماڈلز بھی کچھ سنوری، نکھری نکھری لگنے لگی ہیں۔ مطلب، ’’بڑی انوکھی تیرے پیرہن کی خوشبو‘‘ نہیں، بلکہ ’’کسی کی تحریر نےتیری تصویر کو خُوب صُورت بنا دیا‘‘ والا معاملہ ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اظہرعزمی کی دادی جان، حمیدہ خاتون کی کہانی بہت دل چسپ اور سبق آموز تھی۔
سلمیٰ اعوان کا افسانہ ’’وی آئی پی کارڈ‘‘ بھی زبردست تھا۔ غازی غلام رسول طاہر کی نعت ’’اے بادِ صبا! اب سوئے حرم لے چل‘‘ عقیدتوں، محبّتوں میں ڈوبی محسوس ہوئی اور اب اپنے پسندیدہ صفحے’’آپ کاصفحہ‘‘ کی بات، شبینہ گل انصاری کے خطوط بہت دل چسپ ہوتے ہیں۔ شاہدہ ناصر بھی اچھا لکھتی ہیں اور پروفیسر منصور بھی کینیڈا سےواپس آگئے ہیں۔ اللہ ان کو صحت وسلامتی عطا فرمائے۔ ’’اس ہفتےکی چٹھی‘‘ کااعزازِ بلند، اس بار اقبال ٹائون کے محمّد جاوید کو ملا، اوربالکل ٹھیک ہی ملا۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور)
ج: شُکر ہے، ہماری تحریر کے صدقے ہی سہی، بےچاری ماڈلز کی تو جاں بخشی ہوئی۔ وگرنہ تو اُنہیں کیسے کیسے القابات سے نہیں نوازا جا رہا تھا۔ ویسے ہمیں خُود بھی محسوس ہوا ہے کہ اب نسبتاً بہتر ماڈلز آرہی ہیں۔
* 17 ستمبر کے’’سنڈے میگزین‘‘ میں پروفیسر سیّد منصور علی خان کے تبصرے کے بعد آپ کو یہ ای میل لکھنے کا خیال آیا۔ اُنہوں نے اپنی ٹیم سے کام لینے کے ضمن میں آپ کی تعریف کی، جس پر آپ نے جواب دیا کہ ’’کس سے کیا کام لینا ہے، آپ کو بخوبی آتا ہے۔‘‘ ایک اچھا ٹیم لیڈر یقیناً ٹیم کے لیے نعمت ہوتا ہے۔ مَیں نے گزشتہ سال ستمبر میں آپ کو ایک ای میل کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا مَیں سنڈے میگزین کےلیے(بامعاوضہ) خدمات انجام دے سکتا ہوں۔
جوابی ای میل نہ آئی، تو مَیں نے بھی بار بار پوچھنا مناسب نہ جانا۔ آج پروفیسر منصور کا تبصرہ پڑھ کر دوبارہ آپ کو ای میل کرنے کی تحریک ہوئی۔ سوچا، گزشتہ ای میل میں اپنی تحریروں کے نمونے نہیں بھجوا سکا تھا، تو اب مختلف تحریروں کے چیدہ چیدہ اقتباسات بھی بھجوا دوں گا، پھر یوں ہی ایک خیال آیا کہ شاید میری گزشتہ ای میل کا جواب آپ نے براہِ راست دینے کے بجائے شمارے میں دے دیا ہو۔ سرچ کیا، تو معلوم ہوا کہ ایسا ہی ہوا۔ گزشتہ سال نومبر میں میری ای میل اور اُس پر آپ کا جواب شایع ہوچُکا ہے۔
ویسے آپ نے مجھے ’’جواب‘‘ ہی دے دیا کہ اخباری صنعت تو خُود بحران کاشکار ہے، جو یہاں باقاعدہ ملازمت کرتے ہیں، اُن کی تن خواہیں ادا نہیں کی جا رہیں، تو میری شوقیہ تحریروں کا معاوضہ کون دےگا۔ اور یہ بالکل مناسب بات بھی ہے۔ بہرحال، ایک خواب سا تھا کہ لکھنے پڑھنے کے شوق ہی کو ذریعۂ معاش بنایا جائے۔ اور اگر کسی ایسی شخصیت کی رہ نمائی مل جاتی، جو اپنی ٹیم میں شامل افراد کا اصل جوہر پہچان کر اُنہیں درست سمت دکھاتی ہو، تو سونے پہ سہاگا تھا۔ لیکن شوق اورروزگار میں سے کوئی ایک چیز چُننی پڑے، تو یقیناً روزگار ہی بازی لے جائے گا۔ (عمیر محمود)
ج: آپ کی تحریر بہت عُمدہ ہے (اِسی لیے پوری ای میل شایع کردی ہے) ہمارا مشورہ ہے، پہلے شوقیہ مضمون نگاری تو شروع کریں، مُمکن ہے، پھر بامعاوضہ کام بھی ملنے لگے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk