مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
بچپن کے دَور میں موسمِ گرما کی تعطیلات کا اپنا الگ ہی مزہ ہوتا تھا۔ سچ کہوں، تو ہر بچّے کو ان کا بے صبری سے انتظار رہتا۔ کیوں کہ سال بھر کی پڑھائی کے بعد یہ چھٹیاں کسی نعمت سے کم نہیں لگتی تھیں۔ اور اب بھی جب کبھی موسمِ گرما کی تعطیلات کی بات آتی ہے، تو سب سے پہلے ذہن میں نانی کے گھر کی یادیں ہی اُبھرتی ہیں۔ میرے لیے بھی گرمیوں کی چھٹیاں اسی لیے خاص ہوتیں کہ ان چھٹیوں میں مجھے اپنی نانو کے گھر جانے کا موقع ملتا۔
یہ واقعہ میرے لڑکپن کا ہے، مَیں 14برس کی تھی اور ہرسال کی طرح اُس سال بھی چھٹیاں گزارنے نانو کے گھر گئی تھی، دو ماہ خوب عیش و آرام سے گزارنے کے بعد اپنا بوریا بستر باندھا اور واپسی کی راہ پکڑی۔ نانو کے گھر سے ہمارے گھر تک کا سفر ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔ ہم عموماً لوکل گاڑیوں سے سفر کرتے تھے، تو دوگاڑیاں بدلنی پڑتی تھیں۔ اُس سال بھائی نے موٹر سائیکل خرید لی تھی، تو اُس کے ساتھ ہی گھر واپس جانے کا پروگرام بن گیا۔ خیر، بھائی نے مجھے بٹھا کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور ابھی ہم گھر سے تھوڑی ہی دُورپہنچے تھے کہ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی- موسم کے تیور بڑے خطرناک لگ رہے تھے، اس سے قبل کہ بارش تیز ہوتی، بھائی نے مجھے لوکل بس میں بٹھا دیا اور کہا کہ ’’مَیں بس کے پیچھے ہی رہوں گا اورتمہیں آخری اسٹاپ پہ پِک کرلوں گا۔‘‘ مَیں بھی آرام سے بس میں بیٹھ گئی۔
سفر ابھی آدھا ہی طے ہوا تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے میرا بھائی راستے ہی میں کہیں پھنس گیا۔ مَیں نے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا تھا، راستوں سے بالکل نا آ شنا تھی۔ بس نے مختلف مسافروں کو راستے میں اُتارا، مجھے آخری اسٹاپ پر اُترنا تھا، وہاں سے دوسری گاڑی میں بیٹھنا تھا، جو گھر کے قریب اُتارتی۔ لیکن بدقسمتی سے بس نے ہمیں اپنے آخری اسٹاپ سے خاصی دُور جاکر اُتارا۔ میرے ساتھ پانچ، چھے مسافربھی اُترگئے اور پوری بس خالی ہوگئی۔
بس سے اُترتے ہی میرا دماغ بَھک سے اُڑگیا، وہاں نہ کوئی بس اسٹاپ تھا، نہ ہی میرا بھائی۔ خوف سے میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اتنے سارے اَن جان چہروں کے بیچ، جہاں اکثریت مَردوں ہی کی تھی، مَیں تنہا کھڑی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ آنکھیں بند کروں اور وہاں سے غائب ہوجاؤں- خیر، کافی دیر انتظار کے باوجود جب بھائی نہ آیا، تو ہمّت کرکے قریب ہی ایک سبزی فروش سے بس اسٹاپ کا پوچھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھا، لہٰذا جان چُھڑانے کے لیے صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ ’’اسٹاپ پیچھے رہ گیا ہے۔‘‘ مَیں مایوسی کے عالم میں پھر سے اپنی جگہ آکر کھڑی ہوگئی، مجھے اپنی بے بسی پہ بہت رونا آرہا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ تھوڑی دیر بعد میرے سامنے سے ایک ادھیڑ عُمر خاتون گزریں۔
وہ شاید وہیں کی رہائشی تھیں اور سبزی لینے آئی تھیں۔ میرے سامنے سے گزر کر انہوں نے سبزی لی اور واپس جاتے ہوئے اچٹتی سی نگاہ میری طرف ڈالی۔ شاید انہوں نے میری کیفیت بھانپ لی تھی۔ میرے پاس آکر بڑی محبّت سے پوچھا، ’’بیٹی!کسی کا انتظار کررہی ہوکیا؟‘‘ اُن کے پُرشفقت انداز پر مجھے رونا آگیا۔ مَیں نے مختصراً اپنی رُوداد کہہ سُنائی۔ میری بات سُن کر اُنھوں نے کہا ’’بیٹی، گھبرائو نہیں، مَیں بھی بچّیوں کی ماں ہوں۔
اللہ تعالیٰ سب کی بیٹیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔‘‘ پھر بڑے پیار سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بس اسٹاپ کی طرف لے کر چل دیں۔ کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد بس اسٹاپ آگیا، تو میرے قصبے تک جانے والی ویگن میں بٹھا کر مجھے خوب ہمّت و حوصلے سے کام لینے کی تلقین کے ساتھ ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت ہوگئیں۔ میری خوش قسمتی کہ ویگن میں مجھے اپنے قصبے کی ایک شناسا خاتون بھی مل گئیں، جنہوں نے مجھے خیرو عافیت سے گھر تک پہنچادیا۔
اُن محسنہ کو آج بھی مَیں اپنی دعائوں میں یاد رکھتی ہوں کہ جن کی چھوٹی سی ایک نیکی نے انہیں میری یادداشت میں امَرکردیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تن درستی کے ساتھ اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔ (علینہ دل نواز)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘
صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔