• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآنِ مجید میں ذکرِ ایّوبؑ: پروردگار ِ عالم نے حضرت ایّوب علیہ السلام کو پختگیٔ دین اور صبر و استقامت کے ضمن میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا۔ جو اُنؑ کی شخصیت کا حصّہ بن کر رہتی دنیا تک کے لیے ضرب المثل بن گیا۔ ان کے صبروشُکر کی قرآنِ کریم نے مدحت کی اوراُن کے کمالِ صبر پر مُہرِ تصدیق ثبت کردی۔ فرمایا، ترجمہ:’’بے شک ہم نے اُنؑ کو بڑا صابر پایا۔ اچھے بندے تھے اور اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔‘‘ (سورئہ ص ٓ، آیت نمبر44)۔ حضرت ایّوب علیہ السلام کا تذکرہ قرآنِ کریم کی چار سورئہ مبارکہ میں آیا ہے۔ سورۃ النساء اور سورۃ الانعام میں دیگر انبیائے کرامؑ کے ساتھ آپؑ کا ذکر ہے، جب کہ سورۃ الانبیاء اور سورئہ ص ٓ میں آپؑ پر آنے والی سخت ترین آزمائشوں، مصائب و آلام ، صبروشکر اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہترین انعام و اکرام کا ذکر ہے۔

آپ ؑ کی شخصیت کے تعلق سے قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں زیادہ تفصیل موجود نہیں، چناں چہ مفسّرین و مؤرخین کا زیادہ تر انحصار اُن اسرائیلی روایات پر ہے، جو توریت کے’’ صحیفۂ سفرِ ایّوبؑ‘‘ میں درج ہیں۔ جن میں حضرت ایّوب علیہ السلام کو اللہ سے مجسّمِ شکایت اور مصیبت میں بار بار فریاد و التجاء کرنے والے انسان کے روپ میں پیش کیا گیا ہے، جب کہ قرآنِ کریم نے انہیں اللہ کا بڑا صابر و شاکر بندہ قرار دیا۔ دراصل، اللہ کی کتاب، توریت میں یہودیوں کی جانب سے اس قدر مبالغہ آمیزی کردی گئی ہے کہ یہ اب اللہ کے کلام کے بجائے، مَن گھڑت قصّے کہانیوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت قصّہ ایّوب علیہ السلام کو حضرت یوسفؑ و زلیخا کے قصّے کی طرح ایک دل چسپ داستان کے طور پر پیش کیا گیا۔

شیطان کا رنج و ایذا پہنچانا:حضرت ایّوب علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے شدید بیماری کے سبب آزمائش میں مبتلا فرمایا، تو ایک موقعے پر آپؑ نے اپنے ربّ کو پُکارا کہ’’مجھے شیطان نے رنج و دُکھ پہنچایا ہے۔‘‘ (سورئہ صٓ آیت 41) ۔بعض مفسّرین نے شیطان کے رنج ودُکھ پہنچانے کی بات کو توریت کے صحیفۂ سفرایّوبؑ میں بیان کردہ ایک خود ساختہ واقعے سے منسلک کر دیا ہے۔

مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے اس واقعے کو’’ قصص الانبیاء‘‘ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ حضرت ایّوب علیہ السلام جس بیماری میں مبتلا ہوئے، وہ شیطان کے تسلّط کی وجہ سے آئی۔ ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے حضرت ایّوب علیہ السلام کی بہت تعریف کی، جس پر شیطان کو بہت حسد ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ ’’مجھے اُن کے جسم اور مال و اولاد پر ایسا تسلّط عطا کردیا جائے، جس سے میں اُن کے ساتھ جو چاہوں، سو کروں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت ایّوب علیہ السلام کی آزمائش مقصود تھی،اس لیے شیطان کو یہ حق دے دیا گیا اور اُس نے آپؑ کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔

بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی یہ تشریح کی ہے کہ بیماری کی حالت میں حضرت ایّوب علیہ السلام کے دل میں شیطان طرح طرح کے وسوسے ڈالا کرتا تھا۔ آپؑ کو اس سے اور زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ یہاں آپؑ نے اس کا ذکر فرمایا۔ محققین و مفسّرین نے اوپر بیان کردہ قصّے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآنِ کریم کی تصریح کے مطابق انبیاء علیہم السلام پر شیطان کو تسلّط حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شیطان نے آپؑ کو بیماری میں مبتلا کیا ہو۔‘‘ (قصہ القرآن، مفتی محمد شفیع ؒ، صفحہ نمبر87)۔

پیغمبرانہ آزمائش: مفسّرین و مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت ایّوب علیہ السلام بہت امیر وکبیر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں مال و دولت، شان و شوکت، محلات و جائیداد، نوکر چاکر اور کثیر اولاد سے نوازا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ایّوب علیہ السلام کے سات لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں۔ جو سب آپؑ پر آنے والی آزمائش کے دِنوں میں انتقال کرگئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اُن کی آزمائش ختم کی، تو اُنہیں مزید اولاد عطا فرمائی۔ روایت کے مطابق اُن کی تعداد ستائیس تھی۔ 

قرآنِ کریم میں حضرت ایّوب علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور ایّوبؑ (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دُعا کی کہ مجھے تکلیف ہورہی ہے اور تُو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے اُن کی دُعا قبول کرلی اور اُن کو جو تکلیف تھی، وہ دُور کردی اور اُن کو بال بچّے بھی عطا فرمائے اور اپنی مہربانی سے اُن کے ساتھ اتنے ہی اور بخشے اور عبادت کرنے والوں کے لیے یہ نصیحت ہے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیات نمبر83،84)۔ علامہ حافظ حمّاد الدین ابن کثیرؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ایّوبؑ کو پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلا فرمایا، تو اُنؑ سے سب کچھ چھین لیا گیا۔ 

حتیٰ کہ طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوگئیں اورجسم کا کوئی عضو صحیح سالم نہ رہا، سوائے دل و زبان کے، جن سے وہ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے اور نہایت صبر کے ساتھ مصروفِ عبادت رہتے۔ پھر اُنؑ کا مرض اتنا طویل ہوگیا کہ کوئی ہم نشین بھی ساتھ نہ بیٹھتا تھا۔ دوست، احباب بھی وحشت کرتے، یہاں تک کہ اُنھیں شہر سے باہر ایک مقام پر ڈال دیا گیا۔ سب نے اُن سے قطع تعلق کرلیا، سوائے اُن کی ایک بیوی کے، جو دن رات اُنؑ کی خدمت میں مصروف رہتیں۔ حتیٰ کہ جب تنگ دستی حد سے بڑھ گئی اور تمام عزیز، رشتے دار، دوست احباب نے منہ موڑ لیا، تو بھی اس صالح خاتون نے حضرت ایّوب علیہ السلام کی خدمت و نگہبانی میں کوئی کمی نہ آنے دی۔‘‘ 

حضرت مجاہدؒ سے مروی ہے کہ ’’حضرت ایّوب علیہ السلام پہلے انسان ہیں، جنھیں چیچک اور دیگر جِلدی بیماریاں لاحق ہوئیں۔ روایت میں ہے کہ آپ کے پورے جسم پر بڑے بڑے آبلے پڑگئے تھے۔‘‘ سدیؒ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ایّوب علیہ السلام کے جسم سے گوشت تک جَھڑچکا تھا، صرف ہڈیاں اور پٹّھے باقی رہ گئے تھے۔ بیوی باریک ریت لے کر آتیں اور ان کے نیچے بچھا دیتیں، تاکہ جسم کو تکلیف نہ ہو۔‘‘ بعض مفسّرین کے مطابق اللہ تعالیٰ نےحضرت ایّوب علیہ السلام کو جس بیماری میں مبتلا فرمایا، اس کی نوعیت سے متعلق نہیں بتایا گیا۔

جسم میں کیڑے پڑ جانا یا گوشت کا جَھڑنا، اسرائیلی روایات کا حصّہ ہے، جس میں مبالغہ آرائی زیادہ ہے۔(واللہ اعلم)۔ حضرت ایّوب علیہ السلام کی شدید تکلیف کے پیشِ نظر اُن کی اہلیہ نے کہاکہ ’’اگرآپ اپنے پروردگار سے دُعا کریں، تو وہ آپ کو ان مصائب سے نجات عطا فرمادے گا۔‘‘ جواب دیا ’’مَیں ستّر برس تک صحیح سالم رہا، تو کم ازکم اللہ کے لیے کچھ برس تو صبر کرلوں۔‘‘ ابنِ جریرؒ اور ابنِ ابی حاتم نے فرمایا کہ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لوگوں میں شدید ترین آزمائشیں انبیاء علیہم السلام پر آئی ہیں۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’جو شخص اپنے دین پر جتنا مضبوط ہوگا، تو اُس کی آزمائش بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔‘‘ (قصص ابنِ کثیرؒ، صفحہ نمبر308)۔

شیطان، طبیب کے رُوپ میں: امام احمد بن حنبل ؒ نے ’’کتاب الزہد‘‘ میں حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ ’’حضرت ایّوب علیہ السلام کی بیماری کے زمانے میں ایک بار شیطان ایک طبیب کی شکل میں اُنؑ کی بیوی کے پاس آیا۔ انہوں نے اسے طبیب سمجھ کر حضرت ایّوب علیہ السلام کے علاج کی درخواست کی، تو شیطان نے کہا کہ ’’مَیں اس شرط پرعلاج کروں گا کہ اگر انہیں میرے علاج سے شفا ہوجائے تو یوں کہہ دیں کہ ’’تُونے شفادی‘‘ مَیں اس کے علاوہ کچھ اور نذرانہ نہیں چاہتا۔‘‘ 

بیوی نے پورا واقعہ حضرت ایّوب علیہ السلام سے بیان کیا۔ واقعہ سُن کرانہوں نے فرمایا ’’بھلی مانس! وہ طبیب کے رُوپ میں شیطان تھا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی، تو مَیں تجھے سو قمچیاں ماروں گا۔‘‘ دراصل آپؑ کو اس بات سے سخت رنج پہنچا تھا کہ انؑ کی بیماری کی بدولت شیطان کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ انؑ کی اہلیہ سے ایسے کلمات کہلوانا چاہتا تھا، جو ظاہراً موجبِ شرک تھے، گوکہ تاویل سے شرک نہ ہوں۔ یہ ایک واقعہ بھی ازالۂ مرض کے لیے دُعا کا باعث بنا۔(معارف القران،7/520)۔

آسمان سے تصدیق: ابنِ ابی حاتم ؓ اور ابنِ جریرؓ نے فرمایا کہ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کے پیغمبر حضرت ایّوب علیہ السلام کو اٹھارہ سال مصیبتیں، آزمائشیں گھیرے رہیں، پھر اُنھیں قریب والے، دُور والے سب چھوڑ گئے۔ سوائے اُن دو شخصیات کے جو آپؑ کے خاص بھائی تھے۔ وہ آپ کے پاس صبح و شام آتے، تو ایک مرتبہ ایک نے دوسرے کو کہا، ’’تُو جانتا ہے کہ اللہ کی قسم، شاید ایّوبؑ جیسا گناہ جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔‘‘ ساتھی نے دریافت کیا کہ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ کہا کہ ’’دیکھو اُنھیں اٹھارہ سال ہوگئے ہیں، اُن کی بیماریاں دُور نہیں ہوئیں اور اب تک اللہ نے اُن پر رحم نہیں فرمایا، اگر ایسی بات نہ ہوتی، تو ربّ ان کی بیماریوں کو دُور فرمادیتا۔‘‘ 

پھر دونوں شام کو حضرت ایّوب علیہ السلام کے پاس گئے، تو اُس شخص سے رہا نہ گیا اور وہ حضرت ایّوبؑ سے اس بات کا ذکرکر بیٹھا۔ ابنِ ابی حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عبید بن عمیرؒ سے مروی ہے کہ حضرت ایّوب علیہ السلام کے دو بھائی تھے، وہ دونوں ایک دن آپ کے پاس آئے، تو آپ کے زخموں کی بُو کی وجہ سے قریب نہ آسکے اور ذرا دُور کھڑے ہوگئے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ، ایّوب علیہ السلام میں کوئی بھلائی و خیر جانتا، تو ان کو اس طرح امراض میں مبتلا نہ کرتا۔ اس بات سے حضرت ایّوب علیہ السلام کو اس قدر تکلیف ہوئی کہ پہلے کبھی کسی سے نہ ہوئی۔ 

چناں چہ آپ نے فوراً بارگاہِ ربّ العزت میں دستِ التجا بلند کیے۔ ’’اے اللہ! تجھے علم ہے کہ جس نے کبھی کوئی رات سیر ہوکر نہیں گزاری، اور مَیں جانتا ہوں کہ بھوکے کا کیا مرتبہ ہے، تُو میری تصدیق کر۔‘‘ آسمان سے تصدیق ہوئی، جسے دونوں بھائیوں نے سُنا۔ پھر فرمایا ’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ میرے پاس کبھی دو قمیص نہیں رہیں اور -میں مفلس کا مرتبہ جانتا ہوں، تو میری تصدیق فرما۔‘‘ پھر آسمان سے تصدیق ہوئی اور دونوں بھائیوں نے سُنا۔ پھر کہا ’’اے اللہ! تیری عزت کا واسطہ‘‘ اور یہ کہتے ہوئے سجدے میں گر پڑے اور فریاد و التجا کرتے رہے۔‘‘ (قصص ابنِ کثیر ؒ ،صفحہ نمبر 309)۔

اللہ نے دُعا قبول فرمالی: حضرت ایّوب علیہ السلام کی سخت ترین آزمائش کو ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ اس عرصے میں دنیا کی کوئی طاقت، کوئی ایذا، مصیبت و پریشانی اُن سے صبرو شُکر کے کلمات نہ چھڑواسکی۔ شکوہ و شکایت اور جزع و فزع صبر کے منافی ہیں، جن کا اظہار حضرت ایّوب علیہ السلام نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دُعا، صبر کے منافی نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ’’ہم نے قبول کرلی‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ:’’اور ہمارے بندے ایّوبؑ کا بھی ذکر کرو، جب کہ اس نے اپنے ربّ کو پُکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دُکھ پہنچایا۔ (تو ہم نے کہاکہ) اپنا پائوں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے، اور ہم نے اُسے اُس کا پورا کنبہ عطا فرمادیا، بلکہ اُتنا ہی اور بھی، اس کے ساتھ اپنی خاص رحمت سے اور عقل مندوں کی نصیحت کے لیے۔‘‘ (سورئہ ص ٓ، 41-43)۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ایّوب علیہ السلام کی دُعا قبول فرمائی اور اُن سے کہاکہ زمین پر پیر مارو، جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا اور اس چشمے کا پانی پینے سے اندرونی بیماریاں اور غسل کرنے سے ظاہری بیماریاں دُور ہوگئیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ دو چشمے تھے، ایک سے غسل فرمایا اور دوسرے سے پانی پیا، لیکن قرآن کے الفاظ سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے، یعنی ایک ہی چشمہ تھا۔ اسی طرح بعض علماء کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ، جو بطور آزمائش ہلاک کردیاگیا تھا، اُسے زندہ کر دیا گیا اور اس کے مثل مزید کنبہ عطا کردیا گیا۔ لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں پہلے سے زیادہ مال و اولاد سے نوازدیا۔ (تفسیر،مولانا صلاح الدین یوسف، صفحہ نمبر1282)۔

جنّت کا جوڑا: علامہ ابنِ کثیرؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ایّوبؑ قضائے حاجت کے لیے نکلتے تھے، تو اُن کی اہلیہ اُن کا ہاتھ پکڑ کرلے جاتی تھیں۔ ایک دن وہ دیر سے آئیں، اسی اثناء ربّ عِزّوجل نے حضرت ایّوب علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ اپنا پائوں مارو، یہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ تمہارے نہانے اور پینے کے لیے ہے۔ حضرت ایّوب علیہ السلام دیر تک اس پانی سے نہاتے رہے، پانی جسم پر پڑتا جاتا تھا اور توانائی آتی جاتی تھی، یہاں تک کہ مکمل طور پر صحت مند ہوگئے۔‘‘ 

ابنِ ابی حاتمؒ نے حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایّوب علیہ السلام کے لیے جنّت سے ایک جوڑا بھجوایا تھا، جسے پہن کراور اپنی جگہ سے ہٹ کرایک طرف بیٹھ گئے۔ اتنے میں اُن کی اہلیہ تشریف لائیں اور اُنھیں پہچان نہ سکیں۔ اُنھوں نے آپؑ ہی سے پوچھا ’’اے اللہ کے بندے! یہاں ایک آفت زدہ شخص ہوتا تھا، وہ کہاں گیا؟‘‘ حضرت ایّوب علیہ السلام نے فرمایا ’’مَیں ہی ایّوب ؑ ہوں۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے بندے! آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟‘‘ حضرت ایّوب علیہ السلام نے کہا ’’مَیں ہی ایّوب ؑ ہوں۔ میرے پروردگار نے مجھے میرا جسم لوٹا دیا۔‘‘(قصص ابنِ کثیر، صفحہ نمبر 310)۔

خدمت گزار اہلیہ اور ایک سوکوڑے: بیماری کے ایّام میں خدمت گزار اہلیہ نے طبیب کے بھیس میں آئے شیطان سے علاج کی درخواست کی تھی۔ اس بات پر حضرت ایّوب علیہ السلام اپنی اہلیہ سے ناراض ہوگئے تھے اور انہوں نے اہلیہ کو ایک سو کوڑے مارنے کی قسم کھالی تھی۔ جب صحت یاب ہوئے، تو ایک طرف سعادت مند، خدمت گزار بیوی تھی،دوسری طرف قسم بھی پوری کرنی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کی پریشانی دُور کرنے کے لیے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا، ترجمہ:’’اور اپنے ہاتھ میں تِنکوں کا ایک مُٹھا۔(جھاڑو لے کر ماردے اور قسم کے خلاف نہ کر۔) سچ تویہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا۔

وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔‘‘ (سورئہ ص ٓ، آیت نمبر44)۔حضرت ضحاکؒ، حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ نے اُن کی اُس بیوی کو اُن کی جوانی واپس لوٹا دی تھی، بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ دوشیزگی عطا فرمائی تھی۔ پھر اُن سے حضرت ایّوب علیہ السلام کے چھبیس بچّے پیداہوئے۔ حضرت ایّوب علیہ السلام کی اُن خدمت گزار اہلیہ کے نام پر مؤرخین میں اختلاف ہے۔ کسی نے اُن کا نام لیا بنتِ میشا ابنِ یوسف ؑ لکھا ہے، تو کسی نے رحمت بنتِ افراہیم ابنِ یوسف علیہ السلام۔ (واللہ اعلم)۔

بے شمار اجروثواب: آزمائش و امتحان اور مصائب و آلام پر صبروشُکر میں حضرت ایّوب علیہ السلام ضرب المثل ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے آپؑ کو صبروشُکر کا وہ مقام عطا فرمایا کہ رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے ’’صبرِایّوبؑ‘‘ مشعلِ راہ بن گیا۔ پروردگار نے جُوں جُوں آپ کی آزمائشیں بڑھائیں۔ توں توں اُن کی عبادت و ریاضت بڑھتی چلی گئی اورپروردگارِ عالم نے مصائب و تکالیف میں صبر کرنے والوں کو بے شمار اجرو ثواب کی نوید سنائی ہے۔

جیسے:’’جن لوگوں نے صبر کیا، ہم اُنھیں اُن کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘(سورۃ النحل، آیت نمبر96)۔’’صبرکے بدلے جنّت کے بالاخانے عطا ہوں گے اور وہاں فرشتے دعائوں اور سلام سے ان کا استقبال کریں گے۔‘‘(سورۃ الفرقان، آیت نمبر75)۔’’جو صبرسے کام لیتے ہیں۔ انھیں بے حساب ثواب دیا جائے گا۔‘‘(سورۃ الزمر، آیت نمبر10)۔’’اُن کے صبرکے بدلے انہیں جنّت کے باغات اور ریشمی لباس سے نوازا جائے گا۔‘‘(سورۃ الدھر، آیت نمبر12)۔