لاہور ہائی کورٹ نے ڈیفنس میں کار کی ٹکر سے 6 افراد کی موت کے مقدمے میں کارروائی کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر کسی علاقے میں کم عمر ڈرائیور نے گاڑی ماردی تو ایس ایچ او ذمے دار ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ میں گزشتہ ہفتے لاہور کے علاقے ڈیفنس فیز 7 میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے کے کیس پر جسٹس علی ضیاء باجوہ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران پولیس نے کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کریک ڈاؤن سے متعلق عدالتی حکم پر اپنی رپورٹ جمع کرا دی۔
لاہور پولیس کی رپورٹ کے مطابق ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، عدالتی احکامات کی روشنی میں تمام ایس پیز کو احکامات جاری کر دیے تھے، ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے۔
پولیس نے مقدمہ مدعی رفاقت علی کا بیان بھی عدالت پیش کر دیا۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق مدعی کے بیان پر مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے پر ملزم کو انسدادِ دہشت گردی عدالت پیش کیا گیا تھا، ملزم افنان کا اے ٹی سی سے 23 نومبر تک جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے جس پر تفتیش جاری ہے۔
دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا کہ اب تک کسی وکیل کے خلاف کوئی کیس درج ہوا ہے، اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ اگر کیس ہوتا تو شور مچ جاتا، شور نہیں مچا تو اس کا مطلب کیس نہیں ہوا۔
سماعت کے دوران ملزم افنان کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ یہ ایف آئی آرز خارج ہونی چاہئیں۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ ایف آئی آرز بالکل بھی خارج نہیں ہونی چاہئیں۔
ملزم کے وکیل نے کہا کہ کوئی کم عمر اگرگاڑی چلا رہا ہے تو اس کو کچھ پیسوں کا جرمانہ بنتا ہے، لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے پر 300 اور انڈر ایج پر 500 روپے جرمانہ ہے۔
عدالت نے سوال کیا کہ وکیل صاحب آپ کا بیٹا کتنے سال کا ہے؟
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرا بیٹا 16 سال کا ہے۔
عدالت نے مزید سوال کیا کہ کیا وہ گاڑی لے کر تو باہر نہیں نکلتا۔
ملزم کے وکیل نے جواب دیا کہ سر پہلے نکل رہا تھا لیکن آپ کے آرڈرز کے بعد نہیں نکلا۔
ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کار میں ساتھ بیٹھے لڑکے ابراہیم کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے استفسار کیا کہ ابراہیم کو پولیس نے کیوں گرفتار کیا ہے؟
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ سر ہم نے اس کی گرفتاری نہیں رکھی اور وہ التواء میں ہے۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اب پولیس نے پورے لاہور کو گرفتار کرنا ہے؟
عدالت نے سماعت کے دوران ہدایت کی کہ بغیر بندے کی موجودگی اور لائسنس کے کس طرح گاڑیاں ایشو کی جا رہی ہیں، لائسنس بنوانے والوں کو فوری ای کاپی فراہم کریں، کسی پولیس والے نے کریک ڈاؤن کو بنیاد بناتے ہوئے ناانصافی کی تو سخت ایکشن ہو گا، اگر کسی علاقے میں کم عمر ڈرائیور نے گاڑی مار دی تو ایس ایچ او ذمے دار ہو گا۔
عدالت نے سی ٹی او کو ہدایت کی کہ پڑھے لکھے وکیلوں کو اپنی مہم کا حصہ بنائیں، اسکولوں میں جا کر بچوں کو آگاہ کریں۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم تفتیش میرٹ پر کر رہے ہیں۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اب تک کم عمر، بغیر لائسنس گاڑی، بائیک چلانے والوں کے خلاف 2 ہزار 986 کیسز درج ہوئے ہیں۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے سماعت 2 بجے تک ملتوی کر دی۔