• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر روز 200افراد سرطان سے مر رہے ہیں ترجیحات کیا ہیں

بچو!اب تم دودھ پینے کی عادت کو چھوڑ دو، اب میرے پاس تم پانچ بچوں کو دودھ پلانے کے لئے پیسے نہیں تمہارا باپ مر چکا ہے اور رات کو بھوکا سونے کی عادت بھی ڈالو ۔ یہ بات ایک بیوہ ماں نے روتے ہوئے اپنے بچوں کو کہی ۔ یہ واقعہ لاہور کے ایلیٹ کلاس کے علاقے ڈی ایچ اے کے ایک گھر میں کام کرنے والی عورت کا ہے اس کا خاوند کینسر کے مرض میں دو ماہ مبتلا رہنے کے بعد مر گیا ۔باپ زندہ تھا تو بچوں کے لئے دودھ لا کر انہیں پلایا کرتا تھا اب کون ہے جو ان بچوں کو دودھ کے لئے پیسے دے گا ؟یہ دردناک واقعہ ڈیفنس کا ہے جہاں پر لوگ ہر ویک اینڈ پر ڈانس پارٹیو ں اور مجروں پر ایک ایک رات میں لاکھوں روپے اڑا دیتے ہیں مگر ان امیر گھرانوں کے گھروں میں کام کرنے صفائی کرنے والوں کےاذیت ناک حالات کے بارے میں کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی، آخر یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے ؟حضرت عمر ؓتو فرماتے تھے کہ اگر ان کے دور میں کتا بھی بھوک سے مر گیا تو وہ اس کا حساب دیں گے ،آج پاکستان میں روزانہ بیسیوں لوگ بھو ک سے مر رہے ہیں حالات سے تنگ جو لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔دراصل وہ بھوک اور ننگ سے مر رہے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ،جنگ گروپ کے اخبار انقلاب کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں 200فارم ہائوسز ہیں اور فارم ہائوسوں پر جو کچھ نیو ایئر میں ہوا، کیا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھا؟
کتنی دلچسپ منافقانہ سوچ اور انداز ہے کہ میڈیا میں تمام خبریں آ رہی ہیں شراب کی مانگ اور استعمال بڑھتا جا رہا ہے مگر پولیس کہتی ہے کہ وہ شرابیوں کو پکڑ رہی ہے جبکہ وہ دلچسپ تصویر اور ویڈیو سب نے دیکھی ہوگی کہ واہگہ پر جب پکڑی گئی شراب کو ضائع کیا جا رہا تھا اور پولیس کے شیر جوان کس طرح شراب کی بوتلیں جلتی ہوئی آگ میں اٹھا کر بھاگ رہے تھے، یہ ہے ہمارا کلچر اور یہ ہے ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ۔
اس پر پھر کبھی بات ہو گی ، فی الحال تو ہم شعبہ کینسر وارڈ میو ہسپتال کے ہیڈ پروفیسر ڈاکٹر شہریار کے اس انکشاف پر بات کر رہے ہیں جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 200افراد مختلف اقسام کے سرطان سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں،بے حس حکمرانوں اور بے حس لوگوں کے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔200روزانہ سرطان سے مر رہے ہیں، بیشمار ہارٹ اٹیک، ہیپاٹائٹس بی/سی،حادثات یا بم دھماکوں،خودکش حملوں میں مر رہے ہیں اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔یہ انسان تھوڑے ہی ہیں یہ کیڑے مکوڑے ہیں مر بھی گئے تو کیا فرق پڑتا ہے۔یہ بیچارے تو مرنے کے لئے تو پیدا ہوئے ہیں،کراچی میں روزانہ کئی افراد قتل ہو جاتے ہیں، یہ کون سی بات ہے ؟شعبہ صحت کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو پورے پاکستان میںا سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تعداد افسوس ناک حد تک کم ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کینسر کے علاج کیلئے صرف 9اسپیشلسٹ ہیں۔پورے پنجاب میں تمام سرکاری اور ایک غیرسرکاری ہسپتال کو شامل کرکے سرطان کے مریضوں کیلئے صرف543بیڈز اوراسپیشلسٹ کنسلٹنٹ کی تعداد ملا کر صرف 42ہے جبکہ ہر سال پنجاب میں 1,62000نئے سرطان کے مریض آ جاتے ہیں۔ابھی پرانے مریض صحت یاب ہو کر جاتے نہیں کہ مزید 1,62000نئے مریض آ جاتے ہیں جن کو سرکاری اسپتال میں داخلہ مل گیا بیڈ مل گیا علاج شروع ہو گیا تو شاید وہ بچ بھی جائیں مگر جن کو بیڈ نہ ملا علاج کی سہولت نہ ملی وہ بیچارے سوائے موت کے کس کا انتظار کریں؟وہ کدھر جائیں اور کہاں جا کر سر ماریں۔کبھی سوچا ان بے رحم حکمرانوں اور بے جان بیوروکریسی نے؟وہ بیوروکریسی جس کو سوائے اپنے گریڈ اپ کرنے اور اپنے بچوں کو بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجوانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔حکومت سروے کر لے سب سے زیادہ بیرون ممالک بچے بیوروکریٹس کے پڑھ رہے ہیں، یہ کون سی آسمانی تنخواہ ہے جس کے بل پر وہ اپنے بچوں کو ولایت، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ پڑھاتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ شعبہ صحت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں سب سے زیادہ ہاتھ بیوروکریسی کا ہے،آج بھی محکمہ صحت میں سیکرٹری،ایڈیشنل سیکرٹری، ڈی ایس اور ایس او وغیرہ سب ڈاکٹرز لگا دیئے جائیں تو یقیناً حالات بہتر ہو جائیں گے۔حکومت پوچھے ان بیورو کریٹس سے جنہوں نے بطور سیکرٹری ہیلتھ کے کام کیا۔انہوں نے کیا پالیسیاں بنائیں؟آج ہر سرکاری اسپتال کی حالت ناگفتہ بہ ہے ہر شعبے میں ماہرین کی اشد کمی ہے کیا یہی کچھ دیا ان بیوروکریٹس نے ماضی میں آنے والے بطور سیکرٹری 13 ڈاکٹروں کو بھی کام نہیں کرنے دیا تھا۔ پاکستان اکیڈیمی آف فیملی پریشنز کے صدر ڈاکٹر طارق میاں نے درست کہا کہ ہمیں بیوروکریٹ ڈاکٹر نہیں بلکہ ڈاکٹر بطور سیکرٹری چاہئے اور ہم یہ بات آج سے بہت عرصہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ جو ڈاکٹر حکومت کے وسائل کا ضیاع کرکے بیوروکریٹ بنتا ہے وہ دراصل زیادہ میڈیکل پروفیشن کی تباہی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ اس کے گول اور ٹارگٹ خدمت نہیں بلکہ کچھ اور ہوتے ہیں،سرجیکل انکالوجی سوساٹی کے بانی پروفیسر ڈاکٹر ارشد چیمہ کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریضوں کو ایک چھت تلے ہر طرح کے علاج کی سہولت میسر ہونی چاہئے۔لاہور جیسے بڑے شہر میں سرطان کے مریضوں کے لئے جو سہولیات میسر ہیں وہ بہر صورت کم ہیں،لہٰذا حکومت کو چاہیئے کہ وہ سرکاری سطح پر ایک بہت بڑا کینسر ہسپتال بنائے یا پھر جو لوگ اس وقت خود سرطان کا ہسپتال بنانا چاہتے ہیں ان کی بھرپورمدد کرے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت ملک میں سرطان کے علاج کے لئے مختلف علاج گاہیں ہیں لیکن مریضوں کا رش اتنا زیادہ ہے کہ ان کی سہولتیں ناکافی ہو چکی ہیں۔لاہورمیں انمول سرطان کے مریضوں کے لئے بہت اچھا کام کر رہا ہے اور اس کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر شاہد پاکستان کے پہلے ڈاکٹر ہے جنہوں نے ریڈیو تھراپی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ان کے بقول ہمارے لائف سٹائل نے کینسر کے مرض میں اضافہ کر دیا اس وقت خواتین میں چھاتی کا سرطان، مردوں میں بڑی آنت اور مثانے کا سرطان بڑھ رہا ہے۔ہمارے ملک میں ہر حکومت بیماریوں کے علاج پر تو بہت زور دیتی ہے مگر جو وجوہات بیماریوں اور کینسر کی بن رہی ہیں ان کو دور کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ تمام ملک میں کینسر کی علاج گاہوں میں 80فیصد مریض تب لائے جاتے ہیں جب سرطان ایڈوانس ا سٹیج پر پہنچ جاتا ہےاگر حکومت لوگوں کو آگاہ کرے کہ ہر عورت اور مرد کو چالیس سال کے بعد کینسر کے مختلف ٹیسٹ سال دو سال بعد کرانے چاہئیں تو اس سے خدانخواستہ اگر مرض کی ابتدا ہو تو پہلی اسٹیج پر مرض کو قابو کیا جا سکتا ہے۔اس وقت بہت سارے ایسے ٹیسٹ ہیں جن کے لئے آلات اور مشینریاں ہمارے ملک میں نہیں،پھر سرطان کا علاج انتہائی مہنگا ہے اور بدقسمتی سے غریب لوگ اس مرض میں زیادہ مبتلا ہو رہے ہیں،بچوں کینسر کے ماہرین کی شدید کمی ہے بعض دیگر کینسر کے ماہرین نہیں۔
کتنی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بعض سرطان کے ڈاکٹرز اتنے بے حس اور لالچی ہو چکے ہیں کہ انہوں نے مریضوں کے گھر،زیور تک فروخت کرا دیئے۔ایک ایسی خاتون ماہر کینسر ہے جو ہر مریض کی کھال تک اتار لیتی ہیں لیکن اٹھتے بیٹھتے مذہب کا پرچار بہت کرتی ہیں، دوسروں کو خوف خدا دلانے والے ذرا خود بھی خدا کا خوف کرلیں تو بڑا اچھا ہے۔سرطان کا پرائیویٹ علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے،حکومت کو چاہئے کہ وہ سرطان کے ٹیسٹوں کی فیسیں خود مقرر کرے۔پرائیویٹ سیکٹر میں جو لوگ سرطان کا علاج کر رہے ہیں ان کی فیسوں کو مانیٹر کرے۔ایک تو سرطان کا مریض پہلے ہی اذیت میں مبتلا ہوتا ہے دوسرے ہمارے بعض ڈاکٹرز صاحبان نے ان کی تکلیف اور اذیت میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔کیا روز قیامت اس قسم کے ظالم ڈاکٹرز اللہ کے حضوراپنی صفائی میں کیا دلیل پیش کریں گے؟کیا روزانہ سرطان سے مرنے والے 200افراد کو بچانا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ملک میں سرطان کے ہسپتالوں کی کمی کے پیش نظر ڈاکٹر شہر یار نے ایک ایسا ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا ہے جہاں پر کوئی مریض علاج کے بغیر واپس نہیں جائے گا۔
تازہ ترین