سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنے کا ختمِ نبوت سے نہیں، ختمِ حکومت سے تعلق تھا۔
احسن اقبال نے فیض آباد دھرنا کمیشن میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ 22 نومبر2017ء کو ڈی جی سی فیض حمید کو مذاکرات میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، وزیرِاعظم کی سربراہی میں اجلاس میں عسکری قیادت بھی موجود تھی، میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ دھرنے میں آئی ایس آئی ملوث تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کمیشن نے بلایا تھا، سوالنامہ دیا گیا جس کے جوابات تیار کر کے دیں گے۔
احسن اقبال کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت سمجھتی تھی کہ معاہدے پر فوج کے اعلیٰ افسر کے دستخط نہیں ہونے چاہئیں، ٹی ایل پی اور پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کا مقصد ن لیگ کو نشانہ بنانا تھا۔
’’وزیرِ قانون کا استعفیٰ نہیں بنتا تھا‘‘
احسن اقبال نے جیونیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ قانون کا استعفیٰ نہیں بنتا تھا، تب اطلاعات آ رہی تھیں کہ مسالک کی بنیاد پر انتشار بڑھنے کا خطرہ ہے، اجلاس میں حکومت نے یہی سوچا کہ وزیر قانون کا استعفیٰ نہیں بنتا، اس وقت محلے کی سطح پر فسادات شروع ہونے کا خطرہ تھا۔
احسن اقبال کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب معاہدہ ہو رہا تھا تو اجلاس میں فیض حمید کو معاملے کو حتمی نتیجے پر لانےکا کہا، تمام واقعات نواز شریف کو نااہل کرنے سے شروع ہوئے، ن لیگ کو نشانہ بنایا گیا، فیض آباد دھرنا اسی آپریشن کا حصہ تھا جس کے تحت حکومت کو ہٹانا تھا۔