• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23 ؍ستمبر 2023ء کو شائع ہونیوالے کالم ”جب چن چڑھے گا تو سب دیکھیں گے“ میں عام انتخابات بارے اسلام آباد میں ہونیوالی سرگوشیوں اور امکانات بارے میری رائے کچھ اس طرح تھی کہ ”اسلام آباد میں چند گھنٹوں کے قیام میں نگرانوں، نگہبانوں سے مختصر ملاقاتوں کے دوران انتخابات بارے یہ تاثر ملا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ بڑے پیمانے پر صفائی ستھرائی ہوگی، کچھ کرداروں کو اٹک جیل (اس وقت) میں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔ مافیا کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوتا جائیگا اس بار کسی کو باہر بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔ چھوٹے میاں سبحان اللہ! اسی خوف سے بھاگے بھاگے واپس لندن گئے ہیں کہ انہیں بھنک پڑ گئی ہے کہ حالات ساز گار نہیں کہ وہ بڑے بھائی کو سمجھا سکیں کہ ابھی لندن میں مزید قیام فرمائیں کیونکہ پاکستان میں بلا تفریق احتساب اور انتخاب ساتھ ساتھ چلے گا۔“

اگرچہ 8فروری کو عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے لیکن اہم ترین حلقوں میں یہ موضوع ابھی تک زیر بحث ہے اور یہ راہ تلاش کی جا رہی ہے کہ معاشی استحکام کے نام پر انتخابات کی تاریخ کو کم از کم آئندہ سال کے آخر تک موخر کرکے آنیوالی متوقع منتخب حکومت کو معاشی طور پر مستحکم پاکستان کیسے فراہم کیا جائے؟ ہواؤں کا رُخ دھندلے موسموں کی طرح ایک بار پھر بدلتا نظر آرہا ہے،بہت سارے تجزیہ نگار میری معلومات کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں کہ فروری میں ہونیوالے انتخابات کا امکان اب بھی دھندلا دھندلا ہے۔ اس بارے میں طاقت وروں کے پاس ٹھوس دلائل اور وجوہات بھی موجود ہیں۔ یہ پاکستان ہے یہاں آئے روز ایسے امکانات، خدشات ہر وقت سر پر منڈلاتے رہتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر کسی بھی وقت کوئی بھی فیصلہ موخر کیا جاسکتا ہے۔ بقول بڑے مولانا صاحب! انہیں شدید ٹھنڈ لگتی ہے۔ برف باری سے ان کے ووٹرز ، سپورٹرز کی صحت اور ووٹ دونوں بُری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے وہ8 فروری کے انتخابات کو سرد خانے میں رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ سب پر بھاری آصف زرداری اپنے صاحبزادے بلاو ل بھٹو کی ناتجربہ کاری پر سرپکڑے بیٹھے ہیںوہ خود حامد میر کے ”کیپٹل ٹاک“ میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بلاول کی تربیت ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ میں ہی پارٹی کی اصل طاقت ہوں اور میرے ہی دستخطوں سے پارٹی ٹکٹ جاری ہونگے۔ چاہنے والوں نے اس ”خصوصی انٹرویو“ سے تاثر یہ لیا ہے کہ شائد باپ بیٹے میں پارٹی پالیسی پر اَن بن ہوگئی ہے اور بلاول بھٹو ناراض ہو کر دبئی جا بیٹھے ہیں اور آصف زرداری انہیں منانے گئے ہیں۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، آرمی چیف جنرل عاصم منیرایک وفد کے ہمراہ انہی دنوں متحدہ عرب امارات میں موجود تھے ۔ اس وفد میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی (زرداری صاحب کے بقول انکے بیٹے) بھی ہمراہ تھے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں بیس سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے واضح مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر اگر سیاسی فریقین کے درمیان دبئی میں کسی رابطہ یا گفت وشنید کے نتیجے میں کوئی بریکنگ نیوز بنتی ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ انتخابات میں تاخیر بارے وجوہات میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر عبوری نگران حکومت یہ ساری تگ و دو کس کیلئے کررہی ہے؟ ایک جواب تو یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنےکیلئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں معاشی استحکام کے نتیجے میں عوام کو ریلیف دینا اور معیشت کا پہیہ تیزی سے گھمانا چاہتی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ طاقت ور ادارے ہر کام سر انجام دے رہے ہیں لیکن انتخابات شائد ان کی پہلی ترجیح نہیں اور یہ تمام بوجھ الیکشن کمیشن کے سر تھونپا جارہا ہے کہ وہ جانے اور اسکا کام۔ نگران وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کے ایجنڈے پر بھی انتخابات نظر نہیں آتے اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلاول بھٹو کا اچانک انتخابی مہم چھوڑ کے چلے جانا، سیاسی جماعتوں کے منشور عوام کے سامنے نہ آنا، خیبرپختونخوا ،بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ملنے والی دھمکیاں اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انہیں یہ الرٹ جاری کرنا کہ عوامی جلسوں میں دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر ان کی جان کو خطرہ ہے،الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو متنازع قراردینا، مقررہ مدت میں دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کا حکم دینا بصورت دیگر بلے کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر سے آؤٹ کرنے کا فیصلہ ، غیر قانونی مقیم لاکھوں افغانوں کی واپسی اور قانونی طور پر مقیم 40 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی پاکستان میں موجودگی اور اکثریت کے پاس قومی شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹوں میں انکے ناموں کا اندراج اور اخراج ۔نواز شریف کے بیانئے میں ایک بار پھر پچھلوں پر تنقید ، لاہور ہائی کورٹ میں نگران وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے بارے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ، فوجی عدالتوں بارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کی سماعت اور ممکنہ فیصلے کے اثرات سے پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال، ایسے اشارے ہیں کہ جن کی بنیاد پر انتخابات دھندلکے کا شکارنظر آتے ہیں۔ جب تک ان سوالوں کے واضح جواب نہیں آئیں گے تو پُر امن، صاف ستھرے ماحول میں شفاف انتخابات ممکنہ طورپر اسلام آباد اور اس کے ملحقہ علاقے والوں کی ترجیح نہیں یا آپ سیدھے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ کچھ گھوڑے واپس اصطبل منتقل کردیئے جائینگے، پنجاب سے وفاق تک ردوبدل کرکے یہ کمپنی قدم بہ قدم کچھ عرصہ یوں ہی چلتی رہے گی۔

تازہ ترین