پاکستان میں عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں۔ زنانہ آبادی پچاس فیصد سے زیادہ ہونے اور جمہوریت کی بحالی کے با وصف معاشرے پر مردوں کا غلبہ ہے اور جمہوری سوچ اور رویئے بحال نہیں ہو سکے کیونکہ معاشرہ ابھی تک جاگیرداری نظام کے چنگل سے باہر نہیں آ سکا۔ باہر لانے کی کوئی موثر سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی بلکہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی نے جس قدر سیاسی شعور ابھرتے دکھایا تھا اگلی دہائیوں میں وہ بھی بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ ترقی کی راہوں پر دو قدم آگے کی جانب اٹھائے گئے ہیں تو چار قدم پیچھے کی جانب بھی گئے ہیں۔
عورتوں اور بچوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے تہذیب و تمدن اور ثقافت کے درجے شمار کئے جاتے ہیں سال 2013ء میں پاکستان دنیا کے136 ملکوں میں اسی وجہ سے بہت نچلے درجے میں شمار کیا گیا تھا کہ یہاں عورتوں اور بچوں کے ساتھ مناسب اور موزوں سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ اس کے باوجود کہ پاکستان میں عورتوں کو تعلیمی اور معاشی شعبوں میں بہتر حالات میسر کئے گئے ہیں۔ مگر سیاست، بزنس، قیادت عورتوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا۔ ترقی پذیر ممالک میں ایک تہائی عورتوں اور لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہیں اور آدھی سے زیادہ پہلی زچگی نوجوانی کی عمر میں ہو جاتی ہے اور یوں وہ سب لڑکیاں بنیادی تعلیم اور ہنر مندی کی تربیت سے محروم رہ جاتی ہیں۔ معاشرہ بچیوں اور لڑکیوں کو اس طرح بھی ایک ناروا بوجھ تصور کرتا ہے اور ان کے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں کرتا انہیں قومی اور ملکی حالات کو بہتر بنانے کی سرگرمیوں میں شریک اور شامل ہونے بھی نہیں دیتا۔ ادارہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی گھرانے امتیازی سلوک استحصال، ظلم اور زیادتی کی زد میں آتے ہیں۔ سال 2013ء کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خواتین سے بدسلوکی اور جنسی جرائم کے معاملات میں پاکستانی معاشرے نے بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اس سال کے دوران عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ایک ہزار سات سو 45 واقعات رپورٹ کئے گئے جن میں 1607واقعات اغواء کے 989گھریلو تشدد کے 58آبروریزی اور 83جسموں پر تیزاب پھینکنے کے تھے اور 71وارداتیں عورتوں کو زندہ جلانے کی تھیں۔ اس سال کے دوران 432خواتین نے خود کشی کی 432عزت و آبرو کے نام پر قتل کی گئیں اور ایک ہزار ایک سو 32وارداتیں عورتوں پر جسمانی تشدد کی ان کے علاوہ تھیں۔ ایشیائی ملکوں میں عورتوں کو اسمبلی میں نمائندگی دینے کے سلسلے میں پاکستان نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ نیپال میں 33فیصد اسمبلی کی نشستیں خواتین کو دی جاتی ہیں اور پاکستان میں ساڑھے بائیس فیصد نشستیں خواتین کی ہیں۔ اس میدان میں ہندوستان بہت پیچھے ہے جس کی خواتین کی اسمبلی میں نمائندگی نو فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں عورتوں اور بچیوں کی آبروریزی کی شرمناک وارداتوں کی وجوہات میں مردوں کی بے راہ روی بدلہ لینے اور انتقامی جذبات کو تسکین دینے کے علاوہ بعض بیماریوں اور کمزوریوں پر قابو پانے والے علاج بھی شامل ہیں۔ چھوٹے معصوم بچوں کے قتل کی بعض وارداتوں کے پیچھے بے اولاد گھرانوں کی اولاد حاصل کرنے کی خواہشات بھی کام کر رہی ہوتی ہیں اور ان وارداتوں کے مشورے انہیں بعض سادھو، فقیر اور ہرڑ پوپو دیتے ہیں۔ ایچ آئی وی پازیٹو کے عارضے کا بہت سے جاہل، ان پڑھ لوگوں کو یہ علاج بتایا جاتا ہے کہ وہ نو عمر لڑکیوں کی آبروریزی کرنے سے صحت یاب ہو جائیں گے جب کہ کوئی عارضہ کسی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود کہ پاکستان سے یہ امتیاز کوئی نہیں چھین سکے گا کہ یہاں پہلی بار ایک خاتون کو سربراہ حکومت بنایا گیا اور جمہوری طریقے سے انتخابات کے ذریعے بنایا گیا مگر خواتین کو معاشرے میں مناسب، موزوں اور جائز حق اور مقام دلوانے میں اور عورتوں کو قومی اور ملکی تعمیر کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے کشادہ ماحول فراہم کرنے کے سلسلے میں ابھی پاکستان کو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم معاشرے میں جمہوری سوچ اور جمہوری برداشت کے رویئے پیدا نہیں کریں گے ہمیں یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکے گا کہ ہمارا جمہوری نظام حکومت قائم رہ سکے گا۔ جمہوری سوچ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی۔ آج تک کہیں بھی نہیں چل سکی۔