السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
تہذیب و اخلاق کے خلاف
آپ سے گزارش ہے کہ سنڈے میگزین میں ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے کے سامنے اشتہار شائع نہ کیا کریں اور اس سے پہلے صفحے پر جو ماڈل کی تصویر شائع کرتی ہیں، وہ بھی ہماری دینی تہذیب واخلاق کے خلاف ہے۔ اگرہوسکے تو ’’قصص القرآن‘‘ کو کسی اندرونی صفحے پر منتقل کردیں۔ عین نوازش ہوگی۔ (سلیم خان، کراچی)
ج: جی، حُکم بجا لایا جا چُکا ہے۔
زیادہ اچھا نہ ہوتا…؟؟
سلامِ عاجزانہ، دوبارہ حاضرہے پروانہ، سلامت رہے ہر قاری و لکھاریٔ سنڈے میگزین بمع جملہ اسٹاف۔ دُعائے مخلصانہ، بزبانِ فقیرانہ۔ آج الحمدللہ، دہری خوشی نصیب ہوئی۔ پہلی کہ یکم ربیع الاوّل کا آغاز شبِ پیرسے ہوا، دوسری یہ کہ عاجز، فریادی کا خط آپ نےبعنوان ’’نصف شب میں آدھی ملاقات‘‘ میگزین کی زینت بنادیا۔ بہت شکریہ اپنی بزم میں راقم الحروف کو شامل کرنےکا۔
بہرحال،اس لازوال خوشی کے موقعے پرحاضر ہےایک اورتبصرہ، وہ بھی سو فی صد بلامعاوضہ۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قومِ ثمود کا قصّہ بیان کیا گیا، جو مدلّل تھا، تو پند و نصائح سے بھرپور بھی۔ نیز، معتبر و مستند تو تھا ہی۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات ‘‘ میں آج کی دنیا کو امن و جنگ کی دنیا میں تقسیم کر کے بالکل درست تجزیہ پیش کیا۔ اولاً یہ کہ یوکرین جنگ ہی نے منہگائی کی اس لہر کوجنم دیا ہے۔
ثانیاً، اب جنگ کا میدان اقتصادی ہے۔ اپنی ’’رپورٹ‘‘ میں آپ کےنامہ نگار نے سیلاب سے متاثرہ سندھ کے دیہی علاقوں (جراربھیل اور پنگریو) کا آنکھوں دیکھا احوال پیش کیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹرعرفان عزیز بابائے اردو کے شرمندۂ تعبیر خواب، وفاقی اُردو یونی ورسٹی کے اسبابِ زوال پذیر بیان کر رہے تھے۔ اختر علی اختر نے’’فن و فنکار‘‘ میں، نوجوان گلوکار اسد عباس کی (میری آواز ہی پہچان ہے، گر یاد رہے) دنیائے موسیقی فتح کرنےسےداغِ مفارقت دےجانے تک کی الم ناک داستانِ حیات سُنا کر ہرایک کو غم زدہ کردیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘میں ڈاکٹر عبدالستارعباسی وسط ایشیا کے سفرنامے میں بتا رہے تھے کہ قازقستان کیسے آسمان سے گر کرکھجور میں اٹک گیا۔
یعنی کمیونزم سے نکل کر کیپٹل ازم میں پھنس گیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ’’متفرق‘‘ میں مخصوص اصطلاحات کے آغاز و رواج سے خُوب آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ صائب مشورہ بھی دیا کہ غلط استعمال سے گریز کیا جائے۔ آپ کے بہترین سلسلے ’’یاد داشتیں‘‘ میں عالمی شہرت یافتہ شاعر، تابش دہلوی کے فرزندِ ارجمند نے مرحوم والد کی نجی زندگی کی کتاب ورق ورق کھول کر خُوب بیان کی۔ ’’حُسن اُس کا گلاب ہو جیسے…‘‘ ماڈل تو حسین تھی ہی، لیکن تحریر تو حسین ترین تھی۔
واہ! کیا کہنے!! اور آخر میں سب کے پسندیدہ صفحے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی بات کہ جو اِسم باسمٰی رہا۔ ویسےصفحہ انچارج نے اتنی ناقابلِ اشاعت نگارشات بمع اسمائے گرامی مرتّب کیں۔ اگر یہ اطلاع دینے کے بجائے ایک اور واقعہ شامل کر لیتے، تو کیا زیادہ اچھا نہ ہوتا۔ (ابنِ غلام نبی، عاجز دادفریادی، سبّی روڈ، کوئٹہ)
ج: قطعاً زیادہ اچھا نہ ہوتا کہ وہ جو مدّت سے اپنی تحریروں کی اشاعت کےانتظار میں آنکھیں فرشِ راہ کیے بیٹھے ہیں، کم از کم کسی پاسے (طرف) تو لگے۔ اور آپ کی اطلاع کے لیے یہ فہرست مرتّب کرنا اتنا بھی آسان نہیں، مگر یہ فریضہ صرف اِس لیےانجام دیا جاتا ہے کہ بہرطور قارئین طویل انتظارکی زحمت سے بچ جائیں۔
خاصا کلام لکھ رہا ہے
مجھے شعر و شاعری کا بے حد شوق ہے اور مَیں نے خاصا کلام لکھ رکھا ہے۔ ابھی آپ کو بس یہ ایک نظم بھیج رہا ہوں اور میری دلی خواہش ہے کہ کم از کم میری یہ نظم (آنسو میں چُھپی مسکراہٹ) کہیں نہ کہیں ضرور شائع ہوجائے۔ اگر آپ شائع فرما دیں گی، تو آئندہ بھی کچھ نہ کچھ بھیجتا رہوں گا۔ (حسنات احمد راشد، غریب آباد، کھڈ پلاٹ، میرپورخاص)
ج: آپ کی نظم چیک کروالی جائے گی، اگر شاعر محترم نے اوکے کردی، تو باری آنے پر شائع بھی ہوجائے گی۔
معلومات افزا پایا
’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ وصول پایا۔ ’’قصّہ تعمیر ِبیت المقدس اور حضرت سلیمانؑ کی وفات کا‘‘ بصد شوقِ مطالعہ پڑھا اور معلومات افزا پایا۔ رائو محمّد شاہد اقبال کی کاوش ’’ایک دن درکار ہے، حصول عظمت و وقار کو…‘‘ بہترین تھی۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے ’’پیارا گھر‘‘ میں اندازِ تربیت پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کی ’’جہانِ دیگر‘‘ کی سیر ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ پر محیط ہے اور لاجواب ہے۔ میری جانب سے دو مختصر تحاریر پیشِ خدمت ہیں۔ ’’منوڑا کا لائٹ ہائوس‘‘ اور ’’بکھرے موتی‘‘ کے عنوانات کے تحت۔ لائقِ اشاعت ہوں، تو جگہ عنایت فرمائیں۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج: جی بالکل، معیار کے مطابق ہوئیں، تو ضرور شائع کردی جائیں گی۔ لیکن آپ سے درخواست ہے کہ پہلے اپنی پچھلی تحریروں کی اشاعت، عدم اشاعت کا فیصلہ ہونے دیا کریں، پھر نئی تحریریں بھیجا کریں۔ تاکہ ہمارے پاس بھی وزن کم رہے اور آپ کو بھی طویل انتظار کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔
تصویرِ کائنات حسین و رنگین ہے
’’قصّہ قوم ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا‘‘ شاہ کار قلم کے حامل، محمود میاں نجمی کی بہترین نگارش تھی، ہمیشہ کی طرح خُوب فیض یاب ہوا۔ اپنے قلم سے انسان دوستی کا سبق دینے والے منور مرزا کے شان دار الفاظ درس دے رہے تھے کہ زندگی کے ہر معاملے میں توازن بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر ایم فیضان فیروز منہ کے امراض اور اُن کا علاج زیرِ قلم لائے کہ ’’منہ کی صحت‘‘ کی جب بات کی جاتی ہے، تو اُس میں دانتوں، مسوڑھوں، پورے منہ اور چہرے کے نظام کی صحت بھی شامل ہوتی ہے۔ ’’سیلاب، غربت و افلاس کے ماروں کی رہی سہی اُمیدیں بھی بہا لے گیا‘‘ ، ’’رپورٹ‘‘ مُلک کے کرتا دھرتائوں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں تھی۔
پنگریو، ہمارے جھڈو سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ سچ ہے کہ سیلاب کے بعد اب جا کے وہاں زندگی بحال ہوئی ہے، جب کہ بہت سےلوگ توعلاقہ چھوڑ کرکہیں اور ہی جا بسے ہیں۔ یہاں واقعتاً ایسے مراکزکے قیام کی اشد ضرورت ہے، جہاں سے معاشی خُود کفالت اور صحت کی سہولتیں فراہم ہوں۔ نیز، مَردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی معاشی دھارے میں شامل ہوں۔ وفاقی اردو یونی ورسٹی کا نوحہ لیے ڈاکٹر عرفان عزیز آئے، پڑھ کے علاوہ دُکھ کے کیا حاصل ہوتا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی ماڈل چھے الگ الگ پوز لیے جلوہ گرہوئیں، نرجس ملک کے چہکتے مہکتے قلم نے رائٹ اَپ میں خُوب ہی رنگ بَھرے۔
اسد عباس کی کتھا نےتو بس رُلا ہی دیا۔ ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ کا منظرنامہ، ڈاکٹر عبدالستارعباسی کی زبانی قوسِ قزح کے سارے رنگ لیے محسوس ہوا۔ خواتین سے بھی زیادہ سگھڑ اور سلیقہ مند تابش دہلوی کے اوراقِ زندگی وا کیے، اُن کے صاحب زادے، سعود تابش نے۔ بہت خُوب کہ واقعی اب ایسی نایاب ہستیاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ ’’جنوبی ایشیا، برِصغیر یا برِعظیم‘‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل کا تحقیقاتی نوٹ اس دُعا پرختم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہمارےنظامِ تعلیم کو مثبت و مفید تبدیلیاں وضع کرنے والے لوگ عنایت فرمائے۔محمّد ہمایوں ظفر کےمرتب کردہ دونوں واقعات اچھا درس دے گئے اور عشرت جہاں، سنڈےمیگزین کےجہاں پہ جگمگ جگمگ کرتی بھلی بلکہ بہت بھلی لگیں کہ ہماری مائوں، بہنوں، بیٹیوں کےدَم قدم ہی سےتوتصویرِ کائنات اس قدر حسین و رنگین ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: آپ کی آخری بات سے تو ہم بھی سو فی صد متّفق ہیں۔
جُرمانہ عائد ہونا چاہیے
اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’سامری جادوگر‘‘ کا قصّہ پڑھنے کو ملا۔ بلاشبہ معلومات سے بھرپور تحریر تھی۔ کئی ایسی باتیں معلوم ہوئیں، جن سے متعلق پہلے خاصا ابہام تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں شفق رفیع نے ڈاکٹر نورین سے سرطان کے متعلق بہت مفید، معلوماتی بات چیت کی۔ ’’گفتگو‘‘ میں گلزار محمّد خان گورنر خیبر پختون خوا سے سیاسی معلومات پر کُھل کے بات چیت کررہے تھے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستارعباسی ’’وسط ایشیا‘‘ کاسفربڑی عُمدگی سے کروا رہے ہیں۔
یہ پڑھ کر بہت خُوشی ہوئی کہ نمازِ جمعہ میں اُنہیں مسجد کھچا کھچ بَھری نظر آئی۔ منورمرزاپوچھ رہےتھے کہ ’’پاکستان، برکس میں کیسے شامل ہو؟‘‘ ’’یادداشتیں‘‘ میں محمود احمد لیئق نے شاعر حفیظ میرٹھی کے حالاتِ زندگی بیان کیے۔ ’’متفرق‘‘ میں بنتِ عطا نے آن لائن بلامعاوضہ نئی مہارتیں سیکھنے کی تراکیب بتائیں، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں محمّد بشیر جمعہ ترقی و کام یابی کے کچھ اصول بیان فرما رہے تھے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بس ٹھیک ہی تھے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ ویسے، جب آپ چاہتی ہیں کہ خط کی اشاعت پر آپ کا شکریہ ادا کیا جائے، تو خط شامل نہ ہونے پر آپ پہ جرمانہ بھی عائد ہونا چاہیے۔ سو، ہم آپ کی طرف سے جرمانہ وصولی کے منتظر رہیں گے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: یہ جو اتنےعرصے سے ہم آپ کے خطوط ری رائٹ کرکےشائع کیےجارہے ہیں، تو بغیر کسی جُرم کےمسلسل جرمانے ہی بَھر رہے ہیں، اب اور آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔
سارا کچا چٹّھا کھول کے رکھ دیا
تازہ سنڈے میگزین کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصص القرآن‘‘ سے مستفید ہوئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں صادق آباد سے اقصٰی منور ملک نے نبی کریم محمّدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیّبہ پر بہت ہی خُوب صُورت مضمون تحریر کیا، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رئوف ظفر نے ’’ریل، کیسے ہوئی ڈی ریل‘‘ میں تو سارا کچا چٹّھا ہی کھول کے ہمارے سامنے رکھ دیا۔بلاشبہ، بہت ہی اچھااوربہت تفصیلی مضمون تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں اسماء صدیقہ کی کہانی ’’مداوا‘‘ پسند آئی اوربھارت سے ذکی طارق بارہ بنکوی کی نعتِ رسولﷺ پڑھ کےتو دل بہت ہی خُوش ہوا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
قیمتی دستاویز سے کم نہیں!!
خط ایک قیمتی سرمایہ ہے، خط ایک اثاثہ ہے، ہر خط ایک مجلّہ، ایک دستاویز ہے۔ کیوں کہ ہر خط کی تحریر کسی قیمتی دستاویز سے کم نہیں ہوتی۔ قارئین کی خط و کتابت کا یہ سلسلہ رواں دواں ہی رہنا چاہیے کہ اِسی کی بدولت ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سارا سال بہار چھائی رہتی ہے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
ج: اچھا جی، آپ کہہ رہے ہیں، تو پھرٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
اسیرانِ محفل کومحبّت بَھرا آداب! اُمید ہے، سب خیر وعافیت سے ہوں گے۔ ہفتے کے اخبار میں میگزین کا اشتہاردیکھ کرایک عجیب سی خُوشی محسوس ہوتی تھی اوراوپرسےیہ جملہ کہ ’’فلاں تاریخ کامیگزین لینا نہ بھولیے گا۔‘‘ پڑھ کرہمیشہ مُسکرا دیتے تھے کہ ہم بھلا میگزین لینا کیسے بھول سکتے ہیں، لیکن اب چند ہفتوں سے یہ اشتہار بھی پڑھنے کو نہیں مل رہا۔ خیر تو ہے، بند کر دیا یا مستقلاً ختم کردیا۔ ربیع الاوّل کی پُرنور، بابرکت ساعتوں میں 24 ستمبر کا شمارہ جلوہ افروزہوا۔
مسجدِ نبویﷺ کےسبزگبند، مقدّس میناروں اور دل کش رنگ سے سجا پُروقار سرِورق دِل میں اُتر گیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّۂ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس‘‘ پر خُوب صُورت، دل نشین و نفیس طبع آزمائی دل چُھوگئی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں خاتم النبیین، رحمتہ اللعالمین، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پرمعتبر اورمستند تحریرنےایمان کو روحانیت سے منوّر کیا۔ رائومحمّد شاہد اقبال نے پاک فوج کے ناقابلِ فراموش ریسکیومشنزپراحسن اندازسےقلم کشائی کی۔ پاک فوج کی عظمت و بلندی اور سرفرازی کی یہ داستان بھی پاک فوج کی شان میں اضافے کا سبب بنی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں دل کی صحت سے متعلق مفید معلومات فراہم کی گئیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں بھارت، امریکا کی نئی تجارتی راہ داری کا تذکرہ تھا۔
ایران، سعودی عرب اتحاد کے بعد اب اِن دونوں ممالک کی شراکت داری واقعی پاکستان کے لیے باعثِ تشویش امرہے کہ سی پیک کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی کچھ اتنی مضبوط نہیں۔ ’’سفرِوسط ایشیا‘‘ پر عبدالستار عباسی کی خُوب صُورت کاوش نےخوب دادِتحسین سمیٹی۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پرڈاکٹر صاحب سرورِ کونین، شافع محشر، وجہِ تخلیقِ کائنات، حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور حیاتِ مبارکہ پر عقیدت و محبّت کے پھول نچھاور کررہے تھے۔ تحریر نے دل و دماغ معطّر ساکرڈالا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کے صفحات ریلوے کی عروج و زوال کی داستان سےسجےتھے۔ رئوف ظفرنےسیر حاصل اورمفصّل تحریرسےدل افسردہ کردیا۔
اتنی زبوں حالی، مگرحُکم رانوں کا وہی راگ کہ ’’ریلوے بہتری کی طرف گام زن ہے۔‘‘ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحریر ’’مداوا‘‘ نے سادگی اور وفا کا خُوب درس دیا۔ ’’پیارا گھر‘‘، ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اور’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے صفحات کی خاصی کمی محسوس ہوئی۔ منہگائی اور مُلک کے معاشی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے، تو دُور دُور تک کسی نئے صفحے کے اجراء، میرا مطلب ہے کسی نئے ناول کے آغاز کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔ پھر بھی آپ کوشش کریں، کم ازکم عرفان جاوید ہی کا کوئی نیا سلسلہ شروع ہوجائے۔ عین نوازش ہوگی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی پُربہاررونقیں اپنےعروج پر ہیں اورجگ مگ جگ مگ کرتے نامے چہار سُو محوِ رقص ہیں۔ (ملک محمّد رضوان، محلہ نشیمنِ اقباِل، واپڈ ٹائون، لاہور)
ج: عرفان جاوید کا کوئی نیا سلسلہ نہ سہی، امجد اسلام امجد سے متعلق ایک طویل تحریر تو گزشتہ دِنوں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کی ہے اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی اشاعت کی اطلاع دینے والا اعلان بھی ڈیلی اخبار کےصفحات کی تعداد میں کمی کی نذر ہوچُکا ہے۔ اگر کبھی صفحات کی تعداد میں اضافے کی کوئی صُورت بن گئی، تواعلان کی دوبارہ اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گا۔
گوشہ برقی خطوط
* ’’اردو یونی ورسٹی‘‘ کے حوالے سے میگزین میں تحریر پڑھی۔ یہ معاملات اتنے بھی سادہ نہیں کہ یہ یک طرفہ موقف ہے۔ عبدالحق کیمپس میں سوائے سیاست کے کچھ نہیں ہوتا۔ جس سلیکشن بورڈ کو انہوں نے متنازع بنانے کی کوشش کی، اُس کی کہانی بالکل الگ ہے۔
انٹرویوز کے وقت ایچ ایس سی کے نمائندے سلیکشن بورڈ میں شامل تھے۔2017ء میں اشتہار آیا اورکہیں 2021ء میں جا کے ٹیسٹ، انٹرویوز ہوئےاوراس عمل کو بھی متنازع اِس لیے بنایا گیا، کیوں کہ بہت سے وہ افراد، جووہاں پڑھاتے رہے، ٹیسٹ ہی پاس نہ کرسکے اور پھر تو جو طوفان اُٹھا، الامان الحفیظ، بہرحال، سازشوں کے باوجود ٹیسٹ، انٹرویوز پاس کرنے والوں کو ڈھائی سال بعد لیٹرز ایشو کردیئے گئے، جس پر انجمنِ اساتذہ سخت سیخ پا ہے۔ اِسی انجمن نے ایک بِل قومی اسمبلی سے منظورکروایا، جس کے تحت وفاقی وزیرِ تعلیم، رانا تنویر کو تمام اختیارات دینے کی بات کی گئی۔
مگر آخری دِنوں میں رانا تنویر کی تمام کوششوں کے باوجود بل سینیٹ سےمسترد ہوا اورپھر رانا صاحب کو تمام ارکان نے تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن یہ سینئر اساتذہ صرف سازشوں میں مصروف ہیں۔ کلاسز لینا اِن کی شان کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر عرفان عزیز کی رائے سر آنکھوں پر،مگرآپ سے درخواست ہے کہ جامعہ کے پی آر او یا نمائندے سے بھی ضرور بات کیجیے اوریہ بھی درخواست ہے کہ پلیز،میرانام ظاہر نہ کیجیے گاکہ مَیں بہرحال، سینئر اساتذہ کی اِس لڑائی کا حصّہ نہیں بننا چاہتی۔ کیوں کہ یہ کسی کے بھی مستقبل سے کھیل سکتے ہیں۔ ( برقی نامہ نگار کی درخواست کے سبب نام شایع نہیں کیا جا رہا)
ج: ڈاکٹر عرفان عزیز کا مضمون ہمیں بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ انجمنِ اساتذہ کے جنرل سیکریٹری اورسینئراستاد ہونے کے باعث اُن کا جامعہ سے متعلق موقف اہمیت کا حامل تھا، خصوصاً اس تناظر میں کہ جامعہ کی بد انتظامیوں اور بدعنوانیوں کی شکایات پچھلے کافی عرصےسے خبارات میں بھی مسلسل شایع ہورہی ہیں۔ بہرکیف، جنگ’’سنڈے میگزین‘‘ کے یہ صفحات کسی دوسرے موقف کے لیے بھی اُسی طرح حاضر ہیں۔ آپ یا جامعہ کا کوئی اور نمائندہ شایع شدہ تحریر سے کسی بھی نوعیت کا اختلاف رکھتا ہو، اپنا موقف ہمیں لکھ کے بھیج سکتا ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk