تم نہ آئے تو کوئی بات نہیں
زندگی یوں بھی گزر جائے گی
رات کی بات بھلا کون کرے
رات آئی بھی ،تو کر دے گی تنہا مُجھ کو
اپنی تنہائی میں کب سوچا ہے خود کو مَیں نے
آسماں آج ستاروں سے روشن کیوں ہے؟
کون آیا ہے سرِ بام ابھی
راستے آج بھی ڈوبے ہیںاسی مایوسی میں
ایسی مایوسی کہ نکلیں تو بھلا کیسے نکلیں
زندگی زہر کا ہے اِک جام بھرا
اس کو جی لیں، تو بھلا کیسے جی لیں
اب کوئی سحر کسی ماتھے پہ نہ نظر آئی تو
اپنے ہاتھوں سے اُسے چوم کے جانے دوں گا
رات کی بات ہی کیا، رات کو آنے دوں گا
ایسی تاریکی جسے اوڑھ کے سو جائوں تو
درد سینے میں چھپا کر مَیں تو
دُور کہیں دُور نکل جائوں گا
ایک نشہ جو اترتا ہے رگ و پے میں
ایسا نشہ کہ نہ رہا ہوش بھی اپنا مجھ کو
زندگی گھومتی، چکراتی بل کھاتی ہے میرے اندر
اور مَیں اُس کو سمجھ پایا نہیں
اور سمجھ پاؤں اسے
کیا کسی درد کا ہو جائے مداوا اس سے
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں