ہالینڈ میں گیرٹ ولڈرز کی ’’فریڈم پارٹی‘‘ کی کام یابی نے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کے سیاسی منظرنامے میں ہل چل مچادی ہے۔ ولڈرز تارکینِ وطن اور مسلمانوں سے متعلق اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے بدنام ہیں، اُنھوں نے اِنہی نظریات کی بنیاد پر انتخابات میں حصّہ لیا اور کام یاب رہے۔ گو کہ فریڈم پارٹی واضح اکثریت تو حاصل نہ کرسکی، تاہم وہ150 کے ہاؤس میں39 نشستیں لےکرسب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی ہے۔ ولڈرز نے اِس یقین کا اظہارکیا ہےکہ وہ اتحادی حکومت بنانے میں کام یاب رہیں گے۔ ٍ
ہم پہلے بھی یورپ اور مغربی دنیا میں قوم پرستی کی لہر سے متعلق لکھتے رہے ہیں، جس کی بنیاد تارکینِ وطن کی مخالفت اور مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ اِسی لیے ولڈرز کی جیت پر یورپ کے قوم پرست رہنماؤں نے خوشیاں منائیں۔ اِس جیت سےاُنھیں یہ اعتماد ملا کہ یورپ میں اُن کےنظریات کو پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ جیسے ہنگری، اٹلی اور فرانس میں دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جس کے سبب تارکینِ وطن، خاص طور پر وہاں آباد مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
فرانس میں حجاب پر پابندی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ولڈرز نے جیت کےبعد اپنے انتہاپسندانہ خیالات کومعتدل شکل دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اِن معاملات پربعد میں غور کیاجاسکتا ہے، فوری طور پر معاشی مسائل پر توجّہ دیں گے، کیوں کہ ہالینڈ کے عام آدمی کی مشکلات میں گزشتہ سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں ہر چیز منہگی ہوئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے، جب ولڈرز نے یہ نعرہ لگایا کہ ’’ڈچ عوام کی خوش حالی ہی کو اوّلیت ملنی چاہیے‘‘ تو عوام میں اُن کی پذیرائی بڑھی۔
یہی صورتِ حال اُن تمام مغربی ممالک کی ہے، جہاں گزشتہ سالوں میں معاشی آزمائشیں بڑھیں اورمنہگائی نے عوام کا معیارِ زندگی متاثر کیا، لیکن اِس کی وجوہ جو بھی ہوں، وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا اِس پیش رفت پر غورکرے، کیوں کہ مسلم ممالک سے یورپ جا کر آباد ہونے کے مواقع گھٹتے جارہے ہیں، بلکہ اُنھیں واضح اور کُھلے الفاظ میں پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’اب اُن کی آمد ناپسندیدہ ہے۔‘‘
ہالینڈ کو سرکاری طور پر’’نیدرلینڈز‘‘کہا جاتا ہے، جب کہ اس کے مقامی باسی’’ ڈچ‘‘ کہلاتے ہیں اور زبان بھی ڈچ ہی کہلاتی ہے۔ ہالینڈ، درحقیقت آج صرف نیدرلینڈز کے دو صوبوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ نیدر لینڈز شمالی غربی یورپ میں واقع ہے اور اس کی آبادی ایک کروڑ ستّر لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ یورپی یونین کے بانی ارکان میں شامل ہے۔ اس کا دارالحکومت، ایمسٹرڈیم ہے، جب کہ ہیگ اس کا ایک اہم شہر ہے، جہاں بین الاقوامی عدالت بیٹھتی ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں بیلجیئم اور جرمنی سے ملتی ہیں، جب کہ نارتھ سی اس کی ساحلی سرحد ہے۔
اس کا سیاسی نظام پارلیمانی بادشاہت ہے۔ جب سولہویں صدی میں یورپ میں ترقّی کی لہر اُٹھی، تو ہالینڈ بھی اس کے سرکردہ اور طاقت وَرممالک میں شامل ہوا۔ اس کی کمپنیز نے بھی دنیا بَھر میں دیگر یورپی ممالک کی کی طرح نوآبادیات قائم کیں۔ کریبیئن سی میں تو اس کی نوآبادی اب تک موجود ہے۔ نوآبادیات سے لائی گئی دولت سے اس نے ترقّی کا زبردست دَور دیکھا۔ نیدر لینڈز دنیا بَھر میں اپنی خوراک اور زرعی مصنوعات کےسبب شہرت رکھتا ہے، یہ عالمی طور پر ان مصنوعات کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے۔
زراعت میں ترقّی کی وجہ یہاں کی انتہائی زرخیز زمین، معتدل موسم اور نئی نئی ایجادات پر مبنی ترقّیاتی منصوبے ہیں اور ان برآمدات ہی کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ سرمایہ کمانے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ نیدرلینڈز ایک عرصے سے یورپ کی سیاست اور طاقت میں اہم کردار ادا کرتا آرہا ہے، اِسی لیے حالیہ انتخابات میں قوم پرست، گیرٹ ولڈرز کی جیت نےیورپ بَھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ مُلک گزشتہ چھے سو سال سے یورپی سیاست میں اہم رہا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے فروغ میں اس کا اہم کردار تھا اور اپنی نوآبادت پر تسلّط رکھنے کے لیے اس نے قوّت بھی حاصل کی۔ برطانیہ، فرانس، اسپین اور پرتگال کے ساتھ اس نے بھی ایسٹ انڈیا طرز کی کمپنیز قائم کیں اور نئے نئے علاقوں پرتسلّط جمایا۔
اِس طرح وہ یورپ کے طاقت وَر ممالک میں بھی شامل رہا اور اس کے بین الاقوامی اثرات بھی عالمی طور پر تسلیم کیے گئے۔ دوسری جنگِ عظیم کےبعد جب نوآبادیاتی نظام بکھرنے لگا، تو نیدرلینڈز کی بہت سی نوآبادیات نے بھی آزادی حاصل کی، لیکن کریبیئن جزائر میں وہ آج تک اپنی نوآبایات قائم رکھنے میں کام یاب ہے۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد جب یورپ میں جنگ کے خلاف امن اور اتحاد کے نظریے نے فروغ پایا، تو یہ اُس میں آگے آگے رہا، اِسی لیے یورپی یونین کے قیام میں اس نے سرگرم کردار ادا کیا، لیکن اب اسے یورپی یونین سے بہت سی شکایات پیداہوگئی ہیں۔
گیرٹ ولڈرز نے بھی دیگر قوم پرست یورپی رہنماؤں کی طرح اپنے منشور میں ہالینڈ کی یورپی یونین سے علیٰحدگی کے لیے ریفرنڈم بھی شامل کیا، جسے نیدر لینڈز کی مناسبت سے نیکسٹ کہا جا رہا ہے۔ ولڈرز کا کہنا ہے کہ وہ نیدر لینڈ کی سابقہ شان بحال اور اس کے قومی تشخّص کو مستحکم کریں گے۔ یہی وہ دو چیزیں ہیں، جو یورپ میں حالیہ قوم پرستی کی بنیاد بنیں۔ یورپی قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ ’’تارکینِ وطن نے اُن کے ممالک میں آکر اپنا تشخّص اجاگر کیا، جس سے مقامی کلچرتباہ ہوا اور قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا، اِس لیے ضروری ہے کہ تارکینِ وطن کی آبادکاری روکی جائے۔‘‘ ولڈرز کا کہنا ہے کہ ’’تارکینِ وطن کےسونامی کےآگےبند باندھیں گے۔‘‘
مسلمانوں کی روایات، رہن سہن اور کھانا پینے کے معاملات یورپی کلچر سے مختلف ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت کے بیانیے نے اِسی سے جنم لیا ہے۔ مسلم خواتین کے حجاب پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے، حالاں کہ دیکھا جائے تو تمام یورپی ممالک میں خواتین سردی کی وجہ سے سر کو ٹوپیوں اور مفلرز سے ڈھانپتی ہیں۔ لیکن پھر بھی فرانس اور کچھ دوسرے یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی عاید کردی گئی۔ یورپ میں تارکینِ وطن کا معاملہ دو وجوہ کی بناپرزیادہ توجّہ کا مرکز بنا۔
شام کی خانہ جنگی میں جس بڑے پیمانے پر شہری بےگھر ہوئے اور پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اُس نے شدید مسائل جنم دیئے۔ مسلم دنیا، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے یہ احساس نہیں کیا کہ اس دربدری کے نتائج کیا ہوں گے۔ بشار الاسد کی فوج نے اپنے ہی شہریوں پر وطن کے دروازے بندکردئیے۔ ہرروز سیکڑوں بےگناہ شہریوں کو ہلاک کیا جاتا، املاک تباہ ہوگئیں اور اُنھیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اِس بربادی میں روس اورایران بھی شامل تھے۔
دو کروڑ کی آبادی میں سے نصف مُلک ہی میں دربدر ہوئے یا سرحدوں کی طرف بھاگنےپرمجبور۔ متاثرین کی زیادہ تعداد تُرکی کی سرحد پر پناہ گزین ہوئی، جس سے وہاں کئی طرح کے سماجی اور معاشرتی مسائل جنم لینے لگے۔ اب شامی مہاجرین کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ وہ بحرِروم کے ذریعے یورپ پہنچ جائیں۔ شروع میں تو یورپ نے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر اُنہیں خوشی خوشی قبول کیا۔ جرمنی کی انجیلا مرکل نے دس لاکھ مہاجرین کو اپنے مُلک میں بسانے کی پیش کش کی۔
تاہم، بعد میں مہاجرین کا یہ سیلاب اُن یورپی ممالک پر دبائو کا سبب بن گیا اور یوں پناہ کے طالب بےگھرافراد ناقابلِ قبول ہوتے چلےگئے۔ یہ صُورتِ حال یورپی قوم پرستوں کے لیے سیاسی بیانیہ بن گئی، جس کا وہ اپنی جوشیلی تقاریر کے ذریعےپرچار کرتے ہیں۔ ان مسلمان مہاجرین کو معاشی اور سماجی مسائل کا ذمّےدار ٹھہرایا گیا۔ کل تک جو انسانی ہم دردی کی وجہ سے مہمان تھے، اب بَلائے جان سمجھے جانےلگے۔
گیرٹ ولڈرز، فرانس کی لی پین، جرمنی، ہنگری اور اٹلی کے قوم پرست اِسی مقبولِ عام لہر پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ تمام تر یورپیئن، تارکینِ وطن اورمسلمانوں سےنفرت کرتے ہیں، بلکہ زیادہ تر لوگ انتہا پسند لیڈرز اور اُن کے نظریات سے شدید اختلاف رکھتے ہیں، لیکن جیسے جیسے قوم پرستوں کے ووٹس بڑھ رہے ہیں، اُن کے مخالفین کی انتخابی سیاست سمٹ رہی ہے۔
تارکینِ وطن اور مسلم مخالف جماعتوں کو جس طرح یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے، مسلم دنیا کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر دنیا کے حالیہ بڑے بڑے تنازعات پر نظر ڈالی جائے، تو ان میں سے بہت سے مسلم ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تنازعات دو اقسام کے ہیں۔ ایک تو وہ جو مسلم ممالک کے اندرونی معاملات ہیں۔ یہ اپنا سیاسی اور قیادتی نظام صحیح طورپرچلا نہیں پاتے اور اُن کے حُکم ران، عوام کے اصل مسائل پر، جن کا تعلق معیشت اور شفّاف گورنینس سے ہے، توجّہ نہیں دیتے، جس سے عوام میں بے چینی پھیلتی ہے۔
گزشتہ صدی میں آزاد ہونے والے زیادہ تر مسلم ممالک نے کوئی قابلِ رشک ترقّی نہیں کی، بلکہ وہ اب تک پس ماندہ ہی شمار ہوتے ہیں، کیوں کہ اُن کی قیادت معاشی معاملات سے بےبہرہ ہے اور اُن کا فوکس عوام کے جذبات اُبھارنے ہی پر ہے، تاکہ اُن کا اقتدار قائم رہے۔ عوام احتجاج کرتے ہیں، تو معاملات جمہوری طریقوں سے حل کرنے کی بجائے اُن کے خلاف قوّت استعمال کی جاتی ہے، جس سے خانہ جنگی کی صُورت پیدا ہوجاتی ہے۔
شام، یمن، لبنان، لیبیا، سوڈان اور افغانستان اس کی مثالیں ہیں، جہاں کی خانہ جنگیوں میں ہزاروں شہری ہلاک اور لاکھوں بےگھر ہوئے۔ اردگرد کے مسلم ممالک، مسائل کےحل میں مدد فراہم کرنے کی بجائے ان ممالک کی قیادت کے حمایتی یا مخالف بن کر سامنے آتے ہیں، بلکہ بہت سے ممالک مسلّح گروہوں کے ذریعے عدم استحکام کےشکارممالک کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ گویا وہ تنازعات حل کرنے کی طرف توجّہ نہیں دیتے، بلکہ انتشار کو اپنے مقاصد کے لیےاستعمال کرتے ہیں اور ان ہی عدم استحکام سے دوچار ممالک کے باشندے عموماً غیرقانونی تارکینِ وطن کی شکل میں یورپ یامغربی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ اب یہ انسانی اسمگلنگ باقاعدہ ایک کاروبار بن چُکی ہے، جس کے اڈّے افریقا کے ساحلی شہروں میں خُوب پَھل پُھول رہے ہیں۔ یہ ممالک ان اسمگلرز کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کرتے، اِسی لیے ان تارکینِ وطن کی آمد کو غیرقانونی اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ بہرکیف،اِن معاملات پر فوری توجّہ کی ضرورت ہے اور اِنہیں بیرونی سازش قرار دے کر مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ او آئی سی جیسے مشترکہ فورم پر ایسے معاملات کے حل کی کوشش کی جانی چاہیے۔ مسلم ممالک کے تارکینِ وطن یا عوام کی دنیا بَھر میں عزّت ہونی چاہیے، نہ کہ وہ اُن ممالک کے انتخابات میں قابلِ نفرت ٹھہرائے جائیں۔ اس معاملے کو مفروضوں سے جوڑنے کی بجائے وسیع تر تناظر میں غور کر کے کوئی لائحۂ عمل اختیار کرنا ہوگا اور اِس ضمن میں مغربی ممالک سے مسلسل بات چیت کے ساتھ وہاں کے قوم پرست رہنماؤں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔
وہ تارکینِ وطن، جن کی دوسری یا تیسری نسلیں وہاں کی باسی ہوچُکی ہیں، اُنھیں اپنے معاملات پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔ پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہے کہ جب نوآبادیات ختم ہوئیں اوراُن ممالک نےاپنی نوآبادیوں کے شہریوں کو اپنے ہاں جگہ دی، تو اُس وقت اُن کی سوچ کچھ اور تھی، مگر اب اُن کی رائے کافی بدل چُکی ہے۔ نوآبادیاں ختم ہوئے75 سال گزر چُکے اور حُکم ران ممالک میں چَھٹی نسل جوان ہوچُکی ہے، جو اپنےماضی واقف ہے اور نہ ہی اُسے اس سے کوئی دل چسپی ہے۔
نیز، نئی نسل کو نوآبادیاتی ممالک کے باشندوں سے کوئی ہم دردی بھی نہیں۔ پھر یہ کہ جو تارکینِ وطن وہاں جارہے ہیں، اُنھیں کوئی زور زبردستی سے تو نہیں لے جا رہا، بلکہ وہ خوش حال زندگی کے سہانے خوابوں کی تعبیر کے لیے وہاں گئے یا جا رہے ہیں۔ یہ اب اُن ممالک کے اصل شہری ہیں، خاص طور پر اُن کی دوسری اور تیسری نسلیں تو وہاں کی مستقل باسی ہیں۔ اُنہیں ان ممالک کے سماجی اور معاشرتی حالات سمجھ کراپنا مسلم تشخّص برقرار رکھنے کی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔
علاوہ ازیں، اُنھیں اس امر کابھی اندازہ ہونا چاہیےکہ وہ ریلیوں یا مظاہروں سے وقتی میڈیا کوریج توحاصل کرسکتے ہیں، لیکن اِس طرح ان مسائل کا کوئی دیرپا حل نہیں نکالا جاسکتا۔ اُنہیں مقامی اوراکثریتی آبادی سے الگ تھلگ رہ کر کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کا اندازہ اُنھیں اب نیدرلینڈزاوردیگر ممالک میں قوم پرست جماعتوں کی فتح سے ہوجانا چاہیے۔