مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
والدین تو سب ہی پیارے، محترم اور شفیق ہوتے ہیں، لیکن کچھ والدین بہت ہی خاص ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت کی ذمّے داری نبھاتے ہیں، بلکہ اپنی اولاد کے بہترین مستقبل کے لیے اپنی پوری زندگی تیاگ دیتے ہیں۔ ان کی ہر چھوٹی، بڑی تکلیف پرپریشان ہوتے، ساتھ دیتے ہیں اور اُن کے لڑکھراتے قدموں کو صرف بچپن ہی میں سنبھالا نہیں دیتے، بلکہ جوانی اورپیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے تک، اُن کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
اولاد کے بہتر مستقبل کی منزل تک کا یہ سفر آسان نہیں ہوتاکہ اس میں برسوں کی محنت،جدوجہد، لگن ا ور کوششوں کا نچوڑ شامل ہوتا ہے۔ اورمیرے بہت ہی پیارے امّی، ابّو کا شمار بھی کچھ ایسے ہی خاص والدین میں ہوتا ہے کہ جو اپنی اولاد کے لیے تَن مَن دھَن وارنے سے دریغ نہیں کرتے۔ زندگی میں آگے بڑھنے، کچھ کر گزرنے کی سوچ میرے ابّو محمد عابد کو ایک چھوٹے سے شہر بہاول پور سے ایک بڑے شہر لاہور لے آئی۔ اوریوں1980ء میں لاہور کے ایک مشہورعلاقے، جی او آرون کی ایک عام سی ملازمت سے ایس اینڈ جی اے ڈی سیکریٹریٹ میں افسر بننے کے طویل سفر کا آغاز ہوگیا۔
اس سفر میں میری پیاری امّی نے ہر موقعے، ہر موڑ پران کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنے فرائض بھی بخوبی انجام دیئے۔ ابّو نے جہاں ہم بہن، بھائیوں کی تعلیم کی ذمّے داری کے ساتھ ایک اچھی زندگی دینے کا بیڑا اٹھایا، وہیں ہماری امّی نے بھی گھر کے انتظام و انصرام کے ساتھ ہماری اچھی تربیت کے امور نہایت سلیقے اور منّظم انداز سے انجام دیئے۔ غرض یہ کہ دونوں نے انتہائی کٹھن حالات میں اپنی جوانی کے حسین، قیمتی برس گویا چولھے میں جھونک کر ہم پانچوں بہن، بھائیوں کو پروان چڑھایا۔
میرے ابّو جی او آرکی ایک بڑی سی کوٹھی میں نائب قاصد کے طور پر ملازم ہوئے۔ ویسے انھیں کھانے پکانے کا شوق تھا اور اُن کے ہاتھ میں ذائقہ بھی خُوب تھا۔بہرحال کوٹھی کے احاطے ہی میں ہماری رہائش کا بندوبست کردیا گیا ۔یوں نئے شہر میں زندگی کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ابّو کا آگے بڑھنے کا شوق ، اُن کی ایمان داری، تحمّل مزاجی اور محنتی طبیعت کو مالکوں نے بھی بھانپ لیا تھا، اس لیے ابّو پر اُن کا اچھاخاصا ا عتبار قائم ہوگیا۔ یہ حیران کُن بات ہی تھی کہ ایک آٹھ جماعت پاس نائب قاصد نے اُن کے گھر کا پورا انتظام بے حد منظم انداز سے سنبھال لیا تھا۔ابّو کو وہاں نوکری کرتے چند سال ہی ہوئے تھےکہ ہماری دادی نے ان کے لیے ایک لڑکی پسند کرلی۔ رشتہ پکّا ہوا اور ابّو بہاول پور سے امّی کوبیاہ لے گئے۔
کوٹھی کے مالکان اچھے لوگ تھے، انھوں نے امّی کو خلوصِ دل سے خوش آمدید کہا۔ ابّو اورامّی دونوں کے ساتھ مالکان اور باقی اسٹاف کا رویّہ بہت مہربان تھا۔اس دوران اللہ تعالیٰ نے امّی ابّوکو اولاد کی دولت سے نوازا اور میری بڑی بہن اس دنیا میں آئی۔دونوں اللہ کی اس رحمت پر بہت خوش تھے،پھر سوا سال بعد مَیں پیدا ہوئی۔ ابّو نے محنت و مشقّت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اورمیٹرک پاس کرتے ہی انھیں بہ طور کلرک پکّی سرکاری نوکری مل گئی۔
امّی ابّو اللہ کے بہت شُکر گزار تھے۔ابّو نے جس ترقی کا خواب دیکھ کر اپنا شہر چھوڑاتھا،حقیقت بنتا جارہا تھا۔ابّو کی نیک نیتّی اور محنت و لگن کی اُن کے افسران بھی تعریف کرتے۔ کچھ عرصے بعد ابّو کو سرکاری کالونی میں کوارٹر الاٹ ہوا، تو فیملی سمیت وہاں شفٹ ہوگئے۔ چند سالوں میں اللہ نے اُنھیں دو بیٹے بھی عطا کردیئے۔ فیملی بڑھنے اور وسائل کم ہوجانے جب تن خواہ میں گزارہ مشکل ہونے لگا، توابّو نے کاروبار کا ارادہ کیا اور مناسب جگہ تلاش کرکے کھانے پکانے اورفوڈ ڈیلیوری کے کام کا آغاز کردیا۔
ابّوآفس جانے سے پہلے صبح سویرے کھانا خود پہنچانے جاتے اور پھر واپسی پر دکان سے چکّر لگاتے۔ شمع موڑ کے سری پائے، بونگ اور چنوں کا ذائقہ عوام کے دلوں کو بھانے لگا اور بزنس میں بہتری آتی چلی گئی۔ اس کاروبارہی کی وجہ سے ہم بہن بھائیوں کی اسکول سے لے کریونی ورسٹی تک کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا ابّو کے لیے ممکن ہوسکا۔ آفس سے آتے ہی وہ کچن میں کھانے پکانے کے کاموں میں لگ جاتے۔ امّی بھی گھر کےکام کاج کے ساتھ ابو کا مسلسل ہاتھ بٹاتی رہتیں۔
غرض یہ کہ میرے امّی، ابّو نے اپنا آرام، نیند، سُکھ چین سب قربان کرنے ہمارے لیے ایک بہتر مستقبل کی راہ ہم وار کی۔ یہاں تک کہ وہ دونوں خود صحت کے مسائل سے دوچارہوگئے۔ امّی کو شوگر اور ابو کو شوگرکے ساتھ عارضۂ قلب لاحق ہوگیا، مگر انھوں نے ہر معاملے میں اللہ کی مدد طلب کی اور ثابت قدم رہے۔
ہم سب کی شادیوں کے فرائض سے ماشاء اللہ بخوبی سبک دوش ہونے کے بعد اپنا ذاتی گھر بھی بناچکے ہیں اور اب الحمدللہ، ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھی، پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے ہم سب بھائی بہنوں کو ایک اچھی زندگی دینے میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔ ہمیشہ حلال روزی کمائی اور ہم سب کو رزقِ حلال کھلایا۔ میری اپنے ربّ سے دُعا ہے کہ میرے پیارے امّی ابّو کو اچھی صحت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے اورہم سب بھائی بہنوں کو اپنے والدین کے اطاعت گزار، فرماں برداررہنے کی توفیق عطا ہو۔ ( شائستہ عابد،لاہور)