• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں، دادوں، نانوں، دادیوں، نانیوں، مائوں باپوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔ آج ان سے ایکسپو سینٹر حسن اسکوائر میں نئی پرانی کتابوں کی خوشبوئوں کے درمیان ملاقات ہوگی۔ صرف کراچی کی حدود سے ہی نہیں حب، لسبیلہ، ٹھٹھہ، حیدر آباد، بدین، میرپور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ، کندھ کوٹ، دادو سے بھی اہل حرف و دانش کشاں کشاں اس میلے میں پہنچیں گے۔ پبلشرز، بک سیلرز ایسوسی ایشن کو بھی سلام کہ وہ افراط زر سے گھبرائی نہ روپے کی گرتی قدر سے۔ دسمبر میں میلے کی رسم پوری کی ہے۔ کتابیں دلہنوں کی طرح سجا سنوار کر لائی جاتی ہیں۔ انہیں سیج پر آراستہ کیا جاتا ہے۔ پھر دلہنیا لے جانے والے انہیں اپنے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ ان گھروں میں کتنی روشنی پھیلتی ہے۔ کتنی خوشبوئیں بکھرتی ہیں۔ ذہن و دل مہکتے ہیں تو یقیناً عزیز خالد کو بھی دلی تسکین ہوتی ہے۔ وقار کو بھی، اقبال صالح کو بھی،اصغر زیدی کو بھی۔ سال بھر اس تہوار کیلئے رتجگے کیے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے رابطے۔

یہ مناظر ہم سب مصنّفوں، ادیبوں، شاعروں، ناول نگاروں، افسانہ نویسوں، بچوں کیلئے کہانیاں لکھنے والوں کا سیروں خون بڑھادیتے ہیں۔ جب ماں باپ اپنے بچوں کی انگلیاں پکڑے مختلف ہالوں میں داخل ہورہے ہوتے ہیں۔ بزرگ وہیل چیئرز پر کتاب کے لمس کیلئے بے تاب ہوتے ہیں۔ میرے مسلم، غیر مسلم ہم وطنوں کے ہجوم ان سارے جائزوں کو غلط ثابت کررہے ہوتےہیں جو پاکستان میں کتاب پڑھنے کے بارے میں مایوس کن دیے جاتے ہیں۔ جہل کے لشکروں کو پسپا کررہے ہوتے ہیں۔ جاگیردارانہ گرفت کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ سرداری کلچر کے پرخچے اڑارہے ہوتے ہیں۔ اسکولوں کے بچے بچیاں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں تینوں ہالوں میں دھوم مچاتے ہیں۔ کتابوں کے ورق الٹتے ہیں۔ عمر کے پہلے حصّے میں بھی کتاب سے رشتہ استوار ہورہا ہوتا ہے۔ ہم جیسے کئی بہاریں کئی خزائیں دیکھنے والے عمر کے آخری حصّے میں کتابوں سے برسوں پرانے تعلق کی تجدید کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم جنہوں نے آنہ لائبریریاں دیکھیں، خود بھی کھولیں اور اب وہ کتاب کلچر کے ساتھ ساتھ ’’اسکرین کلچر‘‘ دیکھ رہے ہیں۔ اسمارٹ موبائیل اور بانکی کتاب کے مقابلے مشاہدہ کررہے ہیں وہ اس میچ میں کتابوں کا اسکور بڑھتا پاکر خوش ہوتے ہیں۔

یہ خطّہ اب جہاں پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے تو اس کا پانچ سے دس ہزار سالہ ثقافتی علمی اور تحقیقی تسلسل ہی اس کی طاقت بنا ہوا ہے۔ ورنہ مختلف مافیائوں نے تو اسے اپنی اساس، اپنے تمدن، اپنی کتابوں سے دور رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہاں ہر قسم کے کارخانے کھل گئے، ٹیکسٹائل، دوائوں، گھی، اسٹیل، کھاد، فرنیچر کے۔ لیکن کاغذ کے جتنے کارخانوں کی ضرورت تھی وہ کھلنے نہیں دیے گئے۔ اخبارات، رسائل، کتابیں خاص طور پر درسی کتابوں کی لاکھوں میں مانگ رہی ہے۔ جو دو تین کارخانے ہیں۔ وہ معیاری کاغذ نہیں بناتے۔ کاغذ دور دراز کے ملکوں سے درآمد ہوتا ہے۔ پاکستان کا ماضی ادب، ثقافت، تصوف سے مالا مال ہے۔ ایسے معاشرے میں اگر ہر بڑے شہر میں کاغذ کے کارخانے ہوتے تو ہمارا شعور اور دلیل زیادہ علاقے کا احاطہ کرسکتے تھے۔

پاکستان میں اُردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، ہندکو، بلوچی،براہوی سمیت70 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے اکثر میں اخبار، رسالے، کتابیں بھی چھپ رہی ہیں۔ اب یہی دل نشیں زبانیں اسکرین پر بھی جلوہ گر ہیں تاہم حرف اب بھی حضرت انسان کی امتیازی شناخت ہے۔آج سے 18 دسمبر تک ان تین ہالوں میں تہذیب مختلف اسٹالوں میں جلوہ گر ہو گی۔ تمدن آپ کو گلے لگائے گا۔ شائستگی آپ کو تدبر دلائے گی کہ آپ کس گردُوں کے ٹوٹے ہوئے تارے ہیں۔ قرآنِ مجید کے مختلف انداز، مختلف سائز آپ کی عقیدتوں کو متحرک کریں گے۔ دینی کتابیں آپ کے خشوع و خضوع کا مرکز بنیں گی۔ پھر دنیا بھر کی معلومات رکھنے والی عربی، انگریزی، اُردو، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، تصانیف آپ کے ساتھ آپ کے گھر جانے کو بے تاب ہوں گی۔

آپ اگر ناولوں کے رسیا ہیں تو نئے نئے سیاسی، سماجی، رومانی، جاسوسی، تاریخی ناول بھی آپ کے منتظر ہوں گے۔ آپ اگر حقیقت سے زیادہ فسانے کی جستجو میں سرگرداں ہیں۔ تو اُردو افسانے۔ دوسری زبانوں کی اُردو میں ترجمہ شدہ کہانیاں بھی مختلف اسٹالوں پر آپ کی راہ تک رہی ہوں گی۔ صوفیائے کرام کا کلام آپ کا سینہ گرماتا ہے۔ تو ان ساری محترم مقتدر ہستیوں کے کلام ان کی اپنی زبان میں بھی۔ اُردو میں بھی دستیاب ہوں گی۔ لائبریریوں والے بھی یہاں سے کتابیں سمیٹنے آئیں گے۔ بچوں کے لیے بھی ہر نوع کی دلچسپ کتابیں مختلف اسٹالوں پر کلکاریاں کررہی ہوں گی۔

ہم اس وقت جس نفسیاتی تذبذب، اعصاب شکن وحشت، لامتناہی بے یقینی میں مبتلا ہیں۔ آپ کے ذہن پر جو اندھیرے مسلط ہیں۔ ان کے چھٹنے کے سامان بھی یہاں بہم ہیں۔ ہم جس بد زبانی اور بد اخلاقی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے اثرات محو کرنے کیلئے بھی یہاں محققین کی برسوں کی ریاضتیں موجود ہیں۔

بین الاقوامی سروےہے کہ صرف 27 فی صد پاکستانی کتابیں پڑھتے ہیں۔ آئیے ان جائزوں کو غلط ثابت کردیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ مرد 31 فی صد پڑھتے ہیں۔ عورتیں 23فی صد۔ ہم اپنی مائوں بہنوں بیٹیوں کو دعوت دیں گے کہ ان اعداد و شُمار کو باطل کرنے کیلئے جوق در جوق آئیں۔ امریکہ میں 100 میں سے 93نے 2022 میں سال میں ایک کتاب ضرور پڑھی ہے۔ برطانیہ میں پانچ میں سے دو ہفتے میں ایک بار کتاب کی ضرور ورق گردانی کرتے ہیں۔ آپ کو ضرور جوش آئے گا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہر ہفتے 10 گھنٹے 42منٹ کتاب کے ساتھ گزار رہا ہے۔ تھائی لینڈ میں 9گھنٹے 24منٹ، چین ہر ہفتے 8گھنٹے، مصر 7گھنٹے 30منٹ، یورپ کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں یہ شرح اور زیادہ ہے۔ جن ملکوں نے انٹرنیٹ اور اسکرین ایجاد کی ہے وہاں کتاب اب بھی پڑھی جا رہی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کو بہانہ بنایا جا رہا ہے، مصروفیات کو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ریاست، ہمارے حکمران طبقے، ہمارے مقتدر یہ چاہتے ہیں کہ ہم کتاب سے استفادہ کر کے ان کے غلط فیصلوں کو نہ للکار سکیں۔ اس لیے وہ ہمیں کتاب کے نزدیک نہیں آنے دیتے۔ وہ ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب سے خوفزدہ ہیں۔

آئیے۔ کتاب میلے میں ہم حرف کو اپنی طاقت بنائیں ۔کتاب کے سر چشمے اپنے پیاسے گھروں میں لے جائیں۔

تازہ ترین