• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو سرزمین بے آئین نہ بنایا جائے

جب سے آئین بنا ہے کسی نہ کسی انداز میں اس سے چھیڑ چھاڑ اور اس پر عملدرآمد نہ کرنے کا سلسلہ رک نہیں رہا، آج پورے ملک میں آئین کے مطابق مقررہ تاریخ پر انتخابات نہ ہونے کا وقت گزرنے کے باوجود 8فروری کو بھی مشکوک بنایا جا رہا ہے اور انتخابات آگے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، کیا ہم اسی طرح ملک کو غیر مرتب اور غیریقینی صورتحال سے دو چار کرتے رہیں گے؟ مقدمات کی تاریخ آگے پیچھے کی جاسکتی ہے مگر آئین کے مطابق مقررہ تاریخ کو نظر انداز کرنا پورے نظام کےساتھ ظلم ہے جو کہ ہم کر چکے ہیں اور 90 دن کے بجائے الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو تاریخ دے دی ہے تو اس میں بھی تاخیر ہمارے ریاستی ڈھانچے کو بہت کمزور کردے گی، اگر آئین کے ساتھ من مانی کی جاچکی ہے تو کم از کم آئین کے بجائے اپنی دی ہوئی تاریخ پر تو ثابت قدم رہنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے جو حتمی تاریخ دی ہے اس کی پاسداری کو ممکن بنانے کیلئے نگران وزیراعظم کو باقاعدہ قوم کو یقین دہانی کرانی چاہیے کہ سب معاملات موخر ہو سکتے انتخابات کی موجودہ دی ہوئی تاریخ میں کوئی رد و بدل نہیں کیا جاسکتا، اگر ہم اسی طرح آئینی معاملات کو بھی آگے پیچھے کرتے رہے تو ہمارا عالمی برادری میں کیا مقام رہ جائے گا، آج پاکستانی پاسپورٹ کا جو وقار ہے وہ ہماری بے ضابطگیوں کے باعث کیسے بحال ہوگا جو کلاس ہمارے حکمران پیدا کرتی ہے اس کی نظر میں آئین محض ایک کتابچہ ہے لاگو نہ کرنے کیلئے، جبکہ آئین کسی بھی قوم کی مقدس دستاویز ہوتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ 8 فروری کو صاف شفاف انتخابات کرائے جائیں، 76 برس ہم نے ترقی معکوس میں گزار دیئے اب بھی اگر ہم اپنے سیدھے سیدھے معاملات کو درست نہ کرسکے تو ہمیں خدا معاف کرے گا نہ قائد کی روح۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں، قدم آگے کی طرف درست سمت میں بڑھانا ہے۔

٭٭٭٭

300بار کشمیر کیلئے جنگ کا اعلان

ہمارے ہر دلعزیز نگران وزیراعظم نے آزاد کشمیر قانون سازی اسمبلی سے خطاب میں فرمایا کہ کشمیر کیلئے 300بار بھی جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے، اس سے پہلے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کہا تھا کہ بھارت سے کشمیر کیلئے ایک ہزار سال لڑیں گے۔ گزارش ہے کہ تین سو بار جنگ لڑنے کی بجائے اگر تین سو سال کا کہتے تو بہتر ہوتا تاہم نگران وزیر اعظم کے کشمیر کو آزادی دلانے کیلئے عزائم پختہ ہیں، 76 برسوں میں تو کشمیر حاصل نہ کرسکے 300بار جنگ لڑنے کے ارادے سے بھی اگر آزادیٔ کشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا تو منظر نامہ کیا ہوگا، بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ نگران وزیر اعظم نے کشمیر کے حق میں جو آواز بلند کی ہے وہ آنیوالے وزیراعظم کیلئے ایک چیلنج ثابت ہوگی وہ نہ صرف کشمیر بلکہ فلسطین کے حق میں بھی دو ریاستی حل کو ناگزیر سمجھتے ہیں، انہوں نے فلسطین سے متعلق قائداعظم کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ اختلاف کفر نہیں ان کی ایسی بڑی بڑی باتوں اور ثابت قدمی سے لگتا ہے کہ شاید انتخابات پیچھے تو نہیں آگے ہو جائیں، وہ ایک مستقل منتخب وزیراعظم کی طرح کام کر رہے ہیں ان کی حکمرانی کے اندر جیسی پختگی کا مظاہرہ انہوں نے کیا یہ اپنی جگہ ایک اہلیت ہے جو ان میں پائی جاتی ہے، خدا نہ کرے کہ ہمیں مقبوضہ کشمیر کیلئے 300 بار جنگ لڑنا پڑے کشمیر کے حوالے سے ہمارا ڈپلومیٹک فرنٹ خاصا کمزور ہے، بھارت کو کوئی ہماری جانب سے بات چیت کی میز پر لانے کیلئے تیار نہیں کہ آج تک کسی حکمران نے کسی دور میں کوشش کی ہے کہ ساتھ کے ہمسائے کو اپنی ڈپلومیسی کی راستے پورا زور لگایا جائے، سیدھا کسی پر چڑھائی کرنا کوئی جواب نہیں اپنی بربادی ہے، کیا کسی کو اس کا اندازہ ہے کہ جنگ کے کس قدر دور رس نقصانات ہوتے ہیں، 300 بارکیوں اگر کوئی حملہ آور ہو تو اتنی تیاری ہو کہ پہلی بار ہی کشمیر لے کر اپنی حیثیت منوالے۔

٭٭٭٭

ارزانی، بھی مہنگائی کا کچھ نہ بگاڑے

ہمیں توفکر یہ ہے کہ ارزانی ہونے پر بھی مہنگائی اپنے تخت طائوس سے نیچے نہیں اترتی، ایک چیز جو اچانک گرانی کے باعث 50 سے سو پر آگئی وہی چیز ارزانی ہونے پر 100 سے 50 پر نہیں آتی، اس میں حکومت کا نہیں محکوموں کا ہاتھ ہوتا ہے، دکاندار حضرات نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ مہنگائی تو بڑھتی ہےہمیں اونچا اڑانے کیلئے، پھر وہ آئو دیکھتے ہیں نہ تائو ،طائر سدرہ کو شکار کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، جب بھی نرخ نیچے آئیں تو اصولاً نرخ نیچے آ جانے چاہئیں مگر اس کے الٹ ہوتا ہے ۔ امیری غریبی بھی کیا چیز ہے ایک کہاوت ہے یا کہانی ہم نے آپ کو سنانی ہے کہ خان خاناں کے دربار میں ایک مفلس نے آ کر کہا مجھے مرزا خانِ خاناں سے ملنا ہے۔ درباری نے چہرہ مہرہ دیکھ کر کہا: وہ اس وقت آرام فرما رہے ہیں، بندۂ مفلس درِیار سمجھ کر آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا کہ اچانک خان خاناں آکر تخت پر بیٹھ گئے۔ بندۂ مفلس سے خان خاناں نے پوچھا کیسے آنا ہوا، اس نے جواب دیا حضور میں آپ کا ہم زلف ہوں، خان خاناں نے پوچھا وہ کیسے، کہا ایسے کہ بپتا اور سپتا دو بہنیں تھیں ایک آپ کے گھر آئی دوسری میرے گھر، اس حسنِ مدعا پر خان خاناں نے حکم دیا سائل کو سونے میں تول کر سونا اسے دے دیا جائے۔ بہر صورت کہانی کہاوت سنا کر تو ہم مہنگائی نیچے نہیں لا سکتے لیکن مفلسی کے سوئے بھاگ جاگنے کی نوید تو سنا سکتے ہیں، پیچھے ہم نے ایک امکان بیان کیا، سب مل کر دعا کریں کہ سچ ہو جائے اور یہ تو اور اچھا ہو کہ یہ تحریر پڑھنے تک تیل کے بھائو گر گئے ہوں۔

٭٭٭٭

محسن نقوی سپیڈ

O...وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے کم از کم تنخواہ 32 ہزار نہ دینے والے آجروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت جاری کردی ہے۔

یہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی دکھانے کا عمل ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی نگرانی کے دوران شہباز سپیڈ پکڑ لی ہے، رفتار ایسی کہ جہاں بند تالا وہیں وزیر اعلیٰ۔

O...لاڈلوں کی جنگ جاری ہے اور حیرانی ہے کہ تینوں لاڈلے باہم دست و گریباں ہیں مگر باتوں بیانوں کی حد تک یہی جمہوریت کا پاکستانی حسن ہے۔

O...بڑے ماں باپ کا قاتل بیٹا۔ وزنی ڈمبل مار کر ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا، عدالت نے سزائے موت اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی ہے، کوئی اپنی شرافت اور علم پر بھی اتنا غرور نہ کرے کہ انجام یہ ہو، بہرحال ایاز امیر کو صرف صدمہ پہنچا اور انکے بیٹے کو قتل کے بدلے قتل کی سزا مل گئی۔

O...عوام الناس 8فروری کو الیکشن کرانے کیلئے پرامن احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ جن کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں، وہ تو الیکشن کو آگے آگے ہانکیں گے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین