• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ جس کا امریکہ میں بے تابی سے انتظار کیا جارہا تھا، انتہائی کامیابی سے اختتام پذیر ہوگیا۔دورے کے دوران آرمی چیف نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن ، سیکرٹری دفاع جنرل لائیڈ آسٹن اور چیئرمین جائنٹ آف اسٹاف جنرل چارلس برائون سمیت متعدد اعلیٰ امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں جن میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی اور عالمی سیکورٹی کے معاملات اور دنیا میں جاری تنازعات کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر دو اشوز ایسے ہیں جنکی وجہ سے عالمی امن اور سپرپاور امریکہ کی پوزیشن کو دھچکا لگا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اور حالیہ اسرائیل فلسطین تنازعے نے پوری دنیا میں بے چینی ، نفرت اور خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے حماس کے حملے کو جواز بناتے ہوئے فلسطینی شہریوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب سے نہ صرف امریکہ کے اندر نہتے، بے قصور فلسطینیوں کیلئے ہمدردی کے جذبات ابھر کر سامنے آرہے ہیں، اقوام عالم میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکہ کو جنگ بندی کیلئے اسرائیل پر مزید دبائو ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 153 ملکوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا ،اس دوران امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم کو متنبہ کیا کہ اسرائیلی فورسز کی اندھا دھند بمباری انکو عالمی حمایت سے محروم کر رہی ہے۔ امریکی صدر کو بخوبی علم ہےکہ غزہ میں امن نہ ہوا تو ان کی مقبولیت مزید کم اور آئندہ سال صدارتی الیکشن میں ان کی کامیابی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ امریکہ کے نزدیک یوکرین کی جنگی لحاظ سے زیادہ اہمیت نہیں لیکن امریکی پالیسی سازوں کو بخوبی علم ہے کہ اگر روس کی پیش قدمی روکی نہ گئی تو روس دوبارہ عظیم طاقت کے روپ میں سامنے آسکتا ہے اور نیٹو ممالک کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے اسی لئے موجودہ ا مریکی حکومت یوکرین کی افواج کو روسی بلغار کے سامنے مضبوطی سے جما دیکھنا چاہتی ہے اور خطیر رقم خرچ کر رہی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک ان دو جنگوں سے زیادہ امریکہ کیلئے تشویش کا باعث چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور جنگی طاقت ہے۔ تائیوان پر قبضے کی چینی خواہش اور ساوتھ چائنا سمندر میں چین کی پیشقدمی سے بعض ممالک جن میں ویتنام،فلپائین ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی شامل ہیں ، عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔ دنیا کی تجارت کا اکیس فیصد اس سمندری گزرگاہ سے گزرتا ہے۔ ان راستوں پر کنٹرول اور چینی بحری اڈوں کی بعض جزیروں پر تعمیر امریکہ اور اسکے حلیف ملکوں کو تحفظات ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے عظیم چینی منصوبے کو بھی امریکہ شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ ٹیکنا لوجی کے شعبوں میں بھی چین امریکہ کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے۔ ان حالات میں چین کے حوالے سے پاکستان کے آرمی چیف کا دورہ امریکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حالیہ دورے میں چین پاکستان اسٹریٹیجک تعلقات اور خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ ،چین پر امریکی خدشات زیر بحث آئے ہونگے خصوصاً گوادر پورٹ جو تیل کی آبی نقل وحرکت اورآئل ٹینکروں کی گزرگاہ کے طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے ،اسکے مستقبل کے حوالے سے بھی معاملات زیر غور آئے ہونگے۔ امریکہ کیلئے افغانستان میں طالبان خصوصاً داعش پر کنٹرول اور پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے مسائل پر بات ہوئی ہو گی اور پاکستان پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملوں کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی پر بھی غور ہو سکتا ہے، جس میں سرویلنس اور ڈرونر کے استعمال پر لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی امریکہ ایکسپورٹ تو ٹیکسٹائل کے شعبے میں تنزلی سے بہت کم رہ گئی ہے چنانچہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کی کوشش ہو گی کہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول میں امریکہ مدد کرے۔ ہماری فوج اور ایئر فورس کیلئے امریکی اسلحے اور ایف 16جہازوں کے پرزہ جات کی فراہمی کیلئے بھی مذاکرات متوقع تھے۔ آرمی چیف نے واشنگٹن سے نیویارک روانگی سے قبل کثیر تعداد میں پاکستانی امریکیوں سے سفیر پاکستان کے عشائیے میں ملاقات کی اور بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے پاکستان کو ہر لحاظ سے مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے ہیوسٹن میں رہائش پذیر امریکن پاکستانی بزنس مین تنویراحمد کو ملاقات کیلئے اسٹیج پر بلا کر پاکستان کیلئے اُن کی خدما ت کو سراہا۔ اور کراچی میں نسٹ آئی ٹی ٹاورکے قیام کیلئے نو ملین ڈالر فنڈ دینے پر تعریفی شیلڈ دی ۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں سے آئے پاکستانی ڈاکٹر، بزنس مین اور مختلف تنظیموں کے سربراہان جنرل عاصم منیرکی سیدھی گفتگو، پراعتماد لہجے اور ہم وطنوں سے محبت و انکساری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور وہ یادگار شام کئی گھنٹوں پر محیط ہو گئی اور متعدد شرکا کی واپسی کی فلائٹس اور ٹرینیں مس ہو گئیں مگر واپسی میں تاخیر کا انہیں ذرہ برابر ملال نہ تھا۔ آرمی چیف کے اس کامیاب دورے سے چند لوگوں کو یقیناً مایوسی ہوئی ہو گی مگر تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سمیت اوورسیز پاکستانیوں نے ثابت کر دیا کہ وطن سے محبت اور ریاستی اداروں کی تکریم ان کیلئے مقدم ہے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین