• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مملکت نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کردیے


صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025 (پیکا) کی توثیق کردی۔

الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا ترمیمی بل 2025 صدر کے دستخط کے بعد قانون بن گیا، اس سے قبل یہ بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور کیا گیا تھا، پیکا ترمیمی بل کے خلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ کی کارروائی سے واک آؤٹ بھی کیا تھا۔

صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید  تھی کہ صدر ہماری بات سنیں گے مگر انہوں نے بھی مایوس کیا، ہم احتجاج بھی جاری رکھیں گے اور قانون کو عدالتوں میں بھی چیلنج کریں گے۔

وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ کہ بل کا تعلق اخبار یا ٹی وی سے نہیں، صرف سوشل میڈیا کو ڈیل کرے گا، یہ بل قرآنی صحیفہ نہیں، اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ قانون برائے اصلاح نہیں، قانون برائے سزا ہے، اور ہم اس کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے۔ اس قانون کے بعد کسی پر بھی پیکا لگا دیں، حکومتی بینچز میں کسی نے اس بل کو پڑھا بھی نہیں ہوگا۔

ایمل ولی خان نے کہا تھا کہ پیکا قانون سے بوٹوں کی خوشبو آرہی ہے، اظہار رائے پر پابندی لگائی جارہی ہے۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں کیا تھا؟

پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025  کے اہم نکات کے مطابق فیک نیوز پر تین سال قید، بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔ جرم پر اکسانا،جعلی یا جھوٹی رپورٹس، اسلام و پاکستان مخالف ،عدلیہ اور فوج کے خلاف مواد غیر قانونی شمار ہو گا۔ پابندی کی شکار شخصیات کے بیانات اپ لوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔ 

ترمیمی بل میں سوشل میڈیا کی نئی تعریف بھی شامل کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی جسے سوشل میڈیا مواد ریگولیٹ کرنے ،شکایات پر مواد کو بلاک یا ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔

اتھارٹی ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جزوی اور مکمل بلاک کرے گی، اتھارٹی کسی درخواست پر ایکشن لے گی، اتھارٹی خلاف ورزی پر جرمانہ کرے گی، متعلقہ حکام کو غیر قانونی اور توہین آمیز مواد کو 30 روز کے لیے بلاک کرنے یا ہٹانےکی ہدایت کرے گی، 30 دن مزید توسیع بھی ہو سکےگی۔

جعلی یا غلط معلومات سے متاثرہ شخص معلومات کو بلاک کرنے یا ہٹانے کیلئے اتھارٹی کو درخواست دے گا، اتھارٹی 24 گھنٹے میں اس پر فیصلہ کرے گی، اتھارٹی میں چئیرمین اور 8 ارکان ہوں گے، اتھارٹی میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور پیمرا ارکان ہوں گے، چیئرمین اور ممبران کی تقرری 5 سال کے لیے ہوگی، عمر 58 سال سے زیادہ نہ ہو۔

اتھارٹی میں پریس کلب کا رجسٹرڈ صحافی، سافٹ ویئر انجینیئر ، وکیل ، سوشل میڈیا پروفیشنل ، آئی ٹی پروفیشنل بطور ممبران ہوں گے، اتھارٹی کے فیصلے کثرت رائے سے ہوں گے، چیئرمین کے پاس غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے اور فوری ایکشن لینے کا خصوصی اختیار ہوگا، البتہ اتھارٹی اس کی 48 گھنٹے میں توثیق کرے گی۔

اتھارٹی ایسے مواد کو بلاک کرے گی یا ہٹائے گی جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، ایسا مواد بلاک کیا جائےگا جو عوام کو قانون کی خلاف ورزی کرنے ، قانون ہاتھ میں لینے پر اکسائے ، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جس کا مقصد عوام ، افراد، گروہ ، حکومتی آفیشل یا اداروں کو ڈرانا، دہشت زدہ کرنا یا مجبور کرنا ہو، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو عوام کو سرکاری یا نجی پراپرٹی تباہ کرنے پر اکسائے، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو ڈرا کر عوام کو ان کی قانونی تجارت کرنے سے روکے، شہری زندگی متاثر کرے۔

ایسا مواد بھی بلاک کیا جائےگا جو مذہب، فرقے، نسل کے خلاف توہین یا نفرت پر اکسائے جس سے تشدد کو ہوا ملے، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جس میں نازیبا، عریاں مواد ہو، ایسا مواد بلاک ہوگا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ جعلی اور غلط ہے، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو ممبران عدلیہ، آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے خلاف بہتان لگائے، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرے یا ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف تشدد پر اکسائے۔

اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف شدہ معلومات کو سوشل میڈیا پر نشر نہیں کیا جائے گا، کالعدم تنظمیوں اور ان کے نمائندوں کے بیانات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشر نہیں کیے جائیں گے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شکایات کو دیکھنے شفاف اور مؤثر طریقہ کار اپنائیں گے، سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بنائی جائے گی، اتھارٹی کی ہدایت پر عمل نہ ہونے یا خلاف ورزی پر اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی، سوشل میڈیا تحفظ ٹربیونل قائم کیے جائیں گے۔

سوشل میڈیا تحفظ ٹربیونل میں ہائی کورٹ کی اہلیت کا جج چیئرمین ہوگا، ٹربیونل میں صحافی، سافٹ ویئر انجینیئر ہوں گے، اتھارٹی سے متاثرہ فریق، ٹربیونل سے رجوع کرسکتا ہے، ٹربیونل سے متاثرہ شخص 60 دن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔

غلط یا جعلی معلومات دینے پر تین سال تک سزا، 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں، جو شخص دانستہ طور پر غلط یا جعلی معلومات دے جس سے عوام میں خوف، انتشار، بے چینی پھیلے اسے سزا ہوگی۔

تحقیقات، انکوائری، پراسیکیوشن کے لیے نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی، نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ ختم ہو جائے گا۔

قومی خبریں سے مزید