بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ2024 ء دنیا میں انتخابات کا سال ہے۔50 ممالک کے دو ارب سے زاید افراد اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے نئے چہروں کو اقتدار میں لائیں گے یا پھر موجودہ حُکم رانوں ہی پر اپنے اعتماد کا اظہار کریں گے۔ ان میں امریکا، یورپی یونین اور روس جیسی بڑی طاقتیں شامل ہیں، تو پاکستان، بھارت، برطانیہ، جنوبی افریقا اور بنگلا دیش بھی اس عمل سے گزریں گے۔
یہ دنیا میں جمہوریت کا امتحان ہوگا کہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے اِتنے بڑے پیمانے پر اقتدار کی پُرامن طریقے سے منتقلی کیسے عمل میں آتی ہے۔اگلے سال پتا چل جائے گا کہ امریکا میں سابق صدر ٹرمپ کی واپسی کی راہیں کُھلیں گی یا روس کے مردِ آہن، ولادی میر پیوٹن مزید چھے سال کے لیے اس بڑی طاقت کے فیصلہ ساز بنیں گے۔یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ کیا یورپ میں بائیں اور دائیں بازو کی جماعتیں قوم پرستی، تارکینِ وطن اور مسلم مخالفت پر مبنی پالیسیز کی بنیاد پر آگے بڑھیں گی یا وہ کوئی اور حکمتِ عملی طے کریں گی۔ بھارت میں بی جے پی کے انتہا پسند نعرے کام یاب ہوں گے یا پاکستان اپنی منزل، معیشت کی بحالی کو چُن سکے گا۔
امریکا اِس وقت دنیا کی واحد سُپر پاور ہے اور اس کے عالمی اثرات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔یوکرین جنگ میں وہ روس کے مقابل کھڑا ہے، جب کہ حماس، اسرائیل جنگ میں وہ اسرائیل کا اتحادی ہے۔چین سے اس کا مقابلہ معاشی میدان میں زوروں پر ہے۔دیکھنا ہوگا کہ کیا اِس پس منظر میں امریکا میں تاریخ دُہرائی جائے گی اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس کے مکین بنیں گے اور دنیا کی فیصلہ سازی میں کردار ادا کریں گے یا نہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ متعدّد الزامات کے باوجود آج بھی ری پبلکن پارٹی کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور امریکا میں اُن کے حامی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔
اُن کا مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن سے ہوگا، جو اِس وقت صدارت کے عُہدے پر فائز ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پہلی مرتبہ انتخابات میں حصّہ لیا تھا، تو اُن کی کچھ باتیں غیر روایتی قرار دی گئی تھیں۔ میڈیا اُن کا زبردست نقّاد رہا۔وہ ایک بڑے تاجر ہیں اور اُن کا سیاست سے بہت کم تعلق تھا۔پھر یہ کہ اُنہوں نے جس طوفانِ بدتمیزی اور جارحانہ انداز میں اپنے مخالفین کے خلاف انتخابی مہم چلائی، اس نے امریکی معاشرہ تقسیم کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں ساری اخلاقی حدود پار کر گئے تھے۔
ٹرمپ نے خارجہ محاذ پر روس اور چین کے خلاف ہی محاذ نہیں کھولا، بلکہ اپنے اتحادیوں سے بھی شدید اختلاف کی پالیسی رکھی، جس میں نیٹو کی طاقت کم کرنا بھی شامل تھا۔اس کے علاوہ، وہ قوم پرستی میں بھی آگے آگے رہے۔تارکینِ وطن کی سخت مخالفت کی، تو مسلمانوں پر بھی پابندیوں کی بات کرتے رہے۔ٹرمپ کے دور میں عالمی وبا، کورونا نے دنیا کو جکڑا اور اُنہی کے دَور میں ویکسین نے اُس کی کمر توڑی۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما،کم جانگ ان کے ساتھ پہلی مرتبہ مذاکرات کیے اور عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب لانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کی راہیں انہی کے دَور میں طے ہوئیں۔اب اگر ٹرمپ کی واپسی ہوتی ہے، تو موجودہ منظر نامے کو وہ کیسے دیکھیں گے، اس میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کس کردار کا تعیّن کریں گے، یہ ایک بنیادی سوال ہے، کیوں کہ امریکا، مغربی دنیا کا لیڈر، سب سے طاقت ور اور دولت مند مُلک ہے۔ماہرین اِس امر پر غور کر رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ انتخابات میں حصّہ لیتے ہیں، جس کا وہ اعلان کرچُکے ہیں، تو پھر دنیا، خاص طور پر عالمی طاقتوں، مشرقِ وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی اور مغربی پالیسیز کیا ہوں گی۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ آتے ہیں، تو امریکا میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام اتنا مضبوط نہیں رہے گا، جتنا آج تک رہا کہ وہ مکمل اختیارات کے حامی ہیں۔وہ اب بھی کُھلے عام ایک سخت گیر حاکم کی زبان استعمال کرتے ہیں اور’’امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے پر سختی سے جمے ہوئے ہیں۔اُن کے ووٹرز اُن کے پیچھے کھڑے ہیں۔ مقبولِ عام لیڈر کیسے ہوتے ہیں، اس کی ایک بہترین شکل ٹرمپ کی صُورت دیکھی جاسکتی ہے اور یاد رہے کہ امریکا ایک سُپر پاور ہے۔
وہ لوگ جو تبدیلی کے حامی ہیں اور سابق حُکم رانوں سے تنگ رہتے ہیں، اُن کے لیے یہ خبر دِل چسپی کا باعث ہوگی کہ ولادی میر پیوٹن، جو روس میں24 سال سے اقتدار میں ہیں، ایک بار پھر اپنے اقتدار میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔وہ مارچ میں ہونے والے انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں اور اگر کام یاب ہوتے ہیں، تو مزید چھے سال تک روس کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔اُنہوں نے خود کو عالمی سیاست کے ایک اہم کردار کے طور پر پیش کیا۔سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد اُن کا ایک ہی ایجنڈا رہا کہ روس کی کھوئی عظمت بحال کریں۔وہ کُھلے عام کہتے ہیں کہ’’ اگر روس نہیں، تو دنیا رہے، نہ رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
اِس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اپنے چوبیس سالہ دَور میں اُنہوں نے روس کو پِھر سے دنیا کی ایک اہم معاشی اور فوجی طاقت بنا دیا ہے، جب کہ ماسکو آج ہر جگہ موجود ہے۔کورونا وبا کے فوراً بعد یوکرین پر روس کے حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُنہوں نے وہ کر دِکھایا، جو کوئی دوسرا لیڈر اُس وقت سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اُنہوں نے دنیا کی پروا نہ کی اور صرف اپنے مُلک کا مفاد دیکھا۔اب ہر مُلک یوکرین جنگ کے منفی اثرات کی لپیٹ میں ہے، منہگائی عروج پر ہے، بے روزگاری اور افراطِ زر کسی عفریت کی مانند دنیا پر سوار ہے۔روس اِس جنگ میں صرف یوکرین ہی نہیں، یورپ اور امریکا سے بھی ٹکرا رہا ہے۔
پیوٹن کو انتخابی مہم میں اپنی ساکھ اور جنگی وعدوں کو عملی شکل دینے کے لیے دو، تین ماہ میں کسی نتیجے کی طرف بڑھنا ہوگا، جو دنیا کو بہت سے جھٹکوں سے بھی دوچار کر سکتا ہے۔وہ یقیناً چاہیں گے کہ امریکی اور یورپی یونین کے انتخابات سے قبل’’ کچھ‘‘ کر دِکھائیں۔یہ’’ کچھ‘‘ کیا ہوگا، ساری دنیا کی نگاہیں اسی طرف لگی ہیں اور اس کا اُن کے انتخاب سے گہرا تعلق ہے۔روس کے عوام کے لیے یہ بات بھی اہم ہوگی کہ اگر امریکا میں ٹرمپ جیسا قوم پرست لیڈر پاور میں آتا ہے، تو انہیں کس قسم کے لیڈر کی ضرورت ہوگی۔
قوم پرستی اور جس قسم کا نظام روس میں رائج ہے، اُس کے پیشِ نظر وہاں مقبول لیڈر کا رواج عام ہے۔ اِسی لیے بہت سے مبصّرین کا خیال ہے کہ روس میں ابھی پیوٹن کا کوئی نعم البدل نہیں۔گو کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس میں یک پارٹی نظام میں کچھ تبدیلی آئی ہے، تاہم ابھی ملٹی پارٹی جمہوریت سے وہ خاصا دُور ہے۔آزاد میڈیا اور حزبِ اختلاف مشکل ہی سے پنپ پاتے ہیں، جس کا اندازہ پیوٹن کے چوبیس سالہ اقتدار سے لگایا جاسکتا ہے۔
یورپی یونین میں اِس وقت28ممالک شامل ہیں۔ برطانیہ کی علیٰحدگی نے اسے بہت سے چیلنجز سے دوچار کیا، لیکن صدر پیوٹن کا یوکرین پر حملہ اس کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہے، عالمی وبا، کورونا سے بھی زیادہ، جس میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔یورپی پارلیمان کا انتخاب جون میں ہوگا، جس میں چار سو ملین سے زاید افراد ووٹ ڈالیں گے۔مختلف سرویز کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ یوکرین کی جنگ، امیگریشن اور موسمیاتی تبدیلی جیسے ایشوز انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔
دائیں بازو کی قوم پرست جماعتیں، جو کئی ممالک میں اقتدار حاصل کرچُکی ہیں، یونین کے انتخابات میں اہم ہوں گی۔خود یورپ کے بہت سے ممالک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پرتگال، بیلجیئم، جارجیا، بیلا روس اور کروشیا میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں، جب کہ لیتھونیا، آئس لینڈ اور فن لینڈ کے باسی اپنے اپنے صدر کا انتخاب کریں گے۔ یورپی ممالک اِس امر پر متفّق ہیں کہ یوکرین جنگ، دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے اور وہ اس کا متحد ہو کر مقابلہ کریں گے، تاہم تارکینِ وطن اور مسلمانوں کی مخالفت پر وہ تقسیم ہیں۔دائیں بازو کی جماعتوں نے اِس سال ہالینڈ، اٹلی اور جارجیا میں اقتدار حاصل کیا، اُن کی تارکینِ وطن اور اسلام دشمن پالیسیز کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔
قوم پرستی یورپ میں ایک مرتبہ پھر مضبوط ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید دو عالمی جنگوں کا تجربہ یورپ کی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ زیادہ اہم نہیں رہا۔غزہ کے معاملے پر پہلی مرتبہ یورپی ممالک جم کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہے، ان میں جرمنی جیسے مُلک کی حمایت کافی چونکا دینے والی ہے۔ برطانیہ کو’’ جمہوریت کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔وہاں گزشتہ14سال سے کنزر ویٹو پارٹی کی حکومت ہے۔اِسی کے دورِ اقتدار میں عالمی مالیاتی بحران آیا، برطانیہ کی یورپ سے علیٰحدگی ہوئی اور کورونا وبا آئی۔
اس دوران حکومت تو اِسی پارٹی کی رہی، لیکن سات وزیرِ اعظم تبدیل ہوئے۔یہ سب اپنی ہی پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ان میں ڈیوڈ کیمرون اور بورس جانسن جیسے مقبول لیڈر بھی شامل تھے۔ ڈیوڈ کیمرون کی تو سیاست میں واپسی ہوچُکی ہے اور وہ اِس وقت وزیرِ خارجہ ہیں۔بھارتی نژاد، رشی سوناک اِن دنوں برطانیہ کے وزیرِ اعظم ہیں۔برطانیہ کا سب سے اہم مسئلہ بریگزیٹ کے بعد مُلک کی معاشی بحالی ہے۔بریگزیٹ کے حامیوں کا کہنا تھا کہ اس سے برطانیہ اپنی عظمتِ رفتہ بحال کرنے میں کام یاب ہوگا، کیوں کہ یورپی یونین کی پابندیوں نے اسے بہت پیچھے کردیا۔
کنزر ویٹو پارٹی کی تارکینِ وطن سے متعلق پالیسی، لیبر پارٹی کے برعکس رہی ہے۔چوں کہ لیبر پارٹی کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد تارکینِ وطن پر مشتمل ہے، اِس لیے وہ ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔یہ دونوں معاملات عام انتخابات میں فیصلہ کُن ہوسکتے ہیں۔ بھارت، دنیا کی دوسری بڑی آبادی والا مُلک ہے اور یہ ایک سیکیولر، جمہوری مُلک کی شہرت رکھتا تھا، لیکن بی جی پی حکومت نے اسے قوم پرست مُلک میں تبدیل کردیا۔نریندر مودی اور اُن کی پارٹی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کے لیے انتخاب لڑے گی۔وہاں مسلمان بہت دباؤ میں ہیں، جو سب سے بڑی اقلیت ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اُن کی مجموعی آبادی پچیس کروڑ سے زاید ہے۔
اُن کی آواز نہ صرف ایوانوں بلکہ قومی سطح پر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اِسی طرح تین سال پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے تین صوبوں میں تقسیم کردیا گیا، جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے مودی کے دَورِ حکومت میں خاصی تیز رفتار ترقّی کی، جس سے اُن کا اور بی جے پی کا امیج ایک ترقّی پسند کے طور پر مضبوط ہوا۔نریندر مودی ایک مقبول لیڈر ہیں اور وہ مزید پانچ سال اقتدار میں آنے کے بعد کیا کرسکتے ہیں، اس کے لیے کسی خاص پیش گوئی کی ضرورت نہیں، البتہ یہ طے ہے کہ اس صُورت میں کسی بھی مُلک کو بھارت سے معاملات کرنے کے لیے اُن ہی سے بات کرنی ہوگی اور یہ بات بھارت کے ہم سایوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔
پاکستان میں بھی اگلے سال الیکشن ہو رہے ہیں۔8فروری کو فیصلہ ہوگا کہ عوام اپنے مُلک کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔گزشتہ چار برس سے یہ سلائیڈ پر سوار ہے اور تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ ہر عالمی معاملہ وہ کورونا کی وبا ہو یا یوکرین جنگ، پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔قرضے، افراطِ زر، بے روزگاری، منہگائی، سہولتوں کا فقدان، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور دہشت گردی ہر ایک پاکستانی کے لیے عذابِ جاں بنے ہوئے ہیں۔
نیز، معاشی کم زوری نے عدم استحکام بھی پیدا کیا ہے۔ اب پوری قوم کو یک جا ہوکر کام کرنا ہوگا۔معیشت اور صرف معیشت ہی مُلکی جمہوریت کو پٹری پر واپس لا سکتی ہے، کیوں کہ اگر کوئی بھی قیادت یا پارٹی مُلک کو معاشی استحکام دینے میں ناکام رہتی ہے، تو اس کا سحر دِنوں میں بَھک سے اُڑ جائے گا۔غیر جانب دار مبصّرین پاکستانی قوم کو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اِس قدر تباہ کُن معاشی صُورتِ حال کے باوجود یہ معاشی سوچ پر وہ یک سوئی نہیں دِکھا پا رہی، جس کی ایک پچھتّر سالہ قوم سے توقّع کی جاتی ہے، جب کہ وہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ چاروں اطراف کے ممالک اس سے آگے نکل رہے ہیں۔فروری میں ہونے والے الیکشن اِس امر کا فیصلہ کریں گے کہ عوام مُلک کی معاشی بحالی اور ترقّی کو ووٹ دیتے ہیں یا پھر کسی گِھسے پٹے سازشی نظریے کی گرفت میں آتے ہیں۔اگر عوام نے غلط فیصلہ کیا، تو پھر اُنہیں دنیا سے مزید رعایت کی توقّع نہیں کرنی چاہیے۔