یورپ کے ایک اور اہم مُلک میں انتخابات کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی، موجودہ حالات میں پورے یورپ کے لیے اہم ہوگی۔ پولینڈ کے ایک سابق وزیرِ اعظم، ڈونلڈ ٹسک اور ان کے اتحادیوں نے پارلیمان میں اکثریت حاصل کرلی اور وہ حکومت بنانے میں کام یاب رہے۔ اس بار وہ تیسری مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم بنے ہیں۔
اُن کی اس کام یابی کے ساتھ ہی پاپولر لیڈر، میٹیوز موراویکی کے آٹھ سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ ڈونلڈ ٹسک اور اتحادی سینٹرسٹ خیالات کے حامل ہیں،یعنی وہ یورپی یونین کے اتحاد کے زبردست حامی ہے اور چاہتے ہیں کہ بریگزٹ کی وجہ سے اسے جو نقصان پہنچا، اُس کا ازالہ کیا جائے۔ ڈونلڈ ٹسک دو بار پہلے بھی پولینڈ کے وزیرِ اعظم رہ چُکے ہیں، بعدازاں وہ یورپی یونین کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔اُن کا دَور پولینڈ کی معاشی ترقّی کا دَور مانا جاتا ہے، اِس طرح پولینڈ کے عوام نے ایک مرتبہ پھر معیشت کی بہتری کو ووٹ دیا۔
اُنہوں نے ڈونلڈ ٹسک پر اعتماد کیا کہ وہ پولینڈ کو اس کا سابقہ مقام دِلانے کے ساتھ معیشت اور قیامِ امن سے متعلق معاملات میں بہتری لائیں گے۔ ان کی اس کام یابی سے یورپ میں قوم پرستی کو جھٹکا لگا ہے، کیوں کہ شکست خوردہ حُکم ران جماعت کا قوم پرستی کی طرف رجحان تھا۔پولینڈ نے تارکینِ وطن کے لیے اپنی سرحدوں پر طرح طرح کی سختیاں کر دی تھیں، یہ تک سُننے میں آیا کہ سابقہ حکومت سمندر کے راستے یورپ جانے والوں کو روکنے کے لیے سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔گو کہ عوام نے ڈونلڈ ٹسک کو بڑے جوش و خروش سے وزارتِ عظمیٰ سونپی ہے، لیکن یہ جیت اُن کے لیے پھولوں کی سیج نہیں، کیوں کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں پولینڈ نے تقریباً ہر شعبے میں تنزّلی ہی دیکھی ہے۔
گزشتہ حکومت نعروں اور پراپیگنڈے کی حکومت تھی،جو مقبول نعروں اور میڈیا کے استعمال سے بڑی حد تک عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کام یاب رہی، لیکن مُلک کی اقتصادی حالت اور امن و امان کی صُورتِ حال اس نہج پر پہنچ گئی تھی کہ حکومت کی تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔معیشت، انصاف، میڈیا کی آزادی، غرض ہر شعبے سے عوام غیرمطمئن نظر آئے، اِس لیے مبصّرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹسک کو آنے والے دنوں میں مُلک کو درست سمت میں ڈالنے میں بڑی دِقّت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اتحادی حکومت کی وجہ سے قوانین کی منظوری کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی، خاص طور پر ان حالات میں جب مُلک کا صدر اب بھی مخالف پارٹی کا ہے۔
پولینڈ، وسطی یورپ کا ایک بڑا مُلک ہے، جس کی آبادی تقریباً چار کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔اس کا دارالحکومت، وارسا عالمی شہرت کا حامل شہر ہے۔پولینڈ آٹھ ممالک کے ساتھ زمینی اور سمندری سرحدیں رکھتا ہے، جن میں جرمنی، روس اور یوکرین اہم ہیں۔یاد رہے، صدر جوبائیڈن نے رواں برس یوکرین کا خفیہ دورہ پولینڈ ہی سے ٹرین کے ذریعے کیا تھا۔یوکرین جنگ کی وجہ سے اس پر دو سال سے دباؤ ہے، جب کہ روس کی جانب سے گیس اور تیل کی فراہمی پر عاید پابندیوں سے معیشت متاثر ہوئی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں روس اور جرمنی نے پولینڈ پر حملے کیے اور باری باری اس پر قبضہ کیا۔ہولو کاسٹ واقعے کا تعلق بھی پولینڈ ہی سے ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس مُلک پر روس کا تسلّط قائم ہوگیا اور یہ سرد جنگ کے زمانے میں سوویت بلاک کا حصّہ رہا۔ نیٹو کے مقابلے پر سوویت یونین کے قائم کردہ فوجی اتحاد، وارسا پیکٹ کا یہ دارالحکومت تھا، جس سے اس کی فوجی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جب یورپ میں سوویت یونین کے بکھرنے کی تحریک شروع ہوئی، تو پولینڈ اس میں سب سے آگے تھا۔ یہاں مشرقی یورپ کی مشہور جمہوری لیبر تحریک چلی اور ایسی چلی کہ یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے لیبر لیڈر، لیخ والیسا، جن کا تعلق شپ یارڈ یونین سے تھا، مشرقی یورپ میں کمیونسٹ نطام کی مخالفت کی علامت بن گئے۔اُنہیں بعدازاں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ پولینڈ ایک جمہوری مُلک کے طور پر سامنے آیا اور لیخ والیسا براہِ راست ووٹس سے منتخب ہونے والے اس کے پہلے صدر تھے۔1989 ء میں پولینڈ، سوویت یونین سے آزاد ہوا۔ یہاں جمہوری پارلیمانی نظام قائم ہے۔
اس کے منتخب ایوان کو’’ sejm‘‘ کہا جاتا ہے۔ پولینڈ ایک درمیانے درجے کی طاقت ہے، لیکن وہاں کے عوام کا معیارِ زندگی بہت بہترہے۔ اپنی تمام تر کم زوریوں کے باوجود یہ یورپ کی چھٹی بڑی معیشت ہے، جب کہ اس کی ترقّی کی رفتار مناسب ہے۔سروسز اور مال سیکٹرز بہت فعال ہیں اور یہ اس کی مجموعی قومی آمدنی کا ساٹھ فی صد پورا کرتے ہیں۔یہ اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے بانی ارکان میں سے ایک ہے۔پولینڈ، مشرقی یورپ کے اُن ممالک میں شامل ہے، جن کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے۔
ڈونلڈ ٹسک کی فتح دراصل پولینڈ کو یورپی یونین کے ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کا ووٹ ہے۔یہی ان کا انتخابی وعدہ بھی تھا، جسے پورا کرنے کے لیے انہیں تیزی سے درست فیصلے کرنے ہوں گے اور جن شعبوں میں قومی سطح پر تنزّلی ہوئی، اُن پر خاص توجّہ مرکوز کرنی ہوگی۔پولینڈ پر یوکرین جنگ کے براہِ راست اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔
روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں اور یہ معاملہ اس کے لیے پیچیدگی کا باعث بنا ہوا ہے، کیوں کہ ماسکو ہر کچھ دن بعد اسے دبائو میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ماضی میں سوویت یونین سے انتہائی قریبی فوجی روابط بھی اس کے لیے مشکلات کا سبب بنے ہیں۔
سوویت دَور میں مغرب کے خلاف اہم کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور نفاذ کے فیصلے وارسا ہی میں ہوتے تھے، خاص طور پر نیٹو کے فوجی اتحاد کا مقابلہ کرنے کی پلاننگ یہیں ہوتی کہ یہ سوویت ملٹری اتحاد کا ہیڈ کوراٹر تھا۔یاد رہے، سوویت یونین اپنے زمانے میں سب سے زیادہ نیوکلیئر بموں کی مالک تھی اور اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی۔
ظاہر ہے، اِس پس منظر میں صدر پیوٹن کی پولینڈ کی ہر پالیسی پر خصوصی نظر ہے، خاص طور پر مغرب کی طرف سے یوکرین کو جو امداد ملتی ہے اور پولینڈ کو اُس کے دست وبازو کے طور پر مضبوط کرنے کے جو فوجی اقدامات ہوتے ہیں، صدر پیوٹن اُن کی سختی سے نگرانی کرتے ہیں۔
یوکرین پر حملے کے بعد مہاجرین کی سب سے پہلی اور بڑی تعداد پولینڈ ہی میں پناہ گزین ہوئی اور اب بھی جب جنگ زور پکڑتی ہے، تو پولینڈ کو اس کی فرنٹ لائن بننا پڑتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے، تو مغرب کے لیے یورپ میں سب سے زیادہ اہمیت پولینڈ کی ہے۔ اِسی لیے امریکا اور دوسرے یورپی ممالک پولینڈ کی فوجی و اقتصادی مضبوطی کے لیے مدد کر رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹسک یورپی یونین کے صدر رہے ہیں، اِس لیے وہ اس جنگ میں اپنے مُلک کی اہمیت بخوبی سمجھتے ہیں، پھر یہ کہ اُن کے یورپی اور مغربی رہنماؤں سے ذاتی مراسم بھی ہیں۔ یوں یورپ کے لیے ان کا وزیرِ اعظم بننا ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔
سابقہ حکومت کے دَور میں پولینڈ کے عوام تین شعبوں سے سخت نالاں رہے۔ایک تو انصاف، دوسرا لا اینڈ آرڈر اور تیسرا میڈیا۔ پاپولسٹ لیڈر ہونے کی وجہ سے سابق وزیرِ اعظم نے اپنے مخالفین کو اِن تینوں شعبوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی۔ اُن پر عدلیہ میں غیر معمولی دخل اندازی کا الزام ہے، یہاں تک کہ اپنے مرضی کے ججز لگائے اور فیصلے حاصل کیے۔علاوہ ازیں، اُنہوں نے پولیس اور دوسری ایجینسیز کو کُھلے عام مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔یہی وجہ تھی کہ انسانی حقوق کے معاملے پر یورپی یونین، پولینڈ سے سخت نالاں رہی۔
عوامی سطح پر اس کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہیں۔ڈونلڈ ٹسک نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عدلیہ کی غیر جانب داری یقینی بنا کر نظامِ انصاف میں شفّافیت لائیں گے۔ جن ججز کو زور زبردستی کے ذریعے کام سے روکا گیا، اُنہیں بحال کریں گے، جب کہ اُن ججز کے خلاف کارروائی ہوگی، جو انصاف کو یک طرفہ کرنے میں حکومت کا ساتھ دیتے رہے۔دوسرا شعبہ میڈیا ہے۔
سابقہ حکومت نے میڈیا کے ذریعے پولینڈ کو گزشتہ آٹھ سال پابندی میں رکھا۔اسٹیٹ میڈیا سے پراپیگنڈا اور نجی میڈیا پر زبردست دبائو،اس کا طرزِ حکومت تھا، جس سے عوام کا اپنے میڈیا پر بھروسا ختم ہوگیا۔ڈونلڈ ٹسک کے انتخابی وعدوں میں میڈیا کی آزادی کی بحالی بھی شامل ہے۔یہ ٹسک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، کیوں کہ سابقہ دَور میں بڑے بڑے اور اہم میڈیا ہاوسز کو جبراً بند کیا گیا یا پھر اُنھیں حکومتی پراپیگنڈے کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔
حالیہ الیکشن کا ایک اہم پہلو، یورپی یونین کی سیاست اور رویّوں سے متعلق ہے۔پولینڈ میں ڈونلڈ ٹسک کی فتح سے ایک مرتبہ پھر وہ کش مکش سامنے آئی ہے، جو قوم پرست اور معتدل جماعتوں کے درمیان جاری ہے۔پولینڈ کے حالیہ الیکشن میں مقابلہ اِتنا سخت تھا کہ پہلی مرتبہ 70فی صد ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، جن میں سے46 فی صد نوجوان ووٹرز تھے۔سینٹرسٹ اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان اِس کش مکش کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو رہی، اِسی لیے زیادہ تر اتحادی حکومتیں اقتدار میں آرہی ہیں، جیسے اٹلی میں ہوا۔
اِس طرح کے اتحادوں میں بہت زیادہ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور خواہ جس نظریے کا حامل وزیرِ اعظم آجائے، وہ کوئی بڑی تبدیلی لانے میں کام یاب نہیں ہو پاتا۔ یورپ میں اسے سیاست کا عبوری دَور کہا جاسکتا ہے۔قوم پرستوں اور معتدل جماعتوں میں کسے مکمل کام یابی ملتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ طے ہے کہ آئندہ دس پندرہ برسوں کے دوران یورپی یونین کی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
یہ تبدیلیاں نظریات کی بھی ہوسکتی ہیں اور نظاموں کی بھی۔اِسی پس منظر میں یوکرین جنگ کو بھی دیکھنا ہوگا، جس کے ذریعے صدر پیوٹن نے روسی نظام کو یورپ تک پھیلانے کی کوشش کی۔اُنہیں قوم پرست جماعتوں سے بہت سی توقّعات ہیں کہ وہ خود بھی ایک بڑے قوم پرست لیڈر ہیں۔
امریکا میں بھی 2024ء میں صدارتی الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اہم ترین امیدوار کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، جن کی قوم پرستی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں، خاص طور پر ان کے مسلمانوں اور تارکینِ وطن سے متعلق خیالات سے، جن کا وہ اکثر اظہار بھی کرتے ہیں، سب ہی واقف ہیں۔
اگر امریکا میں ٹرمپ آجاتے ہیں، تو یورپ پر اس کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے، یہ دیکھنے کی بات ہوگی، خاص طور پر ایسے میں کہ جب برطانیہ، یورپی یونین کا رُکن نہیں رہا۔نیز، پولینڈ جیسے اہم اور یوکرین جنگ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ میں ڈونلڈ ٹسک کی جانب سے اتحادی حکومت بنانا کہاں تک ان قوّتوں کے لیے بہتر ہوگا، جو روس کو ہر صُورت یورپ سے باہر رکھنا چاہتی ہیں، اس پر بھی ماہرین کی نظر ہے۔
ڈونلڈ ٹسک کی صدارت کے دوران برطانیہ، یورپی یونین سے الگ ہوا، تاہم اُنہوں نے آخری وقت تک کوشش کی کہ وہ ایسا نہ کرے۔بریگزٹ کی ایک بڑی وجہ وہ غریب پولش باشندے بھی تھے، جو یورپی قوانین کا فائدہ اٹھا کر برطانیہ میں ملازمتوں کے لیے پہنچ گئے تھے۔اُس زمانے میں عام برطانوی شہریوں کو یہ شکایت تھی کہ پولش باشندے اُن کے روزگار پر قابض ہوگئے ہیں اور وہ اُن کے ٹیکسز سے دی جانے والی ویلفیئر اسٹیٹ کی سہولتیں بھی مفت حاصل کر رہے ہیں۔پولینڈ کی معیشت اور حالات میں بہتری وہاں کے لوگوں کو زیادہ اعتماد دے گی، جس سے اُن کا مُلک یورپ کی سیاست میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوگا اور اسی کا تقاضا آنے والے حالات بھی کر رہے ہیں ۔