• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرنیکا اہم مرحلہ مکمل ہوگیا ہے اور خواتین اور اقلیتوں کیلئے خصوصی نشستوں سمیت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے859 ارکان کے انتخاب کیلئے32 ہزار سے زائد امیدواروں نے متعلقہ ریٹرنگ افسروں کے پاس نامزدگی کے فارم جمع کرادیئے ہیں جن کی پیر سے جانچ پڑتال بھی شروع ہوگئی۔ یہ عمل30 دسمبر کو مکمل ہو جائے گا جس کے بعد کاغذات نامزدگی واپس لینے کیلئے تاریخ گزر جانے پرالیکشن کمیشن امیدواروں کی حتمی فہرست کا اعلان کردے گا۔ کاغذات داخل کرانےکے موقع پر امیدواروں اور ان کے حامیوں میں زبردست جوش وخروش دیکھا گیا۔ بعض حلقوں میں ایک ایک نشست کیلئے درجنوں امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اور دوسری بھاری بھر کم شخصیات بھی شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں حصہ لینے والی 175 سیاسی پارٹیوں کی فہرست کا اعلان کیا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے لیکن اس کے سربراہ کا خانہ خالی ہے کیونکہ کمیشن اس کے پارٹی الیکشن کو قواعد کی پابندی نہ کرنے کی بنا پر مسترد کرچکا ہے اور اس کا انتخابی نشان بھی واپس لے لیا گیا ہے پارٹی کے بعض امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے کی شکایت کا کمیشن نے سختی سے نوٹس لیا ہے اور کارروائی کی ہدایت کی ہے کمیشن تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع دینے کی ہدایت پہلے ہی جاری کرچکا ہے جس پر عملدرآمد کے حوالے سے بعض پارٹیوں کو ابھی تک تحفظات لاحق ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی پارٹی نے ابھی تک اپنے انتخابی منشور کا اعلان نہیں کیا۔ انتخابی مہم اب تک صرف ایک دوسرے کی کمزوریاں گنوانے اور الزام تراشی تک محدود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسری پارٹیاں اپنے انتخابی بیانیے اور منشور کی تیاری میں مصروف ہیں اور امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آنےکے بعد اپنے اپنے ایجنڈے کا اعلان کرینگی۔ اس کے بعد یہ پتہ چلے گا کہ کونسی پارٹی ملک وقوم کو درپیش موجودہ مشکلات اور مسائل کا کیا حل تجویز کرتی ہے۔ نگران حکومت صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے اقدامات کی بھرپور حمایت کررہی ہے لیکن اس کا انحصار خود سیاسی پارٹیوں اور ان کےکارکنوں پر بھی ہے کہ وہ کس حد تک اپنی انتخابی مہم کو پرامن اور بامقصد بناتی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی لیڈر اپنی تقاریر میں ملکی مسائل پر سنجیدگی اختیار کریں اور اشتعال انگیزی کے بجائے مثبت لائحہ عمل پیش کریں یہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ قوم اس وقت سیاسی بے یقینی، معاشی عدم استحکام بدترین مہنگائی اور بیروزگاری کے بحران سے دوچار ہے۔ عالمی بینک نے ایک حالیہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی اور نئی حکومت کو بھی زیادہ تر انہی مشکلات کا سامنا ہوگا جو پچھلی حکومتوں کو درپیش تھے۔ انتخابی مہم میں پی ٹی آئی کو زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران اس کے روپوش رہنمائوں کو ریٹرننگ افسران کے سامنے پیش ہونا پڑیگا۔ جو اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں۔ انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر9 مئی کی طرح کا کوئی ردعمل سامنے آیا تو انتخابات کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے نگران حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں کو ملکی مفاد میں تحمل اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ خاص طور پر سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے انتخابی ایجنڈے میں مثبت اور تعمیری پروگرام شامل کرنا ہونگے۔ گالی گلوچ، بہتان تراشی اورطنز و تضحیک سے گریز کرنا ہوگا۔ ملکی تاریخ کے اس نازک موڑ پر تحمل اور رواداری پر مبنی انتخابی مہم ہی قوم کے مفاد میں ہے۔ مستقبل کی قیادت کا انتخاب عوام کا اختیار ہے اور وہ جسے بھی منتخب کریں جمہوری رویہ اپناتے ہوئے اسے قبول کرنے میں ہی عافیت ہے۔

تازہ ترین