• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! وائے بدنصیبی اب تو واقعی ماننا ہی پڑیگا کہ ہم پاکستانی آزاد نہیں رہے۔ اپنے ہی مافیا راج (اولیگار کی) کے اسیر بن گئے، کراچی میں میئر شپ کے انتخابات میں متعلقہ مقامی الیکٹرول باڈی میں سے 31ووٹرز کو مختلف حربوں سے مائنس کرکے جمہوریت کی دعویدار پی پی نے اپنے پیشگی دعوئوں کےمطابق انتظامیہ کی غیر آئینی و قانونی مدد سے اپنا میئر منتخب کرایا۔ گویا آج کی پی پی نے دسمبر 71ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس میں اپنے ناقابل تردید کردار اور ثبوتوں کیساتھ کوئی سبق نہ سیکھا۔آج بھی پی پی بھول گئی کہ کس طرح اسکی 1977ء میں ملک گیر حکومتی انتخابی دھاندلیوں کے نتیجے میں عوامی احتجاجی تحریک کی مزاحمت کے نتیجے میں گیارہ سالہ نفاذ مارشل لا کیسے پی پی قیادت کیلئے جان لیوا اور پارٹی پر ٹوٹی قیامت ثابت ہوا۔مائنس مشرف رجیم 1999-08ء پیپلز پارٹی اور ن لیگ 1988ء کےالیکشن سے 2017ء تک ملک میں دو بڑی پارلیمانی پارٹیاں اور جمہوریت کی چیمپئن لیکن حقیقت میں موجود نظام بد (اسٹیٹس کو) کی تشکیل کی مشترکہ ذمہ دار۔ انکی ہر دو عشروں میں عوامی مفادات کے حوالے سے بدترین اور کرپشن میں بدنام زمانہ بن گئی حکومتوں کی موروثی حکمرانی اور اسکی بحالی تباہ کاری خصوصاً آئی پی پیز کی عوام دشمن پالیسی کا نتیجہ نکلا کہ تحریک انصاف 2018ء کے الیکشن میں انکے مقابل آن کھڑی ہوئی۔ مانا کہ ہر دو (پی پی اور ن لیگ) کی سخت ہی نہیں کرپشن اورینٹڈ کرپٹ گورننس اور موروثی قومی سیاست کی ناجائز گرفت، عوامی ضروریات و مفادات سے مکمل لاپروائی نے تحریک انصاف کیلئے قومی سیاست میں جو بڑی جگہ بنائی اس نے عوام اور اسٹیبلشمنٹ کو موقع فراہم کیا کہ کاروبار حکومت کیلئے سارا انحصار ہر دو سیاسی خاندانوں کے رنگ میں رنگی حکومت و سیاست پر نہ کیا جائے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے تئیں عوامی بنی اسکا بڑا پلس، سحر انگیز قیادت رہی اور ہے لیکن یہ بہتر قومی سیاست اور حکومت دونوں کی بڑی ضرورت پارٹی کی تنظیم کی مطلوبہ تشکیل میں بری طرح ناکام ہوئی۔ اسی کا شاخسانہ نکلاکہ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو اسٹیبلشمنٹ اس پر غالب ہوتی گئی۔ 25 کروڑ کا ملک صرف قیادت کی خوبیوں کے زور پر نہیں چل سکتا اس کیلئے منظم پارٹی، اہل مشاورت، سب سے بڑھ کر قومی وجود اور ظہور پذیر (EMERGING) ضروریات کے مطابق وژن، پروگرام پالیسی سازی پلاننگ اور عملدرآمد کیلئے اسمارٹ اسٹرٹیجی اور روڈ میپ آج کی ریاست میں گڈگورننس کی جدید لازمی ضرورتیں ہیں۔ جہاں تک بیورو کریسی کی کرپشن، نااہلی اور آئین و قانون سے گریزاں مسائل کا تعلق ہے اسکا مکمل اور آسان تو انفارمیشن ٹیکنالوجی (اور اب آرٹی فشل انٹیلی جنس) کی شکل میں موجود رحمت سے کم نہیں، جو آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے میں جلد مطلوب نتائج دینے والا آسان اور میسر راستہ اور موجود حل ہے۔ اس پس منظر میں موجودہ گھمبیر سیاسی و آئینی اور اقتصادی اور انتظامی بحرانوں کی موجودگی میں بھی یہ امکان اور حوصلہ دونوں موجود (تھا) ہے کہ پاکستان اس چیلنج کے زور پر دائروں کی اذیت ناک جکڑ سے بہرحال نکلنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ امراض اور قباحتوں کا بہت کچھ سامنے آنے کے ساتھ عوام کی بیداری، نوجوانوں اور خواتین کی قومی زندگی میں سرگرمی نے یہ حوصلہ قائم رکھا ہوا تھا کہ ملک واپس مطلوب راہ پر چل نکلے گا۔

اس حوالے سے تجزیوں، تبصروں اور سوچ بچار کے بعد بڑے فیصد (کوئی 90/80) کیساتھ یہ ہی متفقہ حل مکمل واضح ہو چکا ہے کہ صرف اور صرف شفاف و غیر جانبدار الیکشن ہی اسکی راہِ وحید ہے۔ اس سے کھلا انکار ممکن تو نہ تھا لیکن الیکشن کی آئینی ضروریات سے متصادم جو کچھ ہو رہا ہے اس میں تو واضح ہے کہ اعلان شدہ قریب آئے الیکشن کے مطلوب انعقاد کو روکنے کیلئے انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے اتنی بڑی شر بھی ممکن ہے۔ یہ چند فیصدی طاقتور اولیگارکی کی مزاحمت ہمیں موجود اسٹیٹس پر بھی قائم نہیں رکھے گی۔ یوں مطلوب الیکشن کے خلاف مافیا راج کی کل طاقت اور دہشت و دبدبے کیخلاف عوامی ممکن مزاحمت کے باوجود، ہمارا پستی ، گراوٹ اور دائروں میںر ہ کر بھی گڑھے بنانے اور ان میں گرنے پڑنے اور ڈگمگاتے رہنے کا کام شروع ہی نہیں بلکہ اولیگارکی کی بالادستی کے ماحول میں شروع ہو چکا۔ پی ڈی ایم کی تشکیل، نومولود اور پہلی عمران حکومت کے اس پس منظر میں ہوئی تھی ایمی جیٹ بیک گرائونڈ کے بدستور بیڈ گورننس کے جمہوری عشرے میں بھی اتنا سیاسی استحکام ضرور پیدا ہوا تھا کہ پی پی اور ن لیگ دونوں نے اپنی منتخب حکومتوں کی مقررہ مدت پوری کی ، ملکی سیاسی و جمہوری عمل کے ارتقا میں بڑی پیشرفت تھی۔ ہر دو جماعتوں میں اولیگار کی راج کے دوام کیلئے رواداری بردباری اتنی بڑھی کہ ایک حکومت بنی تو دوسری فرینڈلی اپوزیشن کہلائی، لیکن عوامی مفادات کے حوالے سے ماضی میں عوامی مفادات سے مکمل لاپروائی اور اپنے خاندانوں کی دولت و حیثیت بدستور بڑھتی گئی، جبکہ محرومیاں بھی۔یہ کہنا لغو ہے کہ تحریک انصاف عوامی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد سے بنی۔ ’’ووٹنگ مشین بیٹھنے کا ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ مشین تحریک انصاف کی تیزی سے جیتنے کے زرلٹ آنے پر بیٹھی کیونکہ ڈیزائن میں پی ٹی آئی کو اتنی نشستیں دینا مقصود ہی نہ تھا۔ سو کامیاب ہوتی جماعت کو اپنے دبائو اور اثر میں رکھنے کیلئے تشکیل حکومت کی ضرورت پوری کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کو جان بوجھ کر اسپاٹ لائٹ میں لایا گیا‘‘۔ یوں سادہ اکثریت سے عمران کو وزیراعظم بنانے کا ٹارگٹ احسان عظیم سے کیا گیا جو اتنا عظیم نہیں تھا بلکہ جیسے تیسے الیکشن کےبعد بننے والی حکومتوں جیسا روایتی ہی تھا جو واضح تھا تاہم پی ٹی آئی کو ناقص میڈیا ٹیم کے باعث جیت کی خوشی میں مینج کرنا نہیں آیا، پھر اسکے پاس کوئی بڑا اور عوام کو فوری ریلیف دینے والا عملی پروگرام تو نہ تھا لیکن دونوں روایتی جماعتوں کے برعکس بہتر ماحولیات کیلئے شجرکاری کا منصوبہ،صحت کارڈ، تخفیف غربت کیلئے کامیاب اور شفاف احساس پروگرام دنیا میں بہترین تسلیم کیا گیا، کوویڈ مینجمنٹ اور ساڑھے تین سال میں بھی ڈیڑھ دو سال کی عالمی وبا میں اپوزیشن اتحاد کے اودھم اور مہنگائی پر لانگ مارچ کامیاب پناہ گاہوں، لنگر خانو ںکے قیام اور خلیجی ممالک اور سعودی عرب سے اسیر مزدوروں کی رہائی اور واپسی، پھر زراعت، تعمیرات اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کی وبا کے دوران سرگرمی نے عوام کی امیدوں اور اعتماد کو قائم رکھا۔ پی ڈی ایم کی مہم جوئی سے حکومت اکھڑنے کے بعد جو عوام دشمن اور مافیا دوست سیاسی تبدیلی آئی وہ خود عجیب الخلقت اتحاد خصوصاً ن لیگ،قومی سیاست و معیشت، آئینی و قانون عمل سب کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی، سب ریاستی ادارے تقسیم ہوگئےاور اب انتہا یہ کہ الیکشن 24سے ٹیلر میڈ نتائج لینے کیلئے بدترین کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اتنی بدترین مثال پاکستان تو کیا نیم جمہوری ممالک کی تاریخ میں بھی کہیں نہیں ملتی۔ غضب خداکا کہ غیر آئینی ہوگئی نگران حکومت کی چھتری میں پولیس اور ریٹرننگ اسٹاف کی مکمل عیاں معاونت سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں پہاڑ سی رکاوٹیں ڈالی گئیں اور اس پر چیف الیکشن کمیشن کی شکوک کو یقین میں تبدیل کرنیوالی خاموشی سے ہر سنجیدہ شہری کا ماتھا ٹھنک گیا کہ الیکشن کے پہلے مرحلے میں ہوتا اتنا کھلا کھلواڑ تو اگلے مرحلے میں اور کیا کیا نہ ہوگا اور الیکشن ووٹ کے سخت منتظر عوام کو کیسے ہضم ہوگا؟

تازہ ترین