• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9 مئی کے حوالے سے ’’تحریک انصاف‘‘ کا معاملہ ایک گورکھ دھندا بنتا جا رہا ہے۔ تو کیا یہ محض ایک واہمہ تھا؟ کوئی اشتباہِ نظر تھا؟ کسی جادوگر کی ساحری تھی جس نے ہماری آنکھوں اور دل ودماغ میں کچھ نقوش ثبت کردئیے اور ہم اِن ’’ تخیلاتی ہیولوں‘‘ کو حقیقی مناظر سمجھ بیٹھے؟ اگر ایسا نہیں اور تحریکِ انصاف واقعی 9مئی کو دفاعی تنصیبات پر حملوں کے ذریعے فوج میں بغاوت ابھارنے اور آرمی چیف کا تختہ اُلٹ کر انقلاب برپا کرنے کی سازش کا حصہ تھی تو سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اتنی بڑی باغیانہ واردات کی تمام تر جزئیات کیوں سامنے نہیں آرہیں؟ اسکے منصوبہ سازوں کے چہروں پر ابھی تک کیوں پردہ پڑا ہے؟ سازش کی تمام کڑیاں جوڑ کر پوری کہانی کیوں نہیں کہی جارہی؟

گزشتہ ہفتے، امریکی ریاست ’کولوراڈو‘ کی سپریم کورٹ نے، سابق صدرِامریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ کو پارلیمنٹ (کیپٹل ہِل) پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں، آئندہ صدارتی انتخابات لڑنے کیلئے نااہل قرار دیدیا۔ وہ 4 جنوری تک امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھتے ہیں۔ کولوراڈو عدالت نے ٹرمپ کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا، ’’عدالت کی اکثریت کی رائے کے مطابق، صدر ٹرمپ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین کی چودھویں ترمیم کے سیکشن تین کے تحت، صدر کے عہدے کیلئے نااہل قرار دیاجاتا ہے۔ ہم ان نتائج پر سرسری طورپر نہیں پہنچے۔ زیرنظر سوال کی سنگینی اور دبائو سے ہم پوری طرح آگاہ ہیں۔ اسی طرح کسی خوف، رُورعایت اور اپنے فیصلوں پر عوامی ردّعمل کو خاطر میں لائے بغیر قانون نافذ کرنے کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی بھی ہمارے ذہن میں ہے۔‘‘امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کی کامیابی پر سیخ پا ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فدائین کو اُکسایا کہ وہ احتجاج کیلئے واشنگٹن کا رُخ کریں۔ سوشل میڈیا پر ایک فتنہ ساماں مہم چلائی۔ مشتعل ہجوم نے 6جنوری 2021ء کو امریکی پارلیمان ’’کیپٹل ہِل‘‘ پر ہلّہ بول دیا۔ دو ہزار کے لگ بھگ شرپسند عمارت میں گھُس گئے۔ توڑ پھوڑ اور ہُلّڑ بازی کی۔ وہ دن اور آج کا دن، ریاستی نظم کے ادارے چین سے نہیں بیٹھے۔ ایوان نمائندگان نے نو ارکان پر مشتمل ’’6 جنوری تحقیقاتی کمیٹی‘‘ قائم کی۔ کمیٹی نے وقوعہ کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لئے متعدد ٹیمیں تشکیل دیں۔ ’’گرین ٹیم‘‘ نے جانچا کہ 6 جنوری کے حملے میں کون سا پیسہ استعمال ہوا اور کہاں سے آیا؟ ’’گولڈ ٹیم‘‘ نے جائزہ لیا کہ ٹرمپ نے زور زبردستی کے کون سے حربے استعمال کئے اور کیا کوئی ارکانِ کانگرس بھی اس میں ملوث تھے؟ ’’پَرپَل ٹیم‘‘ نے جانچ پڑتال کی کہ سوشل میڈیا میں آگ بھڑکانے والے عناصر کون تھے؟ ’’ریڈ ٹیم‘‘ نے دیکھا کہ سازش کہاں تیار ہوئی اور منصوبہ ساز کون تھے؟ ’’بلیو ٹیم‘‘ نے شرپسندوں کو اُکسانے والے بیانات اور دھمکیوں کا جائزہ لیا۔ کمیٹی نے ایک ہزار سے زائد شہادتیں قلم بند کیں۔ دس لاکھ سے زیادہ دستاویزات کا جائزہ لیا۔ دولاکھ امریکی شہریوں نے وڈیوز فراہم کیں۔ ڈیڑھ برس کی تفصیلی چھان پھٹک کے بعد کمیٹی نے دسمبر2022 ء میں 845صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ پیش کردی۔ کمیٹی نے ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ ’’کوئی بھی شخص، جو اس طرح کے مخصوص حالات میں ایسا روّیہ اختیار کرے، کبھی دوبارہ کسی بااختیار ریاستی عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ کسی بھی عہدے کیلئے نااہل ہے۔‘‘

پارلیمانی کمیٹی جب اپنا کام کر رہی تھی تو ایف۔بی۔آئی، محکمہ انصاف اور دیگر تمام ادارے بھی پوری طرح متحرک تھے۔ ہزاروں افراد حراست میں لئے گئے۔ سینکڑوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ بیسیوں اب بھی زیرتفتیش ہیں۔ باغیانہ سازش کے الزام میں ہنری ٹیریو کو بائیس سال قید کی سزا ہوئی جو موقع پر موجود بھی نہ تھا بلکہ کئی ماہ سے زیرِحراست تھا لیکن اُسکا تعلق فتنہ گری سے پایا گیا۔ اسٹیورٹ رہوڈس کو 18سال، ایک سابق فوجی ایتھن نارڈین کو 18سال، جوزف بگس کو16 سال اور پولیس افسر سے ہاتھا پائی کرنے والے شخص سپرہیڈ کو ساڑھے سات سال قید بولی گئی۔ اسپیکر نینسی پلوسی کے ڈیسک پر پائوں رکھنے والا رچرڈ بار نیٹ ساڑھے چار سالہ قید بھگت رہا ہے۔

6 جنوری 2021ء کو ’’کیپٹل ہِل‘‘ کی ہُلڑ بازی کا موازنہ پاکستان میں 9مئی 2023ءکے منصوبہ بند حملوں سے کیجئے۔ اہداف کیا تھے۔ کور کمانڈر ہائوس لاہور، سی۔ایس۔ڈی لاہور، عسکری ٹاور لاہور، میانوالی ائیر بیس، پی۔اے۔ایف طیارے، جی۔ایچ۔کیو راولپنڈی، آرمی اسپورٹس اسٹیڈیم راولپنڈی، آئی۔ایس۔آئی دفاتر فیصل آباد، گوجرانوالہ چھائونی، کوئٹہ چھائونی، آئی۔ایس۔آئی حمزہ کیمپ راولپنڈی، ریڈیو پاکستان پشاور، شہداء کے مجسمے اور متعدد دیگر۔ اب تو ہر کہیں آگ ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ شہداء کے مجسموں کی راکھ میں بھی شاید ہی کوئی چنگاری بچی ہو۔ ناقابل فہم ریاستی روّیے کے باعث 9مئی پس منظر میں جاچکا ہے۔ پی۔ٹی۔آئی کو اس حوالے سے کوئی مدافعانہ جنگ نہیں لڑنا پڑ رہی۔ اسکے وکلاء کو فقط سائفر، القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ اور عدّت جیسے معرکے درپیش ہیں۔ اُدھر 8فروری کے انتخابات کا ناقوس بج رہا ہے۔ 9مئی کی غارت گری پس منظر میں چلے جانے کے باعث پی۔ٹی۔آئی انتخابی اکھاڑے میں کھڑی، دامن چاک کئے، مانگ میں راکھ بھرے مظلومیت کا سیاپا کر رہی ہے۔ مشرقی پاکستان کے دورے کے اختتام پر 28مارچ 1948ء کو اپنے الوداعی ریڈیائی پیغام میں قائداعظم نے کہا تھا ’’کوئی بھی حکومت، جو حکومت کہلانے کے لائق ہو، ایک لمحے کیلئے بھی بے مہار اور غیرذمہ دار عناصر کی غنڈہ گردی اور بپھرے ہجوم کی حکمرانی برداشت نہیں کرسکتی۔ اُسے تمام تر دستیاب وسائل اور ذرائع کے بل پر اس سے سختی کیساتھ نبٹنا چاہئے۔‘‘

پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں 9مئی جیسی ’’بے مہار غیر ذمہ دارانہ عناصر کی غنڈہ گردی اور ہجوم کی حکمرانی‘‘ نہیں دیکھی۔ لیکن اس معاملے میں سات ماہ کی خاموشی منظرنامہ بدل رہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو بھی عمومی ریاستی رنجش کے شکار وزرائے اعظم کی صف میں گنا جانے لگا ہے۔خواجہ ناظم الدین سے نوازشریف تک، کسی کے نامۂِ اعمال میں 9 مئی جیسے انگارے نہیں ۔ کسی ایک کو بھی آئینی پارلیمانی طریقے سے معزول نہیں کیاگیا ۔ سب جبر ناروا کا ہدف بنے۔ کوئی حواس باختہ گورنر جنرل ،کوئی رعونت شعار صدر ،کوئی خود پرست فوجی آمر اور کوئی انصاف کش منصفوں کا نشانہ بن گیا۔ ’’انصاف کے زعم میں عمران خان کا اِن مظلوم وزرائے اعظم سے تقابل نامناسب ہے۔‘‘

معاملہ کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں۔ اگر مصلحت اور قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ 9مئی کو قصّہ پارینہ سمجھتے ہوئے گہری قبر میں دفنا کر منوں مٹی ڈال دی جائے تو ایسا کرلیا جائے۔ تحریک انصاف کو جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والی پاکباز پاک دامن جماعت کے طورپر اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے اور اُن اٹھارہ فوجی افسران کی سزائیں بھی منسوخ کرکے انہیں اپنے عہدوں پر بحال کر دیا جائے جنہیں 9مئی کے حوالے سے لائقِ تعزیر سمجھا گیا۔ اور اگر 9مئی واقعی وہی کچھ تھا جو پوری قوم نے دیکھا اور جو پوری قوم کو بتایاگیا اور اِس سے چشم پوشی لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہوگی تو پھر اس معاملے کو ’’عالم برزخ‘‘ کے سردخانے میں ڈالنے کے بجائے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس نوع کے قومی معاملات کو بے یقینی کی صلیب پر لٹکائے رکھنا، ہمہ گیر سیاسی عدمِ استحکام اور انتشار کو جنم دیتا ہے جس کا مداوا کوئی انتخابی مشق بھی نہیں کرسکتی۔

تازہ ترین