• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تھوڑی دیر پہلے گڑھی خدا بخش پہنچا ہوں جہاں پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے 16ویں یوم ِ شہادت کے سلسلے میں مرکزی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے، زندگی کے اس یادگار سفر میں میرے ہمراہ رضا ربانی، گیان چند، تاج حیدر ودیگر ہیں۔ آٹھ فروری الیکشن کے تناظر میں رواں برس 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش ملکی سیاست میں اہم ترین سیاسی مرکزکی حیثیت اختیار کرگیا ہے جہاں محترمہ سے اظہارِ عقیدت کرنے کیلئے انکے شوہر آصف علی زرداری، صاحبزادے بلاول بھٹو سمیت ملک کے کونے کونے سے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، ہر طرف جئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے گونج رہے ہیں ،پیپلز پارٹی کے تین رنگے جھنڈو ں سے سجے استقبالیہ کیمپس میں ہر آنے والے کا پرجوش خیرمقدم کیا جارہا ہے، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور انکی عظیم صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قدآور پوسٹر وں کی بہار اس آفاقی حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے؟ میں نے اپنے دو دہائیوں سے زائدسیاسی کیریئر میں بے شمار سیاسی جلسے جلوسوں میں شرکت کی لیکن آج یہاں گڑھی بخش پہنچ کر نظریاتی جیالوں کے درمیان رہ کر مجھے روحانی سکون مل رہا ہے، گڑھی خدا بخش میں مختلف شخصیات سے بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا، میں نے ویدک علم نجوم کی پیش گوئیوں کو واضح کیا کہ ستاروں کی چال کے مطابق اسلام آباد کا راج سنگھاسن آصف علی زرداری کا منتظر ہے اور آئندہ برس پیپلز پارٹی عوام کے دلوں پر راج کرے گی۔ بیس سال پہلے جب میںعوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر سیاست کے اکھاڑے میں اتراتو میرے سامنے بس ایک ہی مقصد تھا اور وہ آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک و عوام کی خدمت کرنا، میرے سامنے مشکلات کے پہاڑ ،خون کے دریا اور کٹھن حالات تھے جنکا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا، تاہم میں نے ہمت نہ ہاری اورہر قسم کے حالات میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور کلمہ حق بلند کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی محاذ پر ہر طرح کے اتارچڑھاؤ اور سردی گرمی کا سخت مقابلہ کرنے کے بعدآج میں آخرکاراس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہوں جسکا خواب عوام کے دِلوں میں بسنے کی خواہش رکھنے والا ہرسیاستدان دیکھتا ہے۔ تاریخی طور پر گڑھی خدا بخش صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کا ایک گاؤں ہے جسکی بنیاد بھٹو خاندان کے آباؤاجداد خدا بخش بھٹو نے رکھی تھی اور آج اسکی وجہ شہرت پاکستان کیلئے جان کی قربانی دینے والے بھٹو خاندان کی آخری آرام گاہ کے طور پر ہے، یہاں پر پاکستان کے پہلے منتخب عوامی وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو، انکی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو، صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو ، صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو سمیت خاندان کے دیگر افراد مدفون ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے نوے کی دہائی میں اپنے دورِ حکومت میں گڑھی خدا بخش میں عظیم الشان مقبرے کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا،اسلامی اور علاقائی ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے عمارت کا ڈیزائن فائنل کرنے کیلئے مقابلے کا انعقاد کیا گیا اور تمام تر امور کی نگرانی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ذاتی طور پر کی، محترمہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ڈاٹر آف دی ایسٹ میںجنرل ضیاء کے دورِآمریت کے پس منظر میں تذکرہ کیا ہے کہ وہ اور انکی ہمشیرہ صنم بھٹو نہیں چاہتی تھیں کہ مستقبل میں بھٹو خاندان کے کسی فرد کو آخری آرامگاہ کے مقام کیلئے المناک حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ جب محترمہ بے نظیراکتوبر 2007ء میں کراچی پہنچیں تو انکی اولین کوشش گڑھی خدا بخش میں اپنے عظیم باپ کے روبرو حاضری دینا تھی،سانحہ کارساز میں قاتلانہ حملے میں بے شمار بے گناہ جان کی بازی ہار گئے تو محترمہ نے ایسے تمام لاوارث شہداء جنکی شناخت نہیں ہوسکی، انہیں بھٹو قرار دیکر گڑھی خدا بخش میں مدفون کرانے کے انتظامات کرائے اور ترجیحی بنیادوں پر گڑھی خدا بخش حاضری دی، محترمہ کا بھٹو کا چاہنے والوں سے عملی محبت کا مظاہرہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ بدقسمتی سے فقط دو ماہ بعدمحترمہ بے نظیر بھٹو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم سے بچھڑ کر گڑھی خدا بخش میں مستقل طور پر آگئیں۔ آج 27دسمبر کو یوم شہادت کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں آخری آرامگاہ کی زیارت کرتے ہوئے میرے ذہن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے اہم واقعات دوڑنا شروع ہوگئے کہ کیسے انکے عظیم والد بھٹو اہم اجلاسوں اور غیرملکی دوروں میں ہمراہ رکھ کر سیاسی تربیت کیا کرتے تھے، بھٹو صاحب کے دور اسیری کے دوران آخری ایام میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جیل کی کوٹھری میں ملاقاتیں اور پھر عوام کا محترمہ کو مسندِ اقتدار پر فائز کرنایہ سب ہماری تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے۔ شہید رانی نے ہمیشہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے پارلیمانی سیاست کو فروغ دیا،وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام سے اپنا آخری خطاب کرنے کے بعدکارکنوں کے ساتھ اظہارِیکجہتی کررہی تھیں جب انہیں بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا ۔ آج محترمہ بے نظیر شہید ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن گڑھی خدا بخش میں عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندرگواہی دیتا ہے کہ اپنے نام کے مثل بے نظیر شخصیت آج بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین