• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارےایک دیرینہ دوست اور دانشور نے فوج اور سیاستدانوں کو ایسے رہبرانہ مشورے دیئے ہیں کہ وہ اگر سمجھ میں آجائیں تو پاکستان کی عاقبت سنور جائے۔

میں نے ایوب خان کے دور سے ملازمت کی ہے، میں نے ضیاء الحق سے وہ پین ظہور الہیٰ کو مانگتے دیکھا ہے جس پین سے اس نے بھٹوکی پھانسی کے دستخط کیے تھے۔ میں نے بھٹو کے مخالف کا انجام دیکھا ، جج کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا۔ اور پھر لکھنؤ سے عینی آپا نے بتایا تھا کہ دکاندار، دکانیں بند کیے بیٹھے ہیں اوررو رہے ہیں۔ ’’بڑا ظلم ہوا‘‘۔یہ ظلم کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کبھی تم نے دیکھا تھا کہ بلوچستان کی مائیں، بیٹیاں، سخت سردی میں ننگے پیر، تربت ، کوئٹہ سے چلتی ہوئی اسلام آباد میں اپنے بیٹوں، شوہروں کی تصویریں اٹھائے فریاد کر رہی ہیں؟ ہمارے کڑیل جوان انہیں گرفتار کر رہے ہیں، ان پر ٹھنڈا پانی پھینک رہے ہیں اور گرفتاری ڈال رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور منظر نامہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص ان 76برسوں میں ممبر شپ کے مزے لوٹتا رہا پھر ڈھیٹ بن کر میدان میں کہیں نوٹ بانٹتا ، کہیں آٹا، کہیں لیپ ٹاپ اور کہیں بیٹیوں کی شادی اور ملازمت دلانے کی وہی دروغ گوئی ،جو سن سن کر کان پک گئے ہیں۔

گزشتہ 7مہینوں سے 9مئی کی پکڑی ہوئی خواتین اور 152 مرد، بند ہیں شاید ان کو اس جرم کی پاداش میں الیکشن لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی جائیگی۔ یہ جب ٹی وی پر بولتی تھیں تو میں ٹی وی بند کر دیتی تھی۔ مگر اب وہی ہمت والی عورتیں، کھٹملوں کے کمبل اورڑھے اور دال میں کنکر بڑے صبر و سکون سے برداشت کر رہی ہیں۔ مجھے اب وہ پیاری ہیں۔ سب قیدیوں کو چاہیے کہ وہ فی الوقت تحریکوں اور ظلم کے خلاف دنیا بھر میں لڑنے والوں کی کتابیں پڑھیں۔ اپنے نوٹس بنائیں اور آگے قدم بڑھانے کا لائحہ عمل مرتب کریں ۔ مجھے یقین ہے تم نے سات ماہ کی قید کو سنجیدگی سے لیا ہو گا۔ یاد کرو گاندھی ، نہرو، حسرت موہانی، مولانا ابو الکلام آزاد اور محمد برداران اور ان کی اماں۔ پڑھو دنیا بھر کے مزدوروں کی جدوجہد کی کتابیںتم نے رہا ہو کر بھی مزدور ہی رہنا ہے۔ کام کرنے والے دولت کو سر پر نہیں چڑھاتے مجھے یاد ہے جب بے نظیر کی پہلی حکومت آئی تو بہت سے موقع پرست اپنی کمر پر کوڑوں کے نشانات بنوا کر آئے اور انعامات، نوکریوں اور پلاٹوں کے طلب گار ہوئے۔ بے نظیر کمر ننگی کر کے دکھانے کی یہ بے ہودگی برداشت کرتی رہیں۔ پھر کیا ہوا ، ایسے تمام لوگوں حکومت ختم ہونے کے بعد، پتلی گلی سے نکل گئے۔ جان پر کھیلنے والے معراج محمد خان جیسے بہت کم نکلے۔

نواز شریف کو ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دنیا میں غربت دور کرنے کے کون سے عوامل ہیں، جن پر نفسیاتی ، اقتصادی اور سیاسی راستوں کو کھولنا ہےکہ نہ صرف پاکستانی منفی عوامل متحدہو جائیں بلکہ دنیا بھر کے ملکوں میں موسمیاتی اور حکومتی ریشہ دوانیوں کو سمجھ سکیں کہ آخر امریکہ صہیونی قوتوں کو کیوں شہ دے رہا ہے اور پورا یورپ یوکرین کی کیوں مدد کر رہا ہے۔؟ اس میں نقصان قوم کا ہوتا ہے۔ آپ کیلئے شہباز اور مریم بولتے ہیں مگر مریم پیارے باپ کی تعریفوں کے علاوہ ملکی ترقی کے زوایے اور عورت مرد کی تخصیص ختم کرنے کے منصوبے سامنے نہیں لاتی ۔ شہباز نے سات زبانوں کے بولنے کی مہارت کو اپنا طرۂ امتیاز بنایا ہوا ہے۔ آگے بڑھیں تو ایک بھی نگینہ نظر نہیں آتا ۔ باہر کے ملکوں سے برآمد کئے گئے ماہرین ِمالیات کے کرتوت بھی آپ دیکھ چکے۔ آپ اپنے اوپر ظلم کی داستانیں سنا کرزمانہ یاد کروا رہے ہیں۔اب ایسی شعبدہ بازیاں اور پیسے کی ریل پیل کام نہیں آئیگی۔ عوام کو پنجابی میں بڑے بنکر چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھائیں کہ میں بھی جاتی امرا میں نہیں رہوں گا۔ تمہارے ساتھ اپنے ابا کی طرح سلطان کی سرائے میں تو نہیں، اس کو تو زمانہ گزرا،مگر تمہارے ماحول میں رہوں گا ، پڑھے لکھے لوگوں سے مشوے کرونگا۔ انہیں بھی زبردستی سرپر مت چڑھائیں۔ دیہات کے کسانوں، مزدوروں، مجبوروں کے ہاتھ میں پیسہ نہیں، ہنر دیجیے۔ آپ کے ملک میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں آپ کے ملک کے 46فی صد نوجوان، جاہل اور منشیات جیسے کاموں میں جوانی گھلا رہے ہیں۔

آئیے ایک نظر اس پر بھی جو پاکستانی نوجوانوں کا جان جگر ہے مگر امریکی اصطلاح میں بھٹو کی طرح لائق تعزیر ۔ اس حد تک ضرررساں کہ الیکشن ملتوی کیے جانے کو بھی دانشمندانہ اقدام کہہ رہا ہے اس کو بھی شاید الو کا گوشت کھلا دیا گیاہے کہ اب تک کسی موڑ پہ پہنچ کر اسکی سیاسی نکتہ وری نہیں گئی جلالی وظیفے اس کو جتنا خراب کر سکتے تھے، کر چکے وہ دائمی عاشق ہیں۔ مگر کوہ کن ہیں۔ اسے ذہنی بھوک سے زیادہ دیسی مرغی کی غایت کیوں ہے۔ تمہیں رستم و سہراب نہیں بننا۔ اپنے زمانے کا چے گویرا بن سکوگے۔ تم جرابیں پہن کر روضۂ رسول پر گئے تھے۔ وہاں کی ریت نے اس مصنوعی قدم بوسی کو قبول نہیں کیا۔ جانتے ہو صرف خدا پر ایمان کافی نہیں۔ عہد محبت اور ہمت تمہیں ٹوٹنے نہیں دےگی۔ تمہارے اس وقت کے لوگ بندروں کی طرح ایک دوسرے کے منہ لال کر رہے ہیں۔

مجھے ہسپتال میں اسد محمد خان کی چار کتابوں نے بہت سنبھالا ۔ ہر چند قیاس اور گزشتہ صدی کا بھوپال، مالوہ ،اب بھی وہی سرکس، غلامی کرتے بونے جن کو دس دس سال کی بچیوں کا خون لگا ہے۔ لٹیرے جو دن میں افسر اور راتوں کو بوریاں اٹھوانے اور ہر نئے امر کو نیا مال دکھانے کے لیے آئینے میں اتارتے ہیں۔ہر عمر کے اور ہر پیشے کے لوگوں کی ادھڑی کھال اور خوف میں لپٹی خاموشی ہے۔ اس سے وہ گرد اٹھے گی کے آخر کو ساتوں آسمانوں کو دہلا دے گی۔ خدا ، انسان سے مایوس نہیں ہوا، البتہ انسان خدا سے بھیک بھی نہیں مانگ رہا۔

تو پھر میری مانو۔ پاکستان کے سارے دادے، دادیوں کو ہدایت دو کہ گھروں سے نکلیں۔بے عیب اوربے ریا اس ملک کی خدمت کرنے کے جذبات سے۔ محض وعدے نہیں اپنی زمین کے زخم دھو کر ،اپنے بچوں کے منہ میں لقمہ اور ہاتھ میں اللہ کانام لکھنے کی سوغات دیں۔ ہمارے بچے اتنے برے بھی نہیں، انہیںمفت بری کی لت، ہمارے بڑوں نے لگائی۔ وہ سب یا تو زمین میں چھپ گئے ہیں یا پھر اپنی دولت اور جان بچانے کو ملک ملک جھانکتے پھر رہے ہیں۔ یہ ہمارے بوڑھے ہی آخری امید ہیں۔ سب دادا، دادی ہر الیکشن بوتھ پر گھگھیائے ہوئے رنگ روپوں کے چہروں سے نقاب اتارینگے۔ پھر مداریوں کے سارے دائو پیچ ہیچ ہو جائینگے ۔

تازہ ترین