• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ 9 مئی، ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ نہ ملنے کا واویلا، نواز شریف کی قومی سیاست میں ری اینٹری

2023ء کا آغاز ہی نہایت تلاطم خیز تھا۔ جنوری میں پنجاب اور خیبرپختون خوا اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں۔ پنجاب میں محسن نقوی، تو خیبرپختون خوا میں اعظم خان نگراں وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔ تحریکِ انصاف کے بانی، عمران خان کا قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے کے بعد دونوں صوبائی حکومتیں چھوڑنا، سیاسی اعتبار سے ایک اور غلط فیصلہ ثابت ہوا، جس کی انہیں اور ان کی جماعت کو بہت بھاری قیمت چُکانا پڑی۔

دراصل، یہ فیصلہ اس توقّع پر کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عُمر عطا بندیال ان کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے، 90روز میں عام انتخابات ہو جائیں گے اور الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی تحریکِ انصاف ان دونوں صوبوں میں برسرِ اقتدار آجائے گی، لیکن سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے دونوں صوبوں میں 14مئی کو انتخابات کروانے کا حکم تو دیا، لیکن عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ یوں وہ کئی تشنہ خوابوں کی طرح یہ حسرت بھی دِل میں لیے 16ستمبر کو ریٹائر ہو گئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جن کا راستہ روکنے کے کئی جتن کیے گئے تھے، چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے۔

تحریکِ انصاف کی قیادت کی طرف سے معمولی نوعیت کی سیاسی غلطیوں کا سلسلہ تو چل ہی رہا تھا، مگر پھر’’ آبیل مُجھے مار‘‘ کے مصداق ایک ایسا ’’بلنڈر‘‘ کیا گیا، جس نے کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔دراصل، 9مئی کو سابق چیئرمین پی ٹی آئی 7مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ گئے، تواسی دوران اُنہیں القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں احاطۂ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری سے قبل ہی مسلسل کئی ماہ سے یہ بیانیہ متشکل کیا جا رہا تھا کہ تحریک ِانصاف کے کارکنان کے لیے عمران خان ’’سُرخ لکیر‘‘ ہیں، جسے عبور کرنے کی کوشش کی گئی، تو حالات خراب ہوجائیں گے۔ 

یعنی جس طرح ایم کیو ایم کے کارکنان کہا کرتے تھے کہ ’’اُنہیں منزل نہیں، رہنما چاہیے‘‘، اسی طرز پر پی ٹی آئی کے وابستگان کی ذہن سازی کی گئی کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے، تو پھرمُلکی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائےگی۔ چناں چہ عمران خان کو حراست میں لیے جاتے ہی پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور پھر نہ صرف جلائو گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا بلکہ ایک طے شُدہ منصوبے کے تحت عسکری تنصیبات، حسّاس اداروں کے دفاتر اور کور کمانڈرز کی سرکاری رہائش گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں، سابق چیف جسٹس، عُمر عطا بندیال کے حُکم پر عمران خان کو مرسیڈیز میں عدالت لایا گیا۔ 

اس موقعے پر چیف جسٹس نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے سامنے پا کر کہا کہ ’’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘‘ اور پھر اسلام آباد پولیس کے گیسٹ ہائوس میں اُن کے قیام کا بندوبست کیا گیا۔ اپنی گرفتاری غیر قانونی قرار دیے جانے پر عمران خان رہا تو ہو گئے، مگر ابتلا و آزمائش کے ایک طویل سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ سانحہ 9مئی کے ضمن میں مقدّمات درج ہونے کے بعد ایسی بااثر شخصیات کو بھی کٹہرے میں لایا گیا کہ جن سے متعلق ماضی میں تصوّر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ 

مثال کے طور پر سابق آرمی چیف، جنرل (ر) آصف نواز جنجوعہ کی نواسی، خدیجہ شاہ، سابق کور کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل (ر)جمیل حیدر کی اہلیہ اور سابق رُکن قومی اسمبلی، روبینہ جمیل کو حراست میں لیا گیا، جو تادمِ تحریر رہا نہیں ہو سکیں۔ بتدریج مشکلات بڑھیں، تو تحریکِ انصاف کے رہنما خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح جھڑنے لگے۔ 

پہلے پریس کانفرنسز کے ذریعے لا تعلقی کے اعلانات ہوئے، پھر ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے اچانک منظرِ عام پر آنے اور پی ٹی آئی سے راہیں جُدا کرنے کا رُجحان چل نکلا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ عمران خان گرفتار ہی نہیں ہوئے، بلکہ پارٹی کی سربراہی سے بھی محروم ہو چُکے ہیں اور ان کی جگہ بیرسٹر گوہر علی خان پی ٹی آئی کے چیئرمین کا عُہدہ سنبھال چُکے ہیں۔

انہی ہنگامہ خیز حالات و واقعات کے دوران پی ڈی ایم کی حکومت اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد وفاق، سندھ اور بلوچستان میں بھی نگراں حکومتیں قائم کر دی گئیں۔ نیز، ایک بار پھر یہ بحث شروع ہو گئی کہ 90روز میں انتخابات ہوں گے یا نہیں، جب کہ اس حوالے سے بھی ابہام تھا کہ انتخابی شیڈول کا اعلان صدرِ مملکت کی ذمّے داری ہے یا پھر الیکشن کمیشن کا اختیار۔ 

بہر حال، جب معاملہ سپریم کورٹ گیا، تو 8فروری کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا گیا، مگر اس کے باوجود تحفّظات، چہ مگوئیوں ،سرگوشیوں، افواہوں کا سلسلہ نہیں رُکا اور شاید اس طرح کی باتیں تب تک ہوتی رہیں گی، جب تک عام انتخابات ہو نہیں جاتے۔

ساتھ ہی ایک نیا راگ بھی الاپاجانے لگا کہ ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘دست یاب نہیں۔ بہ ظاہر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یک ساں مواقع فراہم کیے جائیں، لیکن ہمارے ہاں ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کا حقیقی مفہوم کچھ اور ہے۔ اس وقت تحریک ِانصاف کے بعد پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت ہے، جو ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ 

دراصل، پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقین تھا کہ اب انہیں ’’سلیکٹ‘‘ کیا جائے گا اور اس یقین کا سبب ماضیٔ قریب میں اُن کی ’’خدمات‘‘ ہیں۔ پی پی قیادت کو توقّع تھی کہ جب سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گا، تو بلوچستان عوامی پارٹی پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کی جائے گی، مگر پلیٹ میاں نواز شریف لے اُڑے۔ پھر پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ بھی خیال تھا کہ پی ٹی آئی میں اکثریت نواز شریف مخالف سیاست دانوں کی ہے اور نا مہرباں موسموں میں حالات سے تنگ یہ موسمی پرندے ان کی منڈیر پر آبیٹھیں گے، لیکن یہ سوچ بھی خیالِ خام ثابت ہوئی۔ 

خیبر پختون خوا میں پرویز خٹک نے اپنا الگ دھڑا بنا لیا، جب کہ پنجاب میں استحکامِ پاکستان پارٹی کے نام سے ایک نئی ’’پناہ گاہ‘‘ وجود میں آ گئی۔ پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی، مگر حالات ایسے بدلے کہ اُس کے لیے سندھ میں اقتدار بچانا بھی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (نون) نے ایم کیو ایم، پاکستان سے اتحاد کر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی، تو دوسری طرف سابق ڈی جی ایف آئی اے، بشیر میمن کو صوبائی صدر تعیّنات کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ کراچی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ملے گی۔

یوں تو سانحہ9مئی، عمران خان کا طویل عرصے کے لیے جیل جانا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس آف پاکستان بننا بھی 2023ء کےبڑے واقعات ہیں، مگر اس سال کی سب سے بڑی خبر مسلم لیگ (نون)کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم، میاں نوازشریف کی مُلکی سیاست میں واپسی ہے۔ آپ چاہے انصافیے ہوں، جیالے، متوالے یا پھر نیوٹرل، ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ میاں نواز شریف قسمت کے دھنی ، مقدّر کے سکندر ہیں۔ 

ذوالفقار علی بُھٹّو جیسے زِیرک سیاست دان کے ستارے گردش میں آئے، تو وہ موت کے منہ سے نہ بچ پائے، مگر میاں نواز شریف بار بار موت کو جُل دینے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1993ء میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان سے اَن بن کے بعد سب کا خیال تھا کہ ’’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ والی تقریر کرکے نوازشریف نے سیاسی خُود کُشی کرلی ہے، مگر سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کر دی۔ گرچہ پھر ’’کاکڑ فارمولے‘‘ کے تحت صدر اور وزیرِ اعظم دونوں ہی کو گھر جانا پڑا۔ بعد ازاں، عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کام یابی حاصل کی اور بے نظیر بُھٹّو وزیرِ اعظم بن گئیں، مگر پھر چند سال بعد میاں نواز شریف ہیوی مینڈیٹ لے کر دوسری بار وزیرِ اعظم بن گئے۔ 

تاہم، حقیقت پسندی سے کام لینے کی بہ جائے نواز شریف نے ایک بار پھر خود کو ایک بااختیار وزیرِ اعظم سمجھتے ہوئے پاک بحریہ کے سربراہ، ایڈمرل منصور الحق کو کرپشن کے الزامات پر ملازمت سے برخاست کر دیا۔ اسی طرح چیف جسٹس سجّاد علی شاہ نے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کو عدالت کے ہتھوڑے سے کُچلنے کی کوشش کی، تو نہ صرف اُنہیں گھر جانا پڑا بلکہ اُن کے سرپرست، اُس وقت کے صدرِ پاکستان، فاروق لغاری بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔ آرمی چیف، جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کی تجویز دی، تو نتائج کی پروا کیے بغیر اُنہیں بھی گھر بھیج دیا۔ 

چُوں کہ اس قدر بااختیار سربراہِ حکومت کسی کو گوارہ نہیں تھا، تو نواز شریف کے دماغ سے سویلین بالادستی کا خنّاس نکالنے کے لیے جنرل پرویز مشرف جیسے معالج کی خدمات حاصل کی گئیں۔ نواز شریف کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے گرفتار کر کے لاپتا کردیا گیا۔ پھر اُن کے خلاف طیّارہ ہائی جیکنگ کا مقدّمہ درج ہوا اور نتیجتاً عُمر قید کی سزا ہوگئی۔ تب فوجی حُکم راں کا منصوبہ تھا کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے عُمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کروادیا جائے، لیکن ایک دن اچانک سعودی عرب سے شاہی جہاز آیا اور شریف خاندان کو موت کے منہ سے بچا کر جدّہ کے سرور پیلس لے گیا۔ 

اُس وقت جنرل پرویز مشرف نہایت متکبّرانہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ ’’نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی‘‘۔ لیکن پھر بے نظیر بُھٹّو پاکستان واپس آئیں، تو اُنہیں مجبوراً نواز شریف کو بھی وطن واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف تیسری بار وزیرِ اعظم بننے میں کام یاب ہوں گے، لیکن یہ اَن ہونی بھی ہوکر رہی۔ 

توقّع تو یہ تھی کہ اب ان کا دماغ دُرست ہو چُکا ہوگا، مگر ’’ وہی ڈھاک کے وہی تین پات‘‘ انہوں نے ایک بار پھر ’’مُجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی دُہائی دینا شروع کر دی۔ احتساب عدالت سے سزا کے بعد لندن گئے، تو بیش تر افراد کا خیال تھا کہ اب لوٹ کر نہیں آئیں گے، مگر ایک بار پھر سارا بندوبست دھرے کا دھرا رہ گیا اور نشانِ عبرت بنانے کا دعویٰ کرنے والے خُود گردِ راہ ہو گئے۔

میاں نوازشریف، چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد 21 اکتوبر 2023ء کو پاکستان واپس لوٹے اور مینارِ پاکستان پر ایک بھرپور سیاسی جلسے سے خطاب کر کے مُلکی سیاست میں ہل چل مچا دی۔ اُن کے راستے میں حائل تمام قانونی رُکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ پہلے اُنہیں حفاظتی ضمانت ملی اور پھر انہیں سُنائی گئی سزائوں کے خلاف اپیلز پر سماعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ 29نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں باعزّت بَری کر دیا۔ فلیگ شب ریفرنس میں احتساب عدالت ہی نے میاں نواز شریف کو بَری کردیا تھا۔ 

اس فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت تھی، جسے نیب نے واپس لے لیا۔ احتساب عدالت کے جج، ارشد ملک کی طرف سے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سُنائی گئی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت شروع ہوئی، تو مذکورہ جج کی ویڈیو کا معاملہ زیرِبحث آیا۔ اس موقعے پر میاں نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ چُوں کہ جج ارشد ملک فوت ہو چُکے ہیں، اس لیے وہ یہ معاملہ اُٹھانے کی بہ جائے میرٹ پر کیس کے فیصلےکی استدعا کرتے ہیں۔

چناں چہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں بھی میاں نوازشریف کو باعزّت بری کر دیا۔ تاہم، اس حوالے سے قانونی ماہرین کے درمیان اختلاف موجود ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 62F(1)کے تحت نااہلی کی مُدّت پانچ سال کیے جانے کے بعد تاحیات نااہلی ختم ہو ئی یا نہیں، مگر اس حوالے سے بھی متعدّد درخواستیں زیرِ التوا ہیں اور امید ہے کہ عام انتخابات سے قبل یہ گُتّھی بھی سُلجھا دی جائے گی۔ دوسری جانب میاں نواز شریف مسلسل احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دسمبر کے دوسرے ہفتے میں پارلیمانی بورڈ کے پانچویں اجلاس میں اُنہوں نے ایک بار پھر یہ بات دُہرائی کہ’’ جنہوں نے میرے اور میرے خاندان کے خلاف جعلی مقدّمات بنائے، اُن سے کوئی پوچھے گا کہ آپ نے یہ مقدّمات کیوں بنائے؟ ہمارا صرف یہ مقصد نہیں کہ عام انتخابات جیت کر حکومت بنائیں یا وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ بن کر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے رہیں۔ ہم اگر مُلک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، تو دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی بھی چاہتے ہیں اور جعلی مقدّمات کے ذمّے داروں کا احتساب بھی‘‘۔

اس حوالے سے تو اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ 2024ء انتخابات کا سال ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد سیاسی استحکام بھی حاصل ہوسکے گا؟ کیا نئی منتخب حکومت مُلک کو درپیش سنگین معاشی مسائل حل کر پائے گی؟بہ ظاہر لگتا ہے کہ مسلم لیگ (نون) انتخابات جیت کر حکومت بنانے میں کام یاب ہوجائے گی اور ممکن ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے میں بھی کام یاب ہوجائیں، مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان کا یہ عہد سابقہ ادوار سے کتنا مختلف ہو گا؟ گزشتہ کئی برس سے ہر آنے والا سال پہلے کی نسبت زیادہ پُرآشوب اور ہنگامہ خیز ہی ثابت ہوتا ہے، تو کیا 2024ء میں اس سیاسی تلاطم خیزی میں کچھ کمی آئے گی؟ یہ پُرانے سوالات ہیں، مگر ہر نئے سال کی آمد پر اندیشہ ہائے دُور دراز کی مانند پریشان کرتے ہیں۔البتہ بہ ظاہر لگتا ہے کہ 2024ء نسبتاً پُر امن سال ہوگا۔