سالِ رفتہ کے’’حرفِ آغاز‘‘ کی ابتدا بھی رحمان فارس ہی کے کچھ اشعار سے کی تھی، اِمسال بھی اُن ہی کی ایک نظم سامنے ہے ؎ ’’کوئی گِنےتوکس طرح…کہ پچھلے سال کتنے خواب، اُدھڑی چارپائیوں پہ اپنی موت آپ مَر گئے…نہ جانے کتنی حسرتیں، پرانی لاریوں کے شور میں کہیں بکھر گئیں…کسے خبر، کہاں کہاں…گلی محلّوں میں بہکتی نوجواں کہانیاں… جنازہ گاہ کاغبارہوگئیں…نہ جانےکتنےراہ رَو چلے، پہنچ نہیں سکے…نہ جانےکتنےخط لکھےگئے، پہنچ نہیں سکے…کسے خبر…یہ بارہ ماہ کتنے آنگنوں کے کتنے مہرو ماہ کھا گئے…حساب ہوتوپھرکہیں پتاچلے…کہ اس برس بھی کائنات میں سُکوں، اذیّتوں سےکم رہا…خُوشی کو پھر شکست دے کے کام یاب غم رہا۔‘‘
خصوصاً لہو رنگ ارضِ فلسطین، سفید کفنوں سے اَٹی پڑی غزہ پٹّی اوراپنی ویران، سونی آنکھوں سے اُمّتِ مسلمہ کی بےحسی و بےبسی پہ گریہ کُناں مسجدِ اقصیٰ کےتناظر میں توسالِ رفتہ کو’’عام الحزن‘‘(غم و اندوہ کا سال) کہا جائے، تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ؎ ’’پھر غزہ کے خال و خد پر خون کا غازہ لگا…اور مَیں چُپ ہوں، مِری غیرت کا اندازہ لگا…اب صلاح الدّین ایّوبی تو آنے کا نہیں…زندہ رہنا ہے، تو اپنےدل کوآوازہ لگا…جو بکھرتا جارہا ہے، ظلم کے طوفان میں…چشمِ نم کو نسلِ انسانی کا شیرازہ لگا۔‘‘
گرچہ اس خوں ریز المیے کی ابتدا سال کی آخری سہ ماہی میں، (7 اکتوبر کو) حماس کے ایک ٹارگٹڈ حملے کے بعد ہوئی، لیکن تاحال وہاں کُشت و خوں، قتل و غارت گری کا جو بازار گرم ہے، تاریخ انسانی میں ایسی تباہی و بربادی، بربریت و جنونیت اور سفّاکانہ نسل کُشی کی مثالیں کم کم ہی ملتی ہیں کہ ہر طرح کے انسانی و جنگی حقوق و قوانین پیروں تلے روند ڈالےگئے۔ نہتّے، بےگناہ مرد و خواتین، معصوم بچّوں، بوڑھوں، بیماروں، معذوروں، حتیٰ کہ نومولودوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
اِس ضمن میں رحمان فارس ہی کی غزل کے اشعار ہیں ؎ ’ ’بچّہ ہے، اِس کو یوں نہ اکیلے کفن میں ڈال…ایک آدھ گڑیا، چند کھلونے کفن میں ڈال… نازک ہے کونپلوں کی طرح میرا شِیرخوار… سردی بڑی شدید ہے، دہرے کفن میں ڈال… ننّھا سا ہے یہ پائوں، وہ چھوٹا سا ہاتھ ہے… میرےجگرکےٹکڑوں کے ٹکڑے کفن میں ڈال…مجھ کو بھی گاڑ دے، مِرے لختِ جگرکے ساتھ…سینے پہ رکھ اِسے، میرے کفن میں ڈال…عیسیٰؑ کی طرح آج کوئی معجزہ دِکھا …یہ پھر سے جی اُٹھے، اِسے ایسے کفن میں ڈال۔‘‘
جب کہ تادمِ تحریر اقوامِ عالم کے عامتہ النّاس کے شدید احتجاج کے باوجود (یاد رہے، 2023ء میں سوشل میڈیا پر’’فِری فلسطین‘‘ ٹاپ ٹرینڈ رہا) مقتدرین کی طرف سے جنگ بندی کی سمت کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی کہ ؎ فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔ رہی نام نہاد’’اُمّتِ مسلمہ‘‘ تووہ توازل سےخوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ بڑا تیر مارا، تو ’’او آئی سی‘‘ کا ایک بےنتیجہ اجلاس منعقد کر لیا۔ اللہ اللہ خیرسلّا۔
پورےسال میں صرف ایک قابلِ ذکر پیش قدمی دیکھی گئی، سعودی عرب، ایران سفارتی تعلقات کی بحالی، اور وہ بھی چین کے مرہونِ منّت، وگرنہ شام، سوڈان، یمن بدستور بدامنی، خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں، مصرمیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوتی رہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت کے،کشمیرکی خصوصی حیثیت کےخاتمے کا فیصلہ برقراررکھا۔ توہینِ قرآن کے واقعات تک کا سدِّباب و تدارک نہ ہوسکا۔ ہاں، ترکی، ملایشیا، مالدیپ وغیرہ میں انتخابات اور خصوصاً طیّب رجب اردوان کی مسلسل چَھٹی کام یابی کسی قدر خوشی کی خبر ضرور تھی کہ اگر ’’نقّار خانے‘‘سےاس طوطی کی آوازبھی آنا بند ہوگئی، تو پھرتو چہار سُو مہیب سنّاٹا ہی رہ جائے گا۔
سال 2023ء کا آغاز ہی ترکیہ، شام میں قیامت خیز زلزلے سےہوا۔ 6 فروری کو آنے والے اس زلزلے کی شدت 7.8 اور گہرائی 17.9 کلومیٹر تھی، جس میں 60,000 کے لگ بھگ ہلاکتیں ہوئیں،جب کہ شہر کےشہرکھنڈربن گئے۔ روس، یوکرین جنگ کے خاتمے کی تو کوئی صُورت نہ بنی، البتہ رشیا کو ویگنر جنگجوؤں کی بغاوت کا سامناضرورکرنا پڑا۔ فرانس میں عیدالاضحیٰ سےعین ایک روزقبل17سالہ مسلمان نوجوان، نحل مرزوق کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد مشتعل افراد کی طرف سے ہنگامہ آرائی کاایک نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس میں کم ازکم ڈھائی ہزارمقامات پرآگ لگائی گئی (یاد رہے، فرینچ پولیس ایسی کارروائیوں کی شہرت رکھتی ہے۔ سال 2022ء میں بھی اِن کے ہاتھوں 13 افراد ہلاک ہوئے)غیرقانونی طور پر یورپ میں داخلے کے خواہش مند تارکینِ وطن سال بھر سمندروں کا رزق بنتے رہے۔ ایک سو سے زائد لاشیں توپاکستان نےوصول کیں۔
کینیڈا میں سِکھ رہنما کے قتل سے بھارت کوعالمی سطح پر ہزیمت اُٹھانی پڑی، تو وہیں اُس کے چندریان۔3 کے چاند تک پہنچنے، کئی عالمی کانفرنسزکی میزبانی کےاعزاز، نئی تجارتی راہ داری کے اعلان، خصوصاً دہلی میں منعقدہ جی۔ ٹوئنٹی اجلاس اوراوڈی آئی کرکٹ ورلڈکپ کی میزبانی سے ’’شائننگ انڈیا‘‘ کے تصوّر کومزید جِلا بھی ملی، جب کہ نریندرمودی کواصل ثمر تو 2024ء کےعام انتخابات سے ملنے کی توقع ہے۔ پھر27 جولائی کو ہیومنائیڈروبوٹس کا اقوامِ متحدہ کے سربراہی اجلاس کےموقعے پردنیا کےذہین ترین انسانوں سے خطاب، 76 سالہ چارلس سوم کی تاج پوشی، گوگل کی 25 ویں سال گرہ، ٹوئٹر کا ’’ایکس‘‘ہوجانا، نظامِ شمسی سے باہر کے سیارے ’’ایگزوپلینٹ‘‘ کا سُراغ، چیٹ جی پی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے فروغ، اوشیئن گیٹ کمپنی کی ٹائٹن آب دوز کی تباہی اورسوار5 افراد کی ہلاکت،20 برس بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی ملاقات، نیز دسمبرمیں ہونے والی کوپ۔28 (موسمیاتی کانفرنس)’’عالمی منظرنامے‘‘ پرنمایاں ہونے والے وہ حالات و واقعات ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر 2023ء کا مکمل جائزہ ممکن ہی نہیں۔
’’مُلکی منظرنامے‘‘ پربات کا آغاز ہی اِس شعر سےکیا جائے ؎ ’’ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پِھرتے ہیں…ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں‘‘، توہرگزبےجا نہ ہوگا کہ سالِ رفتہ کے پیشانی پہ ’’سانحۂ9 مئی‘‘ کی صُورت جو گہراداغ لگا، اُس کا ذکر اگربہ اندازِ فیض ہو کہ ؎ ’’خون کے دھبّےدُھلیںگے، کتنی برساتوں کے بعد۔‘‘ تو شاید یہ کالک اب روزِحشر ہی دُھل پائے۔ 71ء میں مُلک دولخت ہونےکے بعد مُلکی سطح پراِس سے بڑا المیہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔
سانحۂ اے پی ایس کا کاری وار یوں سہہ لیا گیا تھا کہ وہ مُلک دشمن کاحملہ تھا، مگراپنی قومی، سرکاری املاک، اپنے ہی شہداء کی یادگاریں تہہ تیغ کرنے، دانستہ فوج میں پُھوٹ، تقسیم، منظّم بغاوت کی کوشش اور اِن ناپاک عزائم و مقاصد میں سیاسی کارکنوں، خصوصاً خواتین کےاستعمال کو،علاوہ مُلک دشمنی یاانتہا درجے کی شیطانیت کے، کیا نام دیا جا سکتاہے۔ ’’پراجیکٹ عمران‘‘ کے بھیانک انجام کی پیش گوئیاں توتھیں، لیکن اتنا بھیانک… الامان الحفیظ۔۔ ویسےعمومی طور پر بھی سالِ گزشتہ کے بطن سے کسی خاص اچھائی نے جنم نہیں لیا۔ ہماری 15 ویں قومی اسمبلی کی مدّت دو وزرائے اعظم نے مِل کر پوری کی، جس کا آخری ڈیڑھ سال ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کے حصّے آیا، لیکن یہ اسپیڈ صرف کمر توڑ منہگائی اور اسمبلی سے بِلز منظوری کے ضمن ہی میں دکھائی دی۔
نوجوان وزیرِ خارجہ کے لیے تو انور شعور کی یہ رباعی ہی بہت ٹھہری کہ ؎ وزیرِ خارجہ حسبِ ضرورت… کسی بھی مُلک کے دورے پہ جائیں…مگر درخواست ہے اُن سے ہماری…وہ پاکستان بھی تشریف لائیں۔ کیوں کہ بمشکل ڈیڑھ سالہ دورِ اقتدار میں انہوں نے خیر سے11ممالک کے 20 دورے فرمائے، جن میں سے7 میں ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کی ہمرہی بھی حاصل رہی (اور ہمارے حُکم رانوں کےایک سرکاری دورے پراندازاً کیا لاگت آتی ہے، عام آدمی اس تفصیل سے محروم ہی رہے، تو اچھا ہے کہ لاعلمی، بےخبری بڑی نعمت ہے)۔ سالِ رفتہ ہر طرح کے جرائم، خصوصاً اسٹریٹ کرائمز کی تعداد (حتیٰ کہ اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی شرح) میں بےپناہ اضافہ دیکھا گیا۔
خُودکُش حملوں، دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات ہوئے، پھر سال بھر کئی کارروائیوں اور مقابلوں میں فوجی جوانوں کی شہادتیں بھی ہوتیں رہیں۔ آتش زدگی کے متعدّد جان لیوا واقعات ہوئے۔ سال بھر آڈیو، ویڈیولیکس کا سلسلہ جاری رہا،توتحریکِ انصاف کی ’’بچہ پارٹیوں‘‘ کےجنم کی تقریبات کے ساتھ پریس کانفرنسز کا بھی خاصا شور ہنگامہ دیکھا گیا۔ ’’سائفر ڈراما‘‘ بُری طرح فلاپ ہونے کے باوجود مُلکی رسوائی کا سبب بنا، تو اگست میں ہونے والے سانحۂ جڑانوالہ نے بھی، جس میں مشتعل ہجوم نے مسیحی برادری کے90 گھراور 19 گرجاگھر منہدم، جلا کرخاکستر کیے، بین الاقوامی طور پر ہماری ساکھ شدید متاثر کی۔ مطلب، مُلکی آئین کی گولڈن جوبلی کے سال میں، آئین کے ساتھ ہر طرح کا کھلواڑ ہوا۔
گرچہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی ایک رپورٹ کےمطابق’’پولیس اورعدلیہ پاکستان کے تین کرپٹ ترین اداروں میں شامل ہیں‘‘، لیکن بہرحال، ایک اچھی خبر یہ رہی کہ ’’گُڈ ٹُو سی یوفیم‘‘ چیف جسٹس کی رخصتی کے بعد، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مسندِ عدل سنبھالی، تو کچھ بہت مثبت، نئی روایات کابھی آغازکیا، جن میں پہلی بار براہِ راست عدالتی کارروائی نشرکرنے کےساتھ، زیرِالتواء مقدمات تیزی سے نمٹانے کا فیصلہ اور بالآخرعام انتخابات کی تاریخ کا اعلان وغیرہ شامل ہیں۔
وہ کیا ہے کہ ؎ ظلم بچّےجَن رہاہے، کوچہ وبازار میں…عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہوناچاہیے، تو چلیں، سالِ رفتہ کےاُفق سے بھی آس واُمید کی کچھ کرنیں تو پُھوٹیں۔ غیر قانونی طور پرمقیم افغان مہاجرین کے انخلاء کا فیصلہ بھی اس اعتبار سے مثبت پیش رفت ہے کہ کم ازکم کسی معاملےمیں تو ہم نے اسٹینڈ لیا۔ گرچہ لاہور، کراچی نے پچھلے کئی برسوں کی طرح آلودہ ترین شہروں کا ریکارڈ اپنے پاس ہی رکھا، مگر اسموگ سےنجات کےضمن میں پہلی بارمصنوعی بارش بھی اچھا عملی قدم تھا۔ ویسے تو 2023ء کو ’’نوجوانوں کا سال‘‘ قرار دیا گیا، مگر عمومی طورپراُن کی زندگیوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی کہ سال بھر’’برین ڈرین‘‘ کا سلسلہ جاری رہا۔ ہاں البتہ، 16 سالہ پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور چیمہ کا اولیولز میں34 ایزکا ورلڈ ریکارڈ یقیناً ایک بڑا کارنامہ ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد، شہرکی کچھ شکل نکلتی دکھائی دی، تو وفاق کےگرین لائن پراجیکٹ کی بھرپور پذیرائی کےبعدصوبائی حکومت کی طرف سے پنک بس سروس کےآغاز اور پیپلز بس سروس کے نئے روٹس سےبھی کسی حد تک اشک شوئی ہوئی۔ پی ایس ایل میں ’’لاہور قلندرز‘‘ کی فتح نے شائقینِ کرکٹ کوخُوشی دی، تو وہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی سے خاصی مایوسی بھی ہوئی۔ لگ بھگ چار سالہ خُود ساختہ جلاوطنی کےبعد 16اکتوبر کو نوازشریف کی لاہور آمد، مینار ِپاکستان پر بڑا جلسہ بھی سال کی اہم خبرتھی، جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری، سانحہ 9 مئی سے لے کر بلّے کے بغیر اور پھر بلّے کے ساتھ میچ کھیلنے تک جوجوکچھ ہوتا رہا، اُس کےلیےالگ سے ایک کتاب لکھنےکی ضرورت ہے۔
ہاں، جاتے جاتے پاکستانی قوم کی ذہنی سطح، اپروچ کا اندازہ لگانے کے لیے یہ خبر بھی سُن لیں کہ سالِ رفتہ ہم نےجوچارنام سب سے زیادہ گوگل کیے، وہ ہیں، حریم شاہ، علیزے سحر، سارہ نیلم اور فاطمہ طاہر۔ عامرامیر نے کورونا وَبا کے تناظر میں کہا تھا کہ ؎ اچھا نہیں لگا، یہ تِرا دوہزار بیسں…مولا! یہ سال ایک دفعہ پھرسےشروع کر۔ لیکن ہماری باری تعالیٰ سے یہی دُعا ہے کہ کم ازکم پچھلے 4،5 برس تو ہماری زندگیوں میں کبھی دوبارہ لوٹ کرنہ آئیں۔
بہرکیف، حسبِ روایت ہم سالِ گزشتہ کا ایک عمومی تجزیہ دو سے تین شماروں کی صُورت پیش کرنےجارہےہیں۔ ہاں، اگرآپ ’’مُلکی حالات و واقعات‘‘ ایک جھلک میں دیکھنا چاہیں، تو ہمارا یہ جریدہ دیکھ لیں، جوسو، ڈیڑھ سو صفحات کے’’سال نامے‘‘ سےآغاز ہو کے آج محض چند صفحات تک سکڑ گیا ہے، بعینیہ مُلکی معیشت کی مانند۔ سُنتے ہیں، کبھی ہم جرمنی، جاپان جیسے ممالک کو قرض دیا کرتے تھے، پراب عالم یہ ہے کہ ؎ دن درد کے جو شمار کروں گا سال کے…پورے بنیں گے تین سو پیسنٹھ ملال کے…ھندہ مزاج ہے یہ ریاست، غریب لوگ…خُود پیش کررہے ہیں، کلیجہ نکال کے۔
تو، ہم نےتوجیسے تیسے ’’سال نامے‘‘ کے نام پر ایک، دومنحنی سے جرائد تیارکرہی دیئے ہیں اور اپنےتئیں ہرممکن سعی بھی کی کہ کارخانۂ حیات کا کوئی گوشہ، پہلو تشنہ نہ رہ جائے، لیکن آپ کومکمل سیرابی کے لیےاگلے شماروں کا بھی دل جمعی سےمطالعہ کرنا ہوگا کہ چیدہ چیدہ شعبہ ہائے زندگی کے تجزیات کے لیے بھی 25 سے 30صفحات تو درکارہوتےہی ہیں۔
آخر میں، ہرسال کی طرح وہی بات دہرائے دیتے ہیں کہ دورانِ مطالعہ کوئی کمی بیشی، کوتاہی، زیادتی محسوس ہوتواپنی رائےسےضرور مطلع کیجیے۔ کچھ سیکھیں، حاصل کریں، توداد کے ساتھ جہاد بالقلم کے رستے پر گام زن ادارے کے لیے دستِ دُعا بھی ضرور بلند کریں کہ ’’ادارے سلامت رہنےچاہئیں، لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘ اور… تمام تر نااُمیدیوں، مایوسیوں کے باوجود سالِ نو کے لیے بزبانِ علی زریون یہی کہیں گے کہ ؎ یا خدا! یا الہیٰ! بس اب تو تسلی میں بھیگی ہوئی کوئی اِک بات ہو…مستحقِ سزا ہی سہی ہم، مگر کوئی خیرات ہو…آنے والے سمے کو اجالوں سے بَھر…خالی ذہنوں کواچھےخیالوں سےبَھر…سوچ کےزاویوں کوسوالوں سے بَھر …جو گلے مل نہ پائے،وہ پھرمِل سکیں…پھول، نظمیں ہراِک شاخ پرکِھل سکیں…ہم جو ماضی ہوئے جارہے ہیں… ہمیں روشنی کا کوئی حال دے…اِس برس ہربلا، ہر وَبا ٹال دے…اب حقیقت میں ہم کونیا سال دے!!۔
نرجس ملک
ایڈیٹر، جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘