• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کو ن بنائے گا

جیسے قرضوں پر ملک چل رہا ہے اسی طرح قرضوں پر سیٹوں کا کاروبار چلے گا، شاید اس لئے کہ یہاں تاحال جمہوریت کا چہرہ واضح نہیں اور سیاست مسخ ہے، حیرانی ہے کہ دیکھتے ہی آن کی آن میں ایک سیاسی جماعت سامنے آدھمکتی ہے، دو پارٹیاں تو پی ٹی آئی نے جن دیں۔یار لوگوں نے سیاسی ڈھانچے کو مختصرکرنے کے لئے مقدمات کی تفصیل بھی سامنے رکھ دی تاکہ چندپرانی جماعتیں ہی کولہو میں رہ جائیں اور جو بھی ہو بیل ایک ہی رہے، ایک صاحب نے پے در پے ایسی غلطیاں کر ڈالیں کہ پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا۔ البتہ اس کے ووٹرز ، سپورٹرز کہتے ہیں کہ اپنی جگہ موجود ہیں۔ اسی سیاسی کھیپ میں ایک عدد مولانا بھی ہیں جو حب الوطنی سے سرشار قاسم کے ابا کو کسی طور معاف کرنے کو تیار نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ وفاق میں حکومت کون بنائے گا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سب کے پاس نہیں ہے، ایک وقت تھا کہ اچانک ایک پارٹی کو سب سے بڑی سیاسی جماعت کہا جانے لگا لیکن جو دو بڑی پارٹیاں تھیں بڑی ہی رہیں، سیاسی جوڑ توڑ کے لئے تانگہ پارٹیاں وافرہیں اس طرح مائنس ون اور پلس کئی جماعتیں سیاسی ہنگامہ برپا کردیں گی۔باقی یہ کہ کوئی حتمی پیش گوئی کی جائے تو ایں خیال است و محال است و جنوں۔ ہمارے ہاں سیاست دراصل دولت کی فراوانی کا کھیل ہے۔ اس لئے پہلے یہ کھیل کھیلا گیا اور پھرلنگوٹ کس کر یاران تیزگام نے میدان سیاست میں چھلانگ لگا دی، اور اس طرح کے حالات میں کچھ کہنا آسان نہیں۔

٭٭٭٭

ہمارا وطن ہماری دنیا

ہم باقی دنیا کی بات نہیں کرتے اپنے ملک پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اپنے وجود کے حوالے سے بے مثال ہے، اگر جلے برتن میں نجاست ڈالی جائے تو کوئی بھی خود کو نہیں برتن کو الزام دیتا ہے، 75 برس ایک طویل عرصہ ہے اگر ہم اس جنت نظیر وطن کے مطابق چلتے تو آج پاکستان کے باسی اس قدر تنگ دست نہ ہوتے، مگر ہم نے ملک کے مطابق چلنے کے بجائے ملک کو اپنے پیچھے چلایا، یہاں کسی چیز کی کمی نہیں لیکن ایک طبقہ ہے جو اکثریت کو غربت و افلاس سے نکلنے نہیں دیتا، نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ قرضے بھی غریبوں کے نام پر لے کر ان تک نہیںپہنچنے دیئے جاتے، زمین وطن میں ایسی زرخیزی ہے کہ جو چاہو کھود کر نکال لو۔ مگر اس طرح تو عوام ، خواص بن جائیں گے پھر کس پر حکم چلایا جائے گا، کس کو آداب غلامی سکھائے جائیںگے، سو سالہ انگریز سامراج نے برصغیر پر حکومت کی تحریک آزادی ہند نے پورے ہندوستان کو آزادی دلا دی مگر پھر سے مسلم آبادی کو ایک اور غلامی کا سامنا تھا جس سے قائد اعظم محمد علی جناح نے نجات دلائی اور ایک آزاد ملک پاکستان مسلمانان ہند کو عطا کردیا، اب جبکہ ہم آزاد ہیں کچھ طبقے یہاں کے عوام کو دولت اور نام نہاد سیاست کے ذریعے غلام بنانے کے درپے ہیں، سیاست اور حکمرانی موروثی ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت آگے نہیںبڑھ سکتی اور اشرافیہ کی اقلیت وسائل پر قابض ہے، تعلیم پر دانستہ توجہ نہیں دی جاتی، عوام کو اب اپنے ساتھ ہونے والی یہ زیادتی روکنے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا، ورنہ پاکستان اشرافیہ کے ہاتھوں غلاموں کا ملک بن جائے گا۔

٭٭٭٭

نیا سال پرانے دکھڑے

جو قوم ہر آنے والے دن سے امید باندھے اس کا نئے سال کے طلوع ہونے پر کیا عالم ہوگا، نیا دن ہو یا نیا سال پاکستانی عوام خالی ہاتھ خالی دامن ہی رہتے ہیں، ہر نئے دن نے ناامیدی دی تو 2024ء تو مہنگائی کا ایٹم بم ہوگا۔ ہم ہوا میں بات نہیں کر رہے کیونکہ ہمارا 76 سالہ تجربہ ہے ہر نئے سال پر ناامیدی سمیٹتے ہوئے، ہر گزرا سال موجودہ سے بہتر لگتا ہے اس کو ترقی معکوس کہتے ہیں، اب تو یہ حال ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور اسی سے توقع ہے کہ وہ ہمارے ووٹ دینے کی خطا کو معاف کردے، ہر پانچ سال بعد ہم کسی حکمران کا انتخاب کرکے اپنے لئے کسی نئے عذاب کا انتخا ب کرتے ہیں۔ 2023ءکو خوش آمدید کہتے ہیںکہ یہ اب ہمارا معمول بن چکا ہے۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ سرے سے ووٹ ہی نہیں ڈالتا، یہی وجہ ہے کہ واضح اکثریت کسی کو نہیں ملتی اور ایک غیر مستحکم حکومت بنتی ہے بگڑتی ہے، اکثر ووٹ نہ دینے والے کہتے کہ کوئی ووٹ کے قابل ہی نہیں تو کسی کم قابل ہی کو ووٹ دے دیں، مگر اپنا ووٹ ڈالنے کا حق ضرور استعمال کریں، ہمارا اندازہ ہے کہ آدھی بالغ آبادی ووٹ کاسٹ نہیںکرتی اس کا نقصان عوام کو ہوگا۔ہمارے ہاں سیاست، موروثیت، ذاتی مفاد اور تقریباً بادشاہت کےقریب قریب ہے، اقتدار پرستی سے کوئی بھی دور نہیں، بلکہ یہ موجودہ ملکی سیاست کا جزو لاینفک ہے، جس طرح روتے بسورتے ہم نے 76برس گزار دیئے 2024ء بھی کچھ مختلف نہ ہوگاہم نے جو کچھ کہا وہ اپنی جگہ لیکن امید نہیں ٹوٹی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘‘۔

٭٭٭٭

سنگرز قوال ہوگئے

O... معاشی تجزیہ کے ادارے کہتے ہیں: دنیا 2024ء میں معقول شرح ترقی نہیں دیکھ پائے گی۔

دنیا بھر میں معقول ترقی نہ دیکھ پانے کا منظر تو ہم پاکستانی برسوں سے دیکھ رہے ہیں، اس لئے یہ معاشی تجزیہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔

O... نگران وزیر اعظم:پولیو قطرے پلانے کو غیر شرعی سمجھنا بدقسمتی، علماء ایسے عناصر کا محاسبہ کریں۔

O... شادی بیاہ میں قوالی فیشن بن گئی، 2023ء میں قوالی نائٹس کا چلن عروج پر رہا۔

قوالی کا براہ راست تعلق مذہب سے ہے، سلسلہ چشتیہ میں قوالی اہم مذہبی کلام پیش کرنے کا مخصوص انداز ہے۔ حیرانی ہے کہ کئی سنگرز بھی قوال بن گئے، بڑے بڑے کلاسیکی موسیقی کےاساتذہ کہہ گئے ہیں کہ جب کوئی گائیک بگڑ جائے تو وہ قوال بن جاتا ہے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین