• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے لاہور میں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں ان شہریوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے بلوچ بہن بھائیوں پر پولیس تشدد کی مذمت کرنے کی جسارت کی تھی۔ نگران وزیراعظم نے فرمایا کہ یہ 1971 ءہے اور نہ اب کوئی بنگلہ دیش بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں ہتھیار اٹھانے والے علیحدگی پسندوں کو دشمن ممالک کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ 98فیصد بلوچ پاکستان کیساتھ ہیں۔ کاکڑ صاحب کے مطابق عدالتیں 90ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں میں سے 9 افراد کو بھی سزائے موت نہیں دے سکیں۔ نگران وزیراعظم نے اسلام آباد میں احتجاج کیلئے آنے والے چند درجن بلوچ ہم وطنوں پر پولیس تشدد پر معذرت تو کی لیکن پولیس ایکشن کا دفاع بھی کیا۔ فصیح و بلیغ نگران وزیراعظم نے اس بیان میں بہت سے معاملات گڈمڈ کر دیے ہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی نگران حکومت اگست میں قائم ہوئی تھی۔ تاہم آئینی پیچیدگیوں کے باعث مقررہ آئینی مدت میں عام انتخابات تو منعقد نہیں ہو سکے۔ اس کی بنیادی وجہ آئین کی شق 224 میں پایا جانے والا تناقض ہے۔ آئین کی شق 224 میں نگران حکومت کا تصور معروف جمہوری اصولوں سے متصادم ہونے کے علاوہ ناقابل عمل بھی ہے۔ اگر یہ تناقض قائم رہتا ہے تو آئندہ کوئی بھی صوبائی اسمبلی تحلیل کر کے وفاقی اور صوبائی انتخابات کا بیک وقت انعقاد ناممکن بنا سکے گا۔ قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے پنجاب کو 173 نشستیں حاصل ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجاب میں پانچ سالہ میعاد رکھنے والی صوبائی حکومت موجود ہو جبکہ باقی صوبوں میں نگران حکومتیں کام کر رہی ہوں۔ ایسی صورت میں نگران حکومتوں کی آئینی میعاد ناگزیر طور پر متاثر ہو گی۔ یاد رہے کہ نگران حکومتوں کی تشکیل کا طریقہ کار شفاف نہیں بلکہ اسے سیاسی قیادت پر بدیہی عدم اعتماد سمجھنا چاہیے۔ اگر ایک منتخب حکومت آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے شفاف انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکتی تو صوابدیدی طور پر مقرر کردہ نگران حکومتیں شفاف انتخابات کیسے یقینی بنائیں گی۔ نگران حکومت کا تصور دراصل عقب نشین قوتوں کو سیاسی جوڑ توڑ کا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔

نگران وزیراعظم نے بجا فرمایا کہ یہ 1971 نہیں اور نہ کوئی بنگلہ دیش بننے جا رہا ہے۔ اتفاق سے نگران وزیراعظم مئی 1971 میں پیدا ہوئے تھے چنانچہ ہماری تاریخ کے اس سیاہ برس کے واقعات ان کا براہ راست مشاہدہ نہیں۔1971 میں مشرقی پاکستان کے بحران پر مغربی پاکستان میں چند آوازوں کو چھوڑ کر مکمل خاموشی طاری تھی۔ مغربی پاکستان کے اکثریتی رہنما ذوالفقار علی بھٹو فوجی کارروائی کی کھلم کھلا حمایت کر رہے تھے۔ ذرائع ابلاغ پر مشرقی پاکستان کے واقعات کی یک طرفہ تصویر پیش کی جا رہی تھی۔ چناچہ 16 دسمبر کی شام مغربی پاکستان کے عوام پر 27 لفظوں پر مشتمل ایک سرکاری بیان کے ذریعے مشرقی پاکستان کے ’مقامی کمانڈرز‘ کے درمیان جنگ بندی کی اطلاع ایک ناقابل یقین قیامت بن کر ٹوٹی تھی۔ انوار الحق کاکڑ کو خوش ہونا چاہیے کہ آج پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں کے دل بلوچستان کے عوام کے لیے دھڑکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 98 فیصد نہیں بلکہ 100 فیصد بلوچ عوام محب وطن پاکستانی ہیں اور ملک میں کوئی قابل ذکر سیاسی جماعت مٹھی بھر علیحدگی پسند بلوچ عناصر کی حمایت نہیں کر رہی۔ ہماری عرضداشت تو صرف یہ ہے کہ عوام کو بے خبر نہ رکھا جائے اور چند ملک دشمن عناصر کی آڑ میں بلوچ عوام کے ساتھ ناروا اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال نہ کیے جائیں۔ اصولی طور پر نگران وزیراعظم کو اسلام آباد پہنچنے والی بلوچ ماؤں اور بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں ریاستی تحفظ کا یقین دلانا چاہیے تھا۔ نگران وزیر اعظم جس عدالتی نظام پر تنقید کر رہے ہیں وہ نظام عدل آئین کی شق 10 کے تابع ہے۔ پاکستان کے ہر شہری کو شفاف سماعت کا حق حاصل ہے اور کسی بلوچ ہم وطن کو اس حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ عدالتیں ریاست کے یک طرفہ موقف کی بنیاد پر سزائیں نہیں دے سکتیں۔ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ گزشتہ برسوں میں جو مسخ شدہ لاشیں بلوچستان سے برآمد ہوئی ہیں وہ واقعی علیحدگی پسند تھے یا اخفا کے پردے میں معصوم شہری ریاستی جبر کا شکار ہوئے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے نوے ہزار پاکستانیوں کی اموات کا ذکر کر کے مذہبی انتہا پسند دہشت گردوں کو بلوچستان کے سوال سے خلط ملط کیا ہے۔ مذہبی دہشت گرد پاکستان کے جمہوری بندوبست کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ چند علیحدگی پسند عناصر سے قطع نظر بلوچ عوام کا مطالبہ سیاسی حقوق اور معاشی انصاف سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کے محب وطن عناصر بلوچ عوام کے جائز آئینی مطالبات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وفاق کو مضبوط بنانے کا یہی درست طریقہ ہے۔ نگران حکومت کا آئینی منصب ریاستی پالیسیاں طے کرنا نہیں بلکہ انتخابات کے عمل کی غیر جانب دار نگرانی کرنا ہے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم کی حکم کی تعمیل میں ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو ہمیں معیشت کا سوال نظر آتا ہے۔ بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ امریکا کی معیشت کا حجم 27 کھرب ڈالر اور چین کی معیشت 18 کھرب ڈالر ہے۔ بھارت چار کھرب ڈالر اور انڈونیشیا ڈیڑھ کھرب ڈالر کی معیشت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا کل حجم 340 ارب ڈالر ہے۔ فی کس آمدنی میں امریکا 75 ہزار ڈالر، چین 12 ہزار ڈالر، انڈونیشیا 5 ہزار ڈالر، بھارت 2600 ڈالر اور پاکستان میں فی کس آمدنی بمشکل 1600 ڈالر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور شرح خواندگی دیکھئے۔ سب اعداد و شمار اجتماعی شرمندگی کا مضمون ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ آمدہ انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔ نگران وزیراعظم ان مسائل پر رہنمائی فرماتے تو زیادہ مناسب تھا۔

تازہ ترین