اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں جج بننے کیلئے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں، وکیل سے ہائی کورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دہری شہریت کی معلومات نہیں لی جاتیں۔
جواب دیا گیا ہے کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے 6 ججز کےخط پر ازخود نوٹس کی کارروائی میں یہ بات واضح کی، جسٹس اطہر نے بتایا جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ جوڈیشل کونسل میں ڈسکس ہوا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ڈسکشن کے بعد جسٹس بابر ستار کو جج بنانے کی منظوری دی، یہ عدالت جوڈیشل کمیشن کے ڈسکشن کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔
رجسٹرار آفس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جواب میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ پریس ریلیز میں وضاحت تھی کہ جسٹس بابر ستار نے بتا دیا تھا وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھے15 دن ہوگئے لیکن جواب نہیں آیا، کوئی کاغذ اور ثبوت نہیں آرہا جس کی وجہ سے لوگوں میں شک پیدا ہو رہا ہے امید ہے جلد جواب آئے گا اور آنا چاہیے اور جواب لیں گے۔
فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ 28 اپریل چھٹی کے دن بابر ستار سے متعلق پریس ریلیز جاری ہوئی، بابر ستارسے متعلق کہا گیا کہ وہ پاکستانی ہیں، میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا جس کو پندرہ دن گزر گئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سینیٹر فیصل واوڈا نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا تھا، جس میں آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات فراہمی کی درخواست کی تھی۔
آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے جسٹس بابر ستار اور سابق چیف جسٹس کے درمیان خط و کتابت کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی تھی۔
خط میں کہا گیا تھا کہ بطور پاکستانی شہری عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں اور ججز کا بے حد احترام کرتا ہوں، جسٹس بابر ستار کے خلاف مہم کے حوالے سے رجسٹرار نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے، پریس ریلیز کے مطابق جسٹس بابر ستار نے اپنے گرین کارڈ سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا۔
خط کے ذریعے فیصل واوڈا نے استدعا کی کہ جسٹس بابر ستار اور سابق چیف جسٹس کے درمیان خط و کتابت کی کاپی فراہم کی جائے، آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات فراہمی کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو درخواست کی ہے۔