• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ایک انتہائی حساس اور فیصلہ کن دورانیے میں داخل ہوچکے ہیں۔اللہ خیر کرے۔ امکانات بھی شاندار ہیں اور خطرات بھی قدم قدم۔ فیصلہ ہم پر منحصر ہے۔ ہماری سوچ مقامی نہیں آفاقی ہونی چاہئے۔

اس دورانیےکے اثرات پوری صدی پر مرتسم ہوں گے۔ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ گزشتہ صدیاں بھی ہر نئے سال پر پنجہ آزما ہوتی ہیں۔ وہ جو مطالعے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان سے ماضی سرگوشیاں کرتا ہے۔ وہ ماضی بھی جو انہوں نے جیتے جاگتے دیکھا۔ وہ بھی جو ان کے پرکھوں نے دیکھا۔ ہم محسوس کریں کہ نہیں ہمارے لاشعور میں ہمارے بزرگ کہیں نہ کہیں گوشہ نشیں ہوتے ہیں۔ ہمیں نیک و بد سمجھارہے ہوتے ہیں۔ اس بڑھاپے میں ہم جیسے کم علموں کا استعمال یا تو صدارت کی کرسی پر ہوتا ہے یا پیش لفظ لکھنے میں۔ بعض کتابیں معلومات میں بیش بہا اضافہ کرتی ہیں ہمارے اپنے عہد کے بہت سے ایسے گوشے ان تحریروں میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ میں اپنی ضخیم خود نوشت ’شام بخیر‘ میں یہ مشاہدہ کیوں نہ بیان کرسکا۔

آج کل بلوچستان سے متعلق کچھ انکشافات پڑھنے میں آئے ہیں۔ پہلے تو احمد خان اچکزئی صاحب کی خود نوشت میں۔ جنہوں نے مجھے Return of a Kings پڑھنے پر آمادہ کیا۔ پھر سابق وفاقی وزیر۔ سفیر پنجگور کے دانشور سیاست دان میر امان اللہ گچکی کی آپ بیتی۔ یہ چند برسوں کی نہیں چند صوبوں کی سچ بیتیاں ہیں۔ ایک Great Game۔ بڑا کھیل جاری ہے ۔چھوٹے ملکوں کے حکمران بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ بڑی طاقتیں پتھر کے زمانے میںبھی متحرک رہی ہیں پھر لکڑی کے دَور میں بھی۔ پھر پہیےکے عالم میں بھی ۔ ہابیل قابیل کے پیروکار نسل در نسل ہلاکتوں کے مشغلے میں محو رہے ہیں۔ انسان نے جو کچھ ایجاد کیا ہے۔ بڑی طاقتوں نے اسے چھوٹی قوموں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا ہے۔ امریکہ دریافت ہونے سے پہلے برطانیہ کو یہ خبط جہاں بانی تھا۔ برطانیہ کے ساتھ ساتھ یورپ کی دوسری قوموں کو بھی دماغ کے اس خلل نے سمندروں دریائوں۔ جنگلوں میں گھمائے رکھا۔ بالآخر دو بڑی جنگوں نے ان طاقتوں کو زندگی کی اہمیت کا احساس دلایا۔ اب اس پیمانے پر لڑائی سے تو یہ ڈرتی ہیں۔ لیکن اپنے اسلحے کے تجربات کیلئے فلسطین۔ ویت نام۔ کشمیر۔ روانڈا۔ خون بہاتی رہتی ہیں۔ کئی خطوں میں پڑوسیوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلتی ہیں۔ افغانستان ہمارے پڑوس میں ہے۔ ہم اس ہمسائے کی حفاظت کی بجائے یہاں دنیا بھر کی فوجوں کے آتش و آہن کے تجربات میں ان کی اعانت کرتے رہے ہیں۔

اب 8 فروری میں صرف 35دن رہ گئے ہیں۔ اب تک علم نہیں ہے کہ کروڑوں ووٹرز کو اپنے قیمتی ووٹ کے آزادانہ اور منصفانہ استعمال کا موقع ملے گایا نہیں۔ انتہائی حساس محل وقوع رکھنے والی 60 فی صدنوجوان آبادی والی مملکت کی بد قسمتی ہے کہ یہاں اطمینان اور سکون تو بہت کم ہوتا ہےتعصبات اور تضادات۔ صدیوں کی وراثت رکھنے والی قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رکھتے ہیں۔آج کی عالمگیر دنیا میں مواصلاتی ایجادات نے سرحدوں کو بے معنی کردیا ہے ۔انسان الگ الگ شناخت رکھتے ہیں۔ پاسپورٹ ویزے کی پابندیاں ہیں۔ لیکن معیشت ۔ تجارت۔ عالمی قوانین ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھتے ہیں۔ جن قوموں نے اپنے رہن سہن کے سسٹم بنالیے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ وہاں فرد کی ایک حیثیت ہے۔ وقار ہے۔ یہ فرد خود بھی اپنی اہمیت کا وجدان رکھتا ہے۔دنیا بھر میں ہمسائوں نے اپنے علاقائی تعاون کے بہت سے سسٹم بنالیے ہیں۔ وہاں زندگی آسان ہوگئی ہے۔ ایسے علاقوں کی طرف ہجرتیں بھی ہورہی ہیں۔ ہمارے کتنے لاکھ نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ کو وطن میں چھوڑ کر وہاں جابسے ہیں۔ ہمارا علاقائی تعاون ’سارک‘ ایک قدم بھی آگے نہیںبڑھا ہے۔ حکمراں اس طرف متوجہ بھی نہیں ہیں۔

الیکشن انڈیا میں بھی ہورہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں، امریکہ میں اور شاید یورپ کے کئی ملکوں میں۔ یہ سال افغانستان اور ایران کیلئےبھی اہم ہے۔ ہمیں یہ اطمینان تو ہونا چاہئے کہ افغانستان میں امن ہے ترقی ہورہی ہے۔ ہم خام خیالی میں کہتے تھے امریکہ چلا گیا تو افغانستان کے ’وارلارڈز‘ قبائلی سردار پھر آپس میں لڑیں گے۔ ایسی خبریں نہیں آر ہیں۔ ممکن ہے کہ بیرونی مداخلت نہ ہونے سے افغانوں کو امن نصیب ہورہا ہو۔ ہماری اپنی اندرونی لڑائیاں جاری ہیں۔ اس لیے ہم وہاں اپنا شوق پورا نہیں کرپارہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عالمی کھیل ختم ہوگیا ہے۔دنیا بھر کے حکمرانوں کے آپس میں تعلقات ہیں۔ مل بانٹ کر کھارہے ہیں۔ ان ملکوں کے عوام کا آپس میں رابطہ نہیں ہے۔ حالانکہ انسانیت کی سر بلندی کیلئے، زندگی کی آسانی کیلئے یہ رشتے ناگزیر ہیں۔ ایسا دَور آگیا ہے کہ بیسویں صدی والے آفاقی نظریات، نئی تحریکیں، نئے افکار جنم نہیں لے رہے ہیںیا ہم تک نہیں پہنچ رہے۔ یونیورسٹیوں کے آپس میں روابط ہیں۔ لیکن صرف ٹیکنیکل۔ ایک دوسرے کے ملک میں خوشحالی کیلئے نہیں۔ زیادہ تر یہ ہورہا ہے کہ غریب ملکوں کے رئیس ذہن امیر ملکوں کو منتقل ہورہے ہیں۔ مالی طور پر غریب ملک ذہنی طور پر بھی مفلس ہو رہے ہیں۔ صرف چین اپنے ایک پٹی ایک سڑک پروگرام کے ذریعے چاہتا ہے کہ ساری قومیں اپنے اپنے علاقوں میں رہتے ہوئے خوشحال ہو جائیں۔ امریکہ، برطانیہ یورپ ایسا نہیں چاہتے۔ عالمی یونیورسٹیاں ہمارے نوجوانوں کو تحصیل علم کے بعد وہیں روک لیتی ہیں۔ ان خراب حالات کا حوالہ دے کر جواِن بڑی طاقتوں نے خود ہماری بستیوں میں پیدا کیے ہیں۔

اپنے ملک کے مختلف صوبوں، علاقوں میں عام لوگوں کے درمیان باہمی ربط کیلئے تو میں زور دیتا رہتا ہوں اب میں ہمسایوں اور دوسرے ملکوں کے عوام سے اپنے عوام کے روابط کی دعوت بھی دینا چاہتا ہوں۔ یونیورسٹیوں، میڈیا، ادیبوں،شاعروں کا آپس میں فعال تعلق ہونا چاہئے۔ اپنی تحریروں کا ایک دوسرے کی زبانوں میں ترجمہ کریں۔ اب تو واٹس ایپ،سوشل میڈیا میسر ہیں۔ مفت بات چیت ہوسکتی ہے۔ ان آلات کے استعمال کو بامقصد بنائیں انسانیت کے وقار، برابر کی دنیا تخلیق کرنے کیلئے رابطہ کریں۔ مجازی تعلقات استوار کرکے بالمشافہ ملاقاتیں بھی کریں۔ مسلم ملکوں کے اور خاص طور پر غریب ملکوں کے عام شہریوں کے درمیان رابطے دنیا کو پُر امن بناسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مشکلات سمجھ سکتے ہیں۔عام لوگوں میں دوستی، مفاد پرست سفاک حکمرانوں کے ’’بڑے کھیل‘‘ کو ناکام بناسکتی ہے۔ 2001دسمبر میں جنگ گروپ نے مسلم ملکوں میں بیداری کیلئے ایک عالمی سیمینار کا اہتمام کیا تھا۔جس میں امریکہ، برطانیہ، ملائشیا، ترکی، سعودی عرب، مصر، ایران سے اسکالرز نے شرکت کی۔ اسی پیمانے پر مذاکرے اور روابط پھر وقت کا تقاضا ہیں۔

تازہ ترین