• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چہرے بدلتے رہے، غیر متوقع واقعات، الم ناک سانحات وقوع پذیر ہوئے

ہر برس کی طرح 2023ء میں بھی کچھ اہم شخصیات، سیاسی جماعتیں، ادارے اور حالات و واقعات منظرنامے پر چھائے، خبروں میں خاصے ’’اِن‘‘ رہے اور کچھ پسِ پردہ چلے گئے یا ’’آؤٹ‘‘ ہوگئے، تو آئیے، ذرا ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

پی ڈی ایم آؤٹ، نگراں حکومت اِن

اگست 2023ء میں حسبِ توفیق اور آئین کی رُو سے پی ڈی ایم کی حکومت اسمبلی کی مدّت پوری ہونے پر برخاست ہو گئی اور اس کی جگہ نگراں حکومت نے لے لی۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کے خاتمے اور قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومتیں عمران خان کی ایما پر قبل از وقت ہی ختم کر دی گئی تھیں اور یوں ان دونوں صوبوں میں پہلے ہی نگراں حکومتیں قائم ہو چُکی تھیں۔ 

بانی پی ٹی آئی کو اُمید تھی کہ شاید اس طرح وہ خود ’’اِن‘‘ ہونے میں کام یاب ہو جائیں گے، مگر اُن کی امید بَر نہیں آئی۔ گرچہ پی ڈی ایم حکومت کا ’’آؤٹ‘‘ ہونا آئین کے مطابق تھا، لیکن انتخابات میں تاخیر دستور سے مطابقت نہیں رکھتی اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کی پاس داری کرتے ہوئے معیّنہ مُدّت میں صوبائی و قومی اسمبلیوں کے انتخابات کروا دیے جاتے، لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر عام انتخابات کے انعقاد میں غیر معمولی تاخیر کی گئی۔

شہباز شریف آؤٹ، انوار الحق کاکڑ اِن

نگراں حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شہباز شریف ’’آئوٹ‘‘ ہو گئے۔ بدقسمتی سے اپنے پندرہ ماہ پر مشتمل دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں وہ کوئی ایسی کارکردگی نہ دِکھا سکے کہ جس کی بنا پر اُن کے ’’آئوٹ‘‘ ہونے کا کسی کو کوئی دُکھ ہوتا۔ شہباز شریف کے دَورِ حکومت میں منہگائی اپنے عروج پر رہی اور شہری بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے بھی دُہائیاں دیتے رہے۔ البتہ، شہباز شریف نے’’ آئوٹ‘‘ ہونے سے پہلے بارہا یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے مُلک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ 

دوسری جانب انوار الحق کاکڑ کے ’’اِن‘‘ ہونے سے نگراں وزیرِ اعظم سے متعلق پائی جانے والی بے یقینی کی کیفیت ختم ہو گئی۔ تاہم، انوار الحق کاکڑ کے بہ طور نگراں وزیرِ اعظم انتخاب پر تمام حلقوں سے حیرت کا ضرور اظہار کیا گیا، کیوں کہ ان کے ’’اِن‘‘ ہونے سے قبل دیگر کئی جانے پہچانے نام زیرِ گردش تھے، جن کے حوالے سے توقّع کی جا رہی تھی کہ وہ نگراں وزیرِ اعظم بنیں گے۔ علاوہ ازیں، تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی نگراں وزیرِ اعظم تین ماہ کی مُدّت سے زیادہ ’’اِن‘‘ ہے۔

پرویز الہٰی آؤٹ، محسن نقوی اِن

چوہدری پرویز الہٰی اچّھے خاصے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی مسند پر متمکّن تھے کہ عمران خان کو نہ جانے کیا سوجھی ، انہوں نے اس عُمر میں پرویز الہٰی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے اور عدالتوں کے دھکّے کھانے پر مجبور کر دیا۔ ویسے پرویز الہٰی وزارتِ اعلیٰ سے دست بردار کیے جانے کے مستحق نہیں تھے، کیوں کہ ایک تو وہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان، عُمر عطا بندیال کی حمایت سے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے اور دوسرے یہ کہ ابھی صوبائی اسمبلی کی مدّت پوری ہونے میں چھے ماہ باقی تھے۔ اگر وہ چاہتے، تو اپنی نئی جماعت کے(پی ٹی آئی، جس کے وہ صدر بھی بن گئے تھے) چیئرمین کی حکم عدولی کر کے پنجاب اسمبلی توڑنے سے انکار بھی کرسکتے تھے، مگر اس کے برعکس انہوں نے ’’آئوٹ‘‘ ہونے کو ترجیح دی۔ 

پرویز الہٰی کے بعد سیّد محسن نقوی پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ بنے اور انوار الحق کاکڑ کی طرح اُن کا ’’اِن‘‘ بھی غیر متوقّع تھا، کیوں کہ نگراں وزارتِ اعلیٰ کے لیے ان کے علاوہ دیگر نام بھی زیرِ گردش تھے۔ یاد رہے کہ محسن نقوی پنجاب کے پہلے نگراں وزیرِ اعلیٰ ہوں گے، جو ایک سال سے زاید عرصے تک ’’نگرانی‘‘ کے فرائض انجام دیں گے۔ گو کہ اس دوران سپریم کورٹ اور صدرِ مملکت نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ عام انتخابات مقرّرہ مُدّت کے اندر کروائے جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

محمود خان ، اعظم خان آؤٹ ، ارشد حسین اِن

خیبر پختون خوا میں بھی عمران خان نے پنجاب والی غلطی دُہرائی اور اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان کو مجبور کیا کہ وہ صوبائی اسمبلی توڑ کر’’آئوٹ‘‘ ہو جائیں۔ اس طرح محمود خان سوا چار سال وزیرِ اعلیٰ رہنے کے بعد ’’آئوٹ‘‘ ہو گئے، جب کہ اس سے قبل مختلف ادوار میں منتخب ہونے والے وزرائے اعلیٰ، پرویز خٹک، امیر حیدر خان ہوتی اور اکرم خان دُرّانی نے اپنی پانچ سالہ مُدّت مکمل کی تھی اور غالباً خیبر پختون خواہ وہ واحد صوبہ ہے، جہاں یکے بعد دیگرے تین وزرائے اعلیٰ نے اپنی مقرّرہ مُدّت پوری کی ۔ محمود خان کے ’’آئوٹ‘‘ ہو جانے کے بعد 90سالہ اعظم خان ’’اِن‘‘ ہوئے۔ 

یوں معمّر ترین نگراں وزیرِ اعلیٰ کا اعزاز بھی خیبر پختون خوا کے حصّے میں آیا، تاہم وہ زیادہ عرصہ ’’اِن‘‘ نہ رہ سکے اور اپنی تین ماہ کی نگراں حکومت کی مُدّت پوری ہونے سے صرف 6 روز قبل فوت ہو گئے۔ اعظم خان کے انتقال کے بعد سابق جج، ارشد حسین شاہ نے نگراں وزیرِ اعلیٰ کا عُہدہ سنبھالا۔ اس سے قبل وہ گلگت بلتستان کی سپریم اپیل کورٹ کے چیف جسٹس رہ چُکے تھے اور نگراں حکومت میں وزیرِ قانون و اوقاف تھے کہ انہیں نگراں وزیرِ اعلیٰ کے طور پر ’’اِن‘‘ ہونا پڑا۔

مُراد علی شاہ آؤٹ، مقبول باقر اِن

پنجاب اور کے پی کے کی طرح عمران خان سندھ میں وہ کھیل نہ کھیل سکے کہ جس کے تحت صوبائی اسمبلی قبل از وقت آئوٹ کردی جاتی، کیوں کہ یہاں پی پی کی حکومت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ، مُراد علی شاہ اپنی مدّت مکمل کر کے ’’آئوٹ‘‘ ہوئے۔ 

واضح رہے کہ مُراد علی شاہ سابقہ دَورِ حکومت میں بھی دو سال وزیرِ اعلیٰ رہ چُکے تھے۔ یوں انہوں نے کُل سات سال وزیرِ اعلیٰ رہ کر اپنے پیش رَو، قائم علی شاہ کے نو سال وزیرِ اعلیٰ رہنے کے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔ مُراد علی شاہ کے ’’آئوٹ‘‘ ہونے کے بعد نگراں وزیرِ اعلیٰ کے طور پر جسٹس (ر) مقبول باقر ’’اِن‘‘ ہوئے۔ مقبول باقر اعلیٰ پائے کے جج رہ رہے۔ انہوں نے سات سال سپریم کورٹ کے جج اور دو سال سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

پیپلزپارٹی آؤٹ، نون لیگ اِن

2023ء کے ابتدا میں ایسا لگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی مقتدر حلقوں کے اَشیر باد سے ’’اِن‘‘ ہونے میں کام یاب ہو جائے گی اور پھر کچھ کُہنہ مشق سیاست دانوں کی پی پی میں شمولیت سے بھی اس تاثر کو تقویّت ملی، لیکن پھر اکتوبر کے آخر میں میاں نواز شریف کی مُلک میں آمد کے بعد مسلم لیگ (نون) نے سندھ اور بلوچستان میں ’’اِن‘‘ ہونے کا پیغام دیا اور جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دان جوق در جوق نون لیگ میں شامل ہوئے، تو پیپلز پارٹی ’’آئوٹ‘‘ ہوتی نظر آئی۔ تاہم، اب انتخابات تک نون لیگ ’’اِن‘‘ رہتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔

بلاول آؤٹ، زرداری اِن

انتخابی سیاست میں جب پیپلز پارٹی کو پے درپے دھچکے لگنا شروع ہوئے، تو آصف علی زرداری نے ایک بار پھر ’’اِن‘‘ ہونے کا فیصلہ کیا، جب کہ اس سے قبل وہ بڑی حد تک اپنے بیٹے، بلاول بُھٹّو زرداری کو ’’اِن‘‘ رکھنے کا عندیہ دے چُکے تھے، مگر جب اُنہیں یہ اندازہ ہوا کہ بلاول کو ’’اِن‘‘ رکھنے کے سبب پیپلز پارٹی ہی ’’آئوٹ‘‘ ہو رہی ہے، تو پھر انہوں نے خود ہی پارٹی کی باگ ڈور دوبارہ سنبھالنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس سے قبل وہ سینئر صحافی اور معروف اینکر پرسن، حامد میر کو دیے جانے والے انٹرویو میں یہ کہہ کر بلاول کو ’’کھری کھری‘‘ سُنا چُکے تھے کہ نئی نسل ’’بابوں‘‘ کو بے عقل سمجھنے لگی ہے۔

بندیال آؤٹ، عیسیٰ اِن

2023ء میں جسٹس عُمر عطا بندیال چیف جسٹس آف پاکستان کے عُہدے سے ’’آئوٹ‘‘ ہو گئے۔ انہیں بھی خبروں میں ’’اِن‘‘ رہنے کا فن خُوب آتا تھا اور اس لیے وہ وقتاً فوقتاً ایسے مکالمے ادا کرتے رہے کہ جو اخبارات کی شہہ سُرخیاں اور بریکنگ نیوز بنے۔ پھر انہوں نے اپنے پورے دَور میں فُل کورٹ بینچ کو ’’آئوٹ‘‘ رکھا اور صرف اپنے ہم خیال ججز ہی کو ’’اِن‘‘ رکھنے کی کوشش کی۔ 

اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر ’’اِن‘‘ ہو چُکے ہیں اور انہوں نے ایک نئے طرزِ عدالت کو ’’اِن‘‘ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اب چاہے وہ عدالتی کارروائی کو براہِ راست ٹی وی پر دکھایا جانا ہو یا سادگی سے کام لینا۔ لگتا ہے، نئے چیف جسٹس عدلیہ سے نمود نمائش کو’’ آئوٹ‘‘ کرنے والے ہیں ۔

تحریکِ انصاف آؤٹ، استحکام پاکستان پارٹی اِن

عمران خان کی خُود پسندی اور ہٹ دھرمی بالآخر تحریکِ انصاف ہی کو ’’آئوٹ‘‘ کرنے میں کام یاب ہوئی۔ ایک آئینی و قانونی تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ’’آئوٹ‘‘ ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف سیاست میں پوری طرح ’’اِن‘‘ تھی، لیکن عمران خان نے شکست مانی اور نہ دیگر جماعتوں کو آگے آنے کا موقع دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ فوج سے تصادم پر آمادہ ہوگئے۔ نتیجتاً ایک نئی سیاسی جماعت، ’’استحکامِ پاکستان پارٹی‘‘ وجود میں آئی، جس میں عمران خان کے پُرانے ساتھی ’’اِن‘‘ ہو گئے۔

ہٹ دھرمی آؤٹ، عاجزی اِن

عمران خان کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے تتربتر ہونے کے بعد پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے عاجزی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ تمام شعلہ بیاں مقرّر، جو عمران خان کی حمايت میں ہر حد عبور کرنے پر آمادہ تھے، مقتدر حلقوں کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کرنے لگے، لیکن غالباً تب تک خاصی دیر ہو چُکی تھی اور عاجزی کا یہ مظاہرہ شاید اُس بغاوت و سرکشی کا مداوا نہ کر سکے، جو مُلک کے عوام پر مسلّط کرنے کی کوشش کی گئی۔

عمران آؤٹ، گوہر اِن

اپنی سیاسی جماعت اور انتخابی نشان بچانے کے لیے عمران خان بادلِ نخواستہ اپنی جماعت کی سربراہی سے ’’آئوٹ‘‘ ہونے پر آمادہ ہو گئے۔ پھر ایک نام نہاد ’’انٹرا پارٹی الیکشن‘‘ یعنی بین الجماعتی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا اور گوہر علی خان کو نئے چیئرمین پی ٹی آئی کے طور پر ’’اِن‘‘ کردیا گیا۔ 47سالہ گوہر علی ایک وکیل ہیں، جو اس سے قبل اپنے جماعتی انتخابات میں الیکشن کمشنر بھی رہ چُکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گوہر علی بھی عثمان بُزدار کی طرح پی ٹی آئی میں نو وارد ہیں اور اس سے قبل طویل عرصے تک پیپلزپارٹی سے وابستہ رہے ہیں۔

امن آؤٹ، جنگ اِن

بین الاقوامی طور پر دیکھا جائے، تو 2023ء میں امن ’’آئوٹ‘‘ ہو گیا اور جنگ ’’اِن‘‘ ہو گئی۔ بالخصوص غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بم باری نے پوری دُنیا پر جنگ کے بادل تان دیے۔ اس دوران اسرائیل، امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مسلسل ’’آئوٹ‘‘ کرنے میں مصروف رہا۔ عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر دوبارہ بم باری شروع کر دی، جس نے تباہی و بربادی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے، جب کہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس موقعے پر عالمی برادری بالخصوص اسلامی ممالک محض مذمّتی بیانات تک محدود رہے۔

’’را‘‘ آؤٹ، خالصتان اِن

بھارت کی خفیہ ایجینسی، ’’را‘‘ نے 2023ء میں ’’خالصتان‘‘ کے قیام کے لیے جدّوجہد کرنے والے سِکّھوں کو ’’آئوٹ‘‘ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت بیرونِ مُلک مقیم سِکّھوں کو قتل کیا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں ’’را‘‘ خود ہی ’’آئوٹ‘‘ ہو گئی، کیوں کہ امریکا اور کینیڈا نے براہِ راست ان کارروائیوں کا ذمّے دار ’’را‘‘ کو قرار دے دیا۔ علاوہ ازیں، قطر میں بھی چند بھارتی نیوی افسران کو سزائیں سُنائی گئیں، جو ’’را‘‘ کے لیے خدمات انجام دے رہے تھے ۔ اس طرح خالصتان تحریک ایک بار پھر خبروں میں ’’اِن‘‘ ہوگئی۔

بھارت آؤٹ، آسٹریلیا اِن

کھیلوں پر نظر ڈالیں، تو اس برس کرکٹ ورلڈکپ کے پورے ایونٹ میں تو بھارت ’’اِن‘‘ رہا، لیکن فائنل میں ’’آئوٹ‘‘ ہو گیا۔ بھارت، فائنل سے قبل تمام میچز میں ناقابلِ شکست رہا اور رائونڈ میچ میں آسٹریلیا کو بھی شکست دی ، مگر فائنل میں بھارت کا جادو نہ چل سکا اور اسے ایک غیر متوقّع شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجتاً، آسٹریلیا چھٹی مرتبہ عالمی کپ جیتنے میں کام یاب ہوا ،جب کہ پاکستانی ٹیم اس پورے ایونٹ میں شروع ہی سے ’’آئوٹ‘‘ رہی ۔ یہاں تک کہ اس نے افغانستان سے بھی شکست کھائی ۔

بابر اعظم آؤٹ ، شاہین آفریدی، شان مسعود اِن

پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ میں شکست کے بعد بابر اعظم کا ’’آئوٹ‘‘ ہونا نوشتۂ دیوار لگ رہا تھا۔ بابر اعظم ایک بہترین بلّے باز ہیں، لیکن بہ حیثیتِ کپتان اُن کی کارکردگی پر ہمیشہ ہی سوال اُٹھتے رہے اور بالآخر ورلڈکپ کے بعد انہوں نے تینوں فارمیٹس(ٹیسٹ،ون ڈے، ٹی ٹوینٹی) کی کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور یوں23سالہ شاہین آفریدی کو ’’اِن‘‘ ہونے کا موقع مل گیا اور انہیں ٹی 20ٹیم کا کپتان بنادیا گیا، جب کہ ٹیسٹ ٹیم کی قیادت 34سالہ شان مسعود کو سونپی گئی ہے۔