سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف (مرحوم) کی اپیل مسترد کرتے ہوئے خصوصی عدالت کی سزا درست قرار دے دی اور فیصلے میں سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے ورثاء نے متعدد نوٹسز پر بھی کیس کی پیروی نہیں کی، پرویز مشرف کی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ قانون کے منافی تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 17 دسمبر 2019 کو سزا سنائی، انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل نمبر 785 دائر کی۔
عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی جانب سے 16 جنوری 2020ءکو اپیل دائر ہوئی، سلمان صفدر نے بتایا کہ مشرف 5 فروری 2023ء کو انتقال کر گٸے، یہ اپیل 10 نومبر 2023ء میں سماعت کے لیے مقرر ہوئی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عدالت نے مشرف کے قانونی ورثاء کو پاکستان اور بیرونِ ملک دستیاب ایڈریسز پر نوٹسز جاری کیے، سپریم کورٹ نے اخبارات میں نوٹسز بھی شائع کرائے۔
سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف سے متعلق کیسز کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی بینچ میں شامل تھے۔
سماعت کے دوران توفیق آصف کے وکیل حامد خان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ پرویز مشرف نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے جو کرمنل اپیل ہے۔
عدالت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپیل کے ساتھ ممکن ہے آئینی درخواستوں پر بھی آج ہی فیصلہ سنا دیں، پرویز مشرف کے ورثاء کی عدم موجودگی میں تو ان کے وکیل کو نہیں سن سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں، ورثاء کے حق کے لیے کوئی دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے، عدالت 561 اے کا سہارا کیسے لے سکتی ہے؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس عدالت کے اقدام کو سراہتا ہوں، پرویز مشرف کے ورثاء پاکستان میں مقیم نہیں ہیں ۔
چیف جسٹس نے سلمان صفدر سے سوال کیا کہ آپ کے لاہور ہائیکورٹ پر تحفظات کیا ہیں؟
سلمان صفدر نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں مشرف ٹرائل والے جج کے سامنے سپریم کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوتا، اس بارے میں آپ کے چیمبر میں کچھ گزارشات ضرور کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کسی کو چیمبر میں نہیں بلاتے۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آرٹیکل 12 کے تحت مشرف کے ساتھ ملوث تمام افراد کے خلاف عدالتی دروازے تو کھلے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے، اس وقت کے وزیراعظم، وزیرِ قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بھی ملوث تھے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کو سنے بغیر خصوصی عدالت نے سزا دی، ایک شخص کو پورے ملک کے ساتھ ہوئے اقدام پر الگ کر کے سزا دی گئی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر 1999ء کی ایمرجنسی کی تحقیقات ہوتیں تو 3 نومبر کا اقدام نہ ہوتا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 5 فروری 2023ء کو پرویز مشرف کا انتقال ہوگیا تھا، اپیل سماعت کے لیے مقرر ہونے کے بعد لواحقین سے متعدد بار رابطہ کیا، لواحقین نے میرے متعدد پیغامات کے باوجود جواب نہیں دیا۔